Sunday, June 26, 2011

تصور کی آنکھ سے ون اردو گوشہ خواتین (حصہ دوئم)

تصور کی آنکھ سے ون اردو گوشہ خواتین (حصہ دوئم)

ویسے تو گینیس ورلڈ ریکارڈ لیول جھوٹ سننے کا مجھ میں زرا بھی حوصلہ نہیں تھا مگر دوستوں نے کہا کہ اس تحریر کو پورا کرو تو’’حضرت تصور‘‘ کو وہاں پہنچانے کی درخواست کی۔ جناب نے پھٹاک سے منع کر دیا لیکن پھر ہم نے’’تصور‘‘ کی ایسی منتیں کی بمشکل ہی سہی مگر وہ پھر سے اڑا اور ہمیں ساتھ لے کر گوشئہ خواتین میں چھوڑ گیا۔

آنکھوں سے پردے ہٹے تو ہم نے خود کو گوشہ خواتین کے فیملی روم کے دیواری پردوں کی اوٹ میں پایا۔ جہاں ’’ہنگامی ملاقات برائے ستائش وش آپی۔‘‘ ختم ہو چکی تھی۔ اور گول کمرے سے ساحرہ آپاں بھی اپنی مصیبتوں کو ’’مگروں لا کے‘‘ کچن کا رخ کر چکی تھیں۔ اور سب خواتین کے پر زور اصرار پر آلو کے سموسوں کے ساتھ ناریل کی چٹنی بنانے کی تیاری کر رہیں تھیں۔

کچن میں آتے ہوئے ساحرہ آپاں نے وش آپاں اور مون کو بھی ساتھ پکڑ لیا کہ اب تم دونوں نے پروفیشنل گھر داری کرنی ہے تو اس کا سلیقہ چیک کروا اور میری مدد کرو۔ جس پر دونوں نے خوب وویلا مچایا مگر ساحرہ آپاں نے ایک نہیں سنی اور انہیں پکڑ کر کچن میں لے ہی گئیں۔ پھر انہیں تمام طریقہ اچھے سے زبانی سمجھا دیا۔ جونہی انہوں نے طریقہ بتانا ختم کیا۔ سوبی نے کچن کے دروازے میں گردن نکال کر فوری طور پر ساحرہ آپاں کو پاکیزہ ڈائجسٹ کی مدیرہ کی طرف سے آنے والے فون کی طرف بتایااورچند سیکنڈ میں غائب بھی ہو گئی۔ جو کہ اس کی کچن سے دلچسی کا عمدہ مظاہرہ تھا۔

آپاں نے ان دونوں کو کام شروع کرنے کا کہا۔ اور خود عجلت میں فون سننے نکل پڑیں۔

اوروش آپی اور مون سسٹر دونوں منہ کھولے ان کی پھرتیاں دیکھتے ہی رہ گئیں۔

دونوں نے چند منٹ ساحرہ آپاں کا انتظار کیا جو کہ اب فون پر پوری طرح سے مصروف ہو چکی تھی۔

’’ارے وش یار، شروع کرو‘ اب ہم اتنے بھی گئے گزرے نہیں کہ پکوڑے بھی نہ بنا سکیں۔‘‘ مون سسٹر نے کہتے ہوئے بیسن کا ڈبہ نکال لیا۔
’’ہاں۔ آج سب بہنوں کو ورلڈ بیسٹ پکوڑے کھانے کو ملیں گے۔‘‘ وش آپاں نے ہاں میں ہاں ملائی اور پھر سر سپٹ دونوں کام میں مصروف ہو گئیں۔ وش آپاں پکوڑے بنا رہی تھیں اور مون سسٹر ناریل کی اسی طرح سے چٹنی بنا رہی تھی جیسے وہ مختلف رائٹرز کی کہانیوں کی بناتی ہیں۔

کچھ ہی دیر میں چٹنی تیار ہو چکی تھی۔ اچانک کسی نے وش آپاں کو آواز دی اور انہوں نے پکوڑوں کے لیے تیار بیسن مون سسٹر کے ہاتھ میں پکڑایا اور جلد ہی کچن سے اوٹ ہو گئی۔ مون سسٹر نے بیسن میں نمک، مرچ اور باقی مصالے ملائے اور اور پکوڑے تیار کرنے شروع رک دئیے۔ تھوڑی ہی دیر میں وش سسٹر بھی واپس آ گئی اور انہوں نے مون کو بتایا کہ منہا سسٹر آئیں ہیں۔

جلدی جلدی انہوں نے پکوڑے، چٹنی اور چائے بڑے سے ٹرے میں سجائی اور لے کر سب کے درمیان میں پہنچ گئے۔

پکوڑوں کی خوشبو بہت اچھی تھی۔ سب لوگوں نے آگے بڑھ کر پکوڑے اٹھائے۔ اور کھانا شروع کر دیا۔

’’اس کا زائقہ تھوڑا عجیب نہیں ہے وش کیا کسی خاص طریقے سے بنائے ہیں یا کوئی اسپشل چیز استعمال کی ہے۔‘‘ رافعہ خان آپ نے پکوڑوں کے زائقے کو محسوس کرتے ہوئے کہا۔
’’ساحرہ آپاں نے طریقہ بتایا تھا۔‘‘ وش نے کہتے ہوئے خود بھی ایک پکوڑا اٹھا کر منہ میں ڈال لیا۔
سب ہی بہنیں پکوڑے کھا بھی رہی تھیں اور منہ بھی بنا رہی تھیں۔ ساحرہ آپاں جو فون سن چکی تھی وہ بھی وہیں پہنچ گئیں۔ انہوں نے بھی ایک پکوڑ منہ میں ڈالا۔

اور ساتھ ہی باتھ روم کی طرف دوڑ لگا دی۔ جلدی سے پکوڑا اگلا۔ اور آتے ہی وش اور مون سے پوچھا کہ پکوڑوں میں کیا ڈالا ہے۔

’’وہی سب کچھ جو آپ نے بتایا تھا۔ بیسن، پانی، آلو، پودینہ، نمک اور مرچ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ اب وش بتا ہی رہی تھی کہ ساحرہ آپاں نے ان کی بات کاٹ کر پوچھا نمک کہاں سے لیا تھا۔
’’وہیں شلف سے جہاں پر مرچیں پڑی ہوئی تھی۔ ‘‘ مون سے سوچتے ہوئے جواب دیا۔

’’ارے وہاں تو میں نے ’’میٹھا سوڈا اور ٹاٹری ملا کر رکھی ہوئی تھی۔ سفید چنوں کے اچار کے لیے۔‘‘ ساحراں آپاں نے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے اور ان کی بات سن کر سب ہی بہنوں نے باتھ روم کی طرف دوڑ لگادی تھی۔ جو اندر گھس گیا وہ گھس اور جو باہر رہ گیا وہ زور زور پیٹ پکڑے دروازہ کھٹکھا رہا تھا۔

اور میں ساری داستان اپنے بھائیوں کو سنانے کے لیے جھٹ سے بھاگ کر واپس آیا اور یہاں سب کچھ لکھ

No comments:

Post a Comment