Sunday, June 26, 2011

تصدیق کی جنگ

--------------------------------------------------------------------------------

تصدیق کی جنگ



اسلام کے ظہور کے ساتھ ہی مشرکین اور یہود و نصاری نے اسلام کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا تھا۔ حق و باطل کا یہ معرکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وصال کے بعد خلفائے راشدین دور میں بھی جذبہ ایمانی اور زور شور کے ساتھ جاری رہا۔ اسلامی حکومت کی سرحدیں تیزی سے پھیلتی گئی۔ کفار کا غم وغصہ ڈر اور خوف میں بدلنے لگا اور روم میں سیاہ و سیفد کے مالک کلیسیاء کو اپنے اقتدار و مسند کی فکر لاحق ہو گئی۔

مشرکین اور یہود و نصاری یہ بات اچھی طرح سے جان چکے تھے کہ مسلمانوں کو اس وقت تک بزور طاقت ہرانا ناممکن ہے جب تک کہ انہیں قرآن اور حدیث سے دور کر کے ان میں پھوٹ نہ ڈلوا دی جائے۔ اٹلی اور فرانس کا کلیسیاء جو پہلے ایک دوسرے کے دشمن تھے انہوں نے گٹھ جوڑ کر لیا۔ اور ویٹی کن روم کو مسلمانوں کے خلاف چالیں اور سازشیں تیار کرنے والے ایک مرکز میں بدل دیا گیا۔ اور دنیا بھر کے تمام انسانوں کی پہنچ اس چھوٹے سے شہر میں خلاف قانون کر دی گئی۔

اس مرکز کے تربیت یافتہ لوگوں نے بھیس بدلے، مسلمانوں جیسی وضع و قطع اختیار کی اور دور دراز کے سرحدی عرب علاقوں کی مساجد میں بطور ’’مولوی‘‘ جگہ حاصل کر لی۔ ایسے لوگ ظاہری طور پر بہت نیکو کار ہوتے اور مسلمانوں کی تباہی کے اس مشن میں اپنا سب کچھ تیاگ کر شامل ہوتے تھے۔ان ’’مولویوں‘‘ نے مسلمانوں میں جھوٹی احادیث جو بظاہر کافی خوشنما دکھائی دیتی تھیں لیکن حقیقت میں اسلام کے اصولوں کے سخت مخالف ہوتی تھیں۔ پھیلانا شروع کر دیں۔ تقریبا ۱۵ سال تک شدید محنت کے بعد اسلام کے یہ دشمن مسلمانوں میں پوری طرح گھل مل گئے تھے۔ہزاروں کی تعداد میں جھوٹی حدیثیں پھیلائی جا چکی تھیں۔ پھر کلیسیاء اور یہود نے فخر یہ اعلان کرنا شروع کر دیا کہ ہم نے مسلمانوں کے مذہب میں تخریب کر دی ہے۔ ایسے میں ’’امام بخاری ‘‘ کے نام سے شہرت پانے والا ایک مرد مجاہد اٹھا اور انہوں نے حدیث رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور گمراہ کن حدیثوں کو علیحدہ کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔

اور انہوں نے بے تحاشہ سفر اور محنت کے بعد مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے روضہ مبارک کے پہلو مین بیٹھ کر آب زم زم کے ساتھ کتاب ’’الصحیح‘‘ کی تدوین کی۔جسے جو آجکل صحیح بخاری، یا بخاری شریف کے نام سے مشہور ہے اور جسے قرآن کریم کے بعد دنیا کی سب سے صحیح کتاب مانا جاتا ہے۔ جب حق کے سفر کا آغاز ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ مدد کرتا ہے اور کارواں‘ قافلوں میں تبدیل ہو تے ہیں اور قافلے آبادیاں اور پھر شہروں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ صحیح بخاری کے بعد اس کیٹگری میں حدیث کی پانچ اور کتابوں کو بھی شامل کر کے کفار کے اس حملے کا توڑ کر لیا گیا۔

مگر کافر اپنی سرزشت سے باز نہیں آیا اور پھر سے اپنے ناپاک عزائم کے ساتھ میدان میں نکل آیا اس بار اس کے منصوبے پہلے سے زیادہ خطرناک تھے۔

اس بار وہ کچھ بدلنے کے ارادے سے نہین آئے تھے۔ اس بار انہوں نے تشریحات کا سہارا لیا تھا۔ تمام اسلامی عوامل کی دو دو تین تین تشریہات کر کے مسلمانوں کو بانٹ دیا گیا۔ فقہ جو کہ پہلے صرف افکار پر سوچنے کا نام تھا۔ اسے فرقہ اور بعد ازاں مذہب کا درجہ دے دیا گیا۔ ایسے میں پھر ایک مرد مجاہد سلطان صلاح دین ایوبی اٹھا اور اس نے ان تمام سازشوں کا قلعہ قمہ کر دیا۔

ان سازشوں کے بعد مسلمان محتاط ہو گئے تھے اور اماموں اور موزن کی تقریری حکومت کی زمہ داری قرار دے دی گئی تھی۔ کافی جانچ پھٹک کر امام کا انتخاب کیا جاتا تھا۔

یہ صورتحال پھر سے کافر کے لیے بہت مشکل ہو گئی تھی۔ اسے اسلام کی تباہی کا منصوبہ کھٹائی میں پڑتا دیکھائی دے رہا تھا۔ مگر شیطان مردود نے انہیں ایک اور راہ سجائی۔ انہوں نے کمزور اور بے عمل مسلمانوں کو تاڑنا شروع کر دیا۔ انہیں زر سے زمین سے اور زن سے اپنے ساتھ ملاتے اور پھر انہیں تربیت دے کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے۔ ایسا صرف کچھ سالوں تک کرنا پڑا۔

کیونکہ اس کے بعد مسلمان اپنی راہ سے بھٹک چکے تھے۔ وہ فرقوں کے شیدائی ہو چکے تھے۔ صرف اور صرف تلقید ہی ان کی زندگی کا مقصد رہ گئی تھی۔ روایتوں کی تقلید، رواجوں کی تلقید، دین کے نام پر تقلید، زات پات، برادری، رنگ و نسل، زبان، ان لوگوں کے لیے اہمیت اختیار کر چکی تھی۔مسلمان اپنے بچوں کی تربیت سے آنکھیں چرا چکے تھے انہیں غیروں کے پاس بھیج رہے تھے۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات نظر انداز کر چکے تھے۔
اب ان کے لیے اہمیت صرف اور صرف ایک ہی چیز کی رہ گئی تھی،
آرام کی، سکون کی۔

تحقیق وتصدیق کی تمام تر زمہ داری لوگوں کے صرف ایک گروہ پر چھوٹی جا چکی تھی جن کی اکثریت یعنی 90 فیصد ایسے لوگوں پر مشتمل ہے کہ اگر وہ حدیث نقل کریں تو وہ حدیث بھی ضیعف کہلائے۔ اگر تشریح کریں تو وہ تشریح بھی ضیعف کہلائے۔

لوگوں کو قرآن کریم کو کھولنا بوجھ لگ رہا تھا۔

احادیث کی کتابین پڑھنے کے لیے بہانے تراشے جا رہے تھے کہ مجھے عربی نہیں آتی۔ کتاب نہیں ملتی۔ مسلمان غریب ہیں اس لیے صحاح ستہ کا ایک سیٹ خرید کر گھر نہیں رکھ سکتے۔

ہاں مگر ہر محلے میں کئی کئی بڑی عمدہ شاندار مگر نمازیوں سے خالی عمارتیں کھڑی کر کے انہیں مساجد کا نام دے سکتے ہیں۔

ان کا دینی علم بھی دوسروں کی دی ہوئی دینی بسارت پر مشتمل تھا۔ وہ بھی ایسے لوگوں پر جن کی بڑی تعداد معاشرے‘ عام دنیا مین ناکام ہونے کے بعد مدرسوں کا رخ کرتے ہیں۔

مگر قوم کے پڑھے لکھے لوگ، اب بھی تحقیق سے بھاگ رہے تھے۔

اب بھی علم دین کے لیے قرآن اور صحاح ستۃ ان کی پہلی چوائس نہیں رہی تھی۔ کیونکہ وہ یہ گمان کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دماغ کو ایسا بنایا ہی نہیں کہ دین ان کی سمجھ میں آ سکے۔

اور اب بھی یہ قوم ایسے ہی چلی جا رہی ہے۔ اور پتہ نہیں کہ اس کا اختتام کہاں پر جا کر ہو گا۔

کافر کامیابی کے بہت نزدیک ہے اور اس کی کامرانی کے درمیان صرف ایک ہی رکاوٹ ہے اور وہ ہے تصدیق۔ جسے شاید وہ عبور کرنے ہی والا ہے۔

No comments:

Post a Comment