میری پہچان، میری بقا
(سحر آزاد)
اکثر جب ہم اپنی بنیاد سے دور ہوتے ہیں تو بیرونی چمک دمک اور سراب اجالے ہمیں اپنے اصل سے رشتہ توڑنے پر اکسانے لگتے ہیں۔ ہم اپنے اصل سے بدگمان ہو جاتے ہیں۔ ہمیں اپنی حقیقت میں برائیاں ہی برائیاں نظر آنے لگتی ہیں اور ہم اپنی حقیقت سے نظریں چراتے ہیں۔ غیروں کے آئینوں میں ہمیں اپنی پہچان کم تر لگتی ہے۔ اور ہم اپنا قد بڑھانے کے لیے غیروں کی اقدار اپنا کر اپنی بنیاد سے رشتہ توڑ لیتے ہیں۔
اور جب بنیاد سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے تو انہونیاں معمول بن جاتی ہیں۔ پہلے عمل بدلتے ہیں پھر صحیح اور غلط کی پہچان بدلتی ہے اور پھر عقائد بدل جاتے ہیں۔ لیکن جیسے رنگ و روغن سے گدھے اور زیبرا کا فرق ختم نہیں ہو سکتا اس طرح بیرونی اقدار اپنانے اور اپنی اقدار سے کنارہ کش ہونے سے نوع تبدیل نہیں ہو جاتی۔ اور انسان ہمیشہ اسی نوع کا رہتا ہے جس نوع میں وہ پیدا ہوا تھا پھر چاہے ملمع کے لاکھ لبادے اوڑھ لے اس کی حقیقت ہمیشہ ایک ہی رہے گی۔ وہ حقیقت جو اس کی پیدائش نے اسے عطا کی تھی۔
اور یہی پہچان یہی اصل ہماری وقعت ہے اور اصل سے کو یاد رکھتے ہوئے ہمیشہ اس پر قائم رہنا ہی اپنی پہچان کی بقا ہے۔ ورنہ انسان بے نشان ہو جاتا ہے اور بے نشان انسانوں کو دنیا کے تمام معاشرے ایسے الگ تھلگ کر دیتے ہیں جیسے بنا پٹے کے کتوں کو کارپویشن والے رہائشی علاقوں سے الگ کر دیتے ہیں۔
بطور پاکستانی ہم ایک نوع ہیں۔ اور ہماری پہچان ہمارا اجتماعی عمل ہے۔ دشمنوں نے ہمیں کئی ناموں سے شہرت دے رکھی ہے اور ہمارے درمیان موجود ان کے نمائندے ہمیشہ اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ کوئی ہمیں دہشت گرد کہتا ہے تو پہاڑوں میں بیٹھا کوئی ’اپنا‘ سینکڑوں دھماکوں کو اپنا نام دیتا ہے، کوئی ہمیں شدت پسند کہتا ہے تو کوئی ‘اپنا‘ معصوم بچوں کے ہاتھوں میں ڈنڈے دے کر انہیں سڑکوں پر نکال لاتا ہے۔ اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے ہاتھوں مروا کر خود فرار ہو جاتا ہے، کوئی ہمیں بنیاد پرست کے نام سے پکارتا ہے تو ’ہم‘ ’’گو امریکہ گو‘‘ کے بلاوجہ نعرے لگاتے سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ اور کوئی ہمیں خواتین پر ظلم کرنے والا سخت گیر قرار دیتا ہے تو ’ہمارا‘ میڈیا ملک میں ہونے والے اکا دوکا واقعات کو نمایاں کرنے میں جت جاتا ہے۔
مگر وہ ہمارے ان ’اپنے‘ آرمی جوانوں کی بات کرتے ہوئے کیوں ڈرتے ہیں جو کہ دہشت گردوں سے لڑتے ہیں، ‘ہمارے‘ ان اسکالرز کی بات کیوں نہیں کرتے جو دن رات شدت پسندی کے خلاف جہاد کر رہے ہیں، ’ہمارے‘ ان سیاستدانوں کی بات کیوں نہیں کرتے جو کہ بین الاقوامی برادری سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے اپنے ہی ملک کا نقصان تک کر لیتے ہیں۔ ’ہمارے ‘ان‘ رحم دل افراد کا تذکرہ کرتے ان کی زبان کیوں گھبراتی ہے جو کہ ہزاروں یتیموں، بیواؤں اور ہزاروں مسکینوں کے لیے شجر سایہ دار بنے ہوئے ہیں۔
اگر وہ لوگ پاکستان میں موجود لاکھوں گندے اور برے لوگوں کی بات کرنے پر اپنا وقت، پیسہ اور توانیاں برباد کر سکتے ہیں تو پاکستان میں موجود کروڑوں اچھے افراد کی بات کرتے ہوئے انہیں کیا تکلیف ہوتی ہے۔
دراصل وہ پاکستان کی اچھائی پر بات کرنا ہی نہیں چاہتے۔ اور وہ کریں بھی کیوں۔ اس سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اپنا ایمج، اپنا تاثر اپنی پہچان ہمیں خود درست کرنی ہے اور اس کے لیے ہمیں کافی ٹھوس قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔
ہمیں اپنے معاشرے کے تربیت کدہ کو دوبارہ سے ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ ہماری زہنیت صرف تین چیزوں کے گرد گھومتی ہیں۔ ’’مذہب‘‘، ’’روایات‘‘ اور ’’بیرونی مداخلت‘‘ ہمیں ان تین چیزوں کو درست حالت میں استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمیں مذہب کے لیے درست استازہ کی تلاش و تربیت کرنا ہو گی۔
ہمیں اپنی اقدار و روایات پر نظر ثانی کر کے انہیں مناسب حالت میں لانا ہو گا۔
ہمیں بیرونی مداخلت (کلچر، اقدار) سے اپنی نوع کو بہتر انداز میں تعارف دینا ہو گا۔
تو ہم اپنی اصل پہچان بطور ایک ’’اچھی قوم‘‘ کو اپنے دشمنوں سے بھی منوا سکیں گے۔
ورنہ بھول جائیں۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment