Sunday, June 26, 2011

ٹیکنیکل مِسٹیک

ٹیکنیکل مِسٹیک



گل خان جیسے ہی اپنے گھر کا پردہ اٹھا کر اندر داخل ہوا۔ اس کی چھ سال کی بیٹی "بابا آ گئے، بابا آ گئے " کے نعروں کے ساتھ آ کر اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئی۔



گل خان نے جھک کر اس کو اپنی گود میں لیا اور اس کے موٹے موٹے گال کھینچتے ہوئے بولا۔"ہماری آمو! اپنے بابا کا انتظار کر رہی تھی۔"



"بابا۔ آپ میرے لیے کیا لائے ہیں؟"

چھوٹی آمنہ نے گل خان کے ہاتھوں کو دور ہٹاتے ہوئے بہت لاڈ سے پوچھا۔



گل خان نے اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا سیبوں سے بھرا تھیلا آمنہ کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔



"سیب! میں یہ سیب کسی کو نہیں دوں گی۔ سارے خود کھاؤں گی۔" آمنہ نے تھیلا تھام کر گل خان کی گود سے اتر سے بھاگ کر اپنی ماں فاطمہ کے پاس جاتے ہوئے کہا۔

"کیا اپنی اماں اور باجی کو بھی نہیں دو گی۔"

فاطمہ نے آمنہ کو سینے سے لگاتے ہوئے پوچھا۔

"نہیں۔" کہہ کر آمنہ بھاگتے ہوئے اندرونی کمرے میں گھس گئی اور اس سے دو سال بڑی بہن بھی اٹھ کر اس کے پیچھے بھاگ گئی۔



اس کے طرح سے بھانگے پر گل خان اور فاطمہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



"ساجد تم کب گھر پہنچ رہے ہو۔ تمہیں پتہ ہے تمہاری شادی میں صرف دو ہفتے رہ گئے ہیں۔ اگر تم کل تک گھر واپس نہیں آئے تو میں وہاں آ رہی ہوں۔اور خود کان سے پکڑ کر لے آؤں گی۔"

بیگم حامد اپنے بیٹے کیپٹن ساجد پر گرج رہی تھی۔ اور کچھ فاصلے پر بیٹھے مسٹر حامد اپنے بیٹے کی درگت بنتی دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔



"امی جان! میں نے بتایا بھی ہے کہ میری چھٹی منظور ہو گئی ہے میں جمعہ کو آ رہا ہوں اس سے پہلے نہیں آ سکتا۔آرمی کے قوانین انتہائی سخت ہیں۔"

دوسری طرف سے ساجد اپنی ماں کو سمجھانے کی کوشش کررہا تھا۔



"میں نہیں جانتی یہ قوانین پہلے حامد ان کی پناہ لیتے تھے اور اب تم۔ توکل آؤ گے مطلب کل آو گے۔"

بیگم حامد نے ضدی لہجے میں کہا تو مسٹر حامد کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ پھر تھوڑا سنجیدہ ہو کر سمجھانے والے انداز میں بولے۔ "بیگم! تمہاری یہ زبردستی ہم دونوں پر تو چل سکتی ہے۔ آرمی پر نہیں۔ بس دو ہی تو دن ہیں جمعہ میں۔ دو دن کی تاخیر سے کیا فرق پڑے گا۔"



"آپ چپ ہی رہیں۔ میں کچھ نہیں جاتنی۔ اور تم بھی سن لو ساجد اگر اب جمعہ کو نا پہنچے تو پھر تمہاری خیر نہیں۔"

بیگم حامد نے ناراض سے لہجے میں کہا اور پھر سلام کہنے اور دعائیں دینے کے بعد فون بند کر دیا۔



"آرمی والوں کے ساتھ رہنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔"



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



ابھی میجر سلمان اپنے دفتر میں آ کر بیٹھے ہی تھےکہ خصوصی فون کی گھنٹی سن کر چونک اٹھے۔ یہ فون صرف ان کے مخبروں کے لیے مختص تھا۔



"ہیلو۔ پبلک لائبریری"

میجر سلمان فون اٹھا کر لہجے بدلتے ہوئے بولا۔



"جی مجھے اردو کتاب ریفرنس نمبر 113 واپس کرنی ہے۔"

دوسری طرف سے کوئی پختون لہجے میں اردو بول رہا تھا۔



"اوکے۔ کلیر۔ تم اپنا پیغام نوٹ کروا دو۔"

میجر سلمان کے چہرے پر چھائی سنجیدگی کی جگہ اطمینان نے لے لی تھی۔



"مین ٹارگٹ نمبر 07 آج ایکس اہ تھرٹی پر ہو گا۔ پیغام ختم۔"

دوسری طرف سے کہنے کے ساتھ ہی رابطہ ختم کر دیا۔



پیغام سنتے ہی میجر سلمان کے چہرے پر جوش کی سرخی چھا گئی وہ فوری طور پر اٹھا اور اپنے سنیئر کمانڈر کے پاس جا کر ساری بات بتانے کے بعد ٹارگٹ کو ہٹ کرنے کے لیے ائیر فورس کو انفارمیشن ٹرانسفر کرنے کی اجازت طلب کی۔



"نہیں ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ کیونکہ مذکورہ پوائنٹ پر بہت زیادہ آبادی ہے۔ اس جگہ کو ہٹ کرنے کے لیے سب سے بہترین زریعہ ڈراون اٹیک ہی ہو سکتا ہے اور ہم قانونی طور پر اس علاقے کی انفارمیشن اتحادیوں کو منتقل کرنے کے پابند بھی ہیں۔"



سنیئر آفیسر نے کہا۔ اور وزارت خارجہ کو فون ملاتے ہوئے میجر سلمان کو جانے کا اشارہ کر دیا۔



میجر سلمان آفیسر کو سلوٹ کر کے واپس آ گیا اس کے چہرے پر غصے کے تاثرات صاف نظر آرہے تھے۔



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



"خان! اب آمنہ سات سال کی ہو گئی ہے اور اس نے پورا قرآن بھی پڑھ لیا ہے۔ اسے اسکول داخل کروا دینا چاہیے۔"

فاطمہ نے گل خان سے کہا تو گل خان کی پیشانی پر سوچ کی لائنیں بکھر گئیں۔



"فاطمہ! میری اولین خواہش ہے کہ میری بیٹیاں تعلیم حاصل کریں۔ لیکن میں صرف ایک مائن آپریٹر ہوں اگر ہما کے ساتھ ساتھ آمنہ کی بھی فیس جانے لگی تو ہم گزارہ کیسے کریں گے۔"

گل خان نے اپنی بڑی بیٹی کا نام لیتے ہوئے اپنی بیوی سے کہا تو بڑے مطمئن لہجے میں بولی۔



"آپ فکر مت کریں۔ جس اللہ نے پیدا کیا ہے رزق بھی وہ ہی دے گا۔ آپ بس اللہ کا نام لے کر بچی کا نام داخل کروا دیں۔ اللہ خود سبب پیدا کرے گا۔"

فاطمہ کے لہجے میں اطمینان ہی اطمینان تھا۔



"ٹھیک ہے! تم کل بڑی آپا کو بلا لینا اور ان کے ساتھ جا کر بچی کو اسکول میں داخل کروا دینا۔ لیکن داخلہ فیس کہاں دے دیں گے ابھی تو میرے پاس کوئی رقم نہیں ہے۔"

کہتے ہوئےگل خان کے لہجے میں پریشانی جھلکنے لگی۔



"آپ فکر مت کریں۔ میں نے کچھ روپے بچا کر مشکل وقت کے لیے رکھے ہوئے تھے۔ اگر وہ میری بچی کے کام نہ آئے تو اور کس کام آئیں گے۔"

فاطمہ رسان سے بولی تو گل خان کے چہرے پرشکر گزاری جھلکنے لگی۔



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



افغانستان میں موجود امریکن ڈرون سنٹر میں اس وقت کافی ہلچل مچی ہوئی تھی۔ ابھی ابھی حکومت پاکستان نے امریکہ کے ایک بہت بڑے دہشت گرد ک بارے میں اطلاع بھیجی تھی۔



میجر انڈریو کو یہ مشن اپنی نگرانی میں سر انجام دینے پر مامور کیا گیا تھا اور کیپٹن ڈرگ بھی اس کے ساتھ تھا۔ تمام ریڈنگز بالکل صحیح طریقے سے ایڈجسٹ کر دی گئی تھی اور اب ڈرون فضا میں اٹھ رہا تھا۔



سنٹر میں موجود تمام لوگ بہت مہارت کے ساتھ آلات کو کنڑول کر رہے تھے۔



سکرین پر ڈرون کو دیکھتا ہوا میجر انڈریو دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ وہ اس مشن کو باخوبی کامیاب کروا سکے۔



اب ڈرون پاکستانی حدود میں پہنچ چکا تھا۔ ابھی تک اس کو کسی بھی قسم کی رکاؤٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔



"بس پندرہ مزید منٹ تک کوئی گڑبڑ نہیں ہونی چاہیے۔" انڈرویو منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔



"کیا سب کچھ ٹھیک ہے سر۔" بربراہٹ سن کر ڈریگ نے پوچھا۔



"یس کیپٹن۔ سب کچھ ٹھیک ہے۔"



انڈریو کی آنکھیں سکرین سی چمٹی ہوئی تھیں۔



"ٹارگٹ ریچڈؕ"

کمپیوٹر کی آواز سنائی دی۔اور اس کے ساتھ ہی میزائل فائر ہو گیا۔ لیکن وہ میزائل ہوا میں ہی مڑا اور ایک دھماکے کے ساتھ اسکرین پر نظر آنے والی اسکول کی چھوٹی سی عمارت پر جا گرا۔



اینڈریو حیرت سے اسکریں کو دیکھ رہا تھا جہاں پر اب صرف دھویں اور مٹی کے بادل نظر آ رہے تھے۔



تھوڑی دیر بعد مٹی ہٹی تو اسکرین پر چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کے بے جان کٹے پھٹے جسم دکھائی دے رہے تھے۔



"اوہ میرے خدایا۔ یہ کیا ہو گیا۔" انڈریو نے دونوں بازو سر پر رکھے اور زمین پر بیٹھ گیا۔



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



گل خان ٹرالیوں میں بھرے ہوئے قیمی پتھروں کے اس اڈھیر کی طرف دیکھ رہا تھا جو اس کی آج کی محنت کا نیتجہ تھا۔ کہ اسی وقت آسمان پر پہلے طیارے کی آواز سنائی دی اور اس کے فوری بعد ایک کان پھاڑ دینے والے دھماکے کی آواز سنائی دی۔



اس کے ساتھ ہی اس کی آںکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



"کیا بات ہے جناب اس بار تو بہت جلدی تیاریاں شیارں مکمل ہو گئیں ہیں۔" راحت نے ساجد کی پیکنگ میں مدد کرواتے ہوئے کہا۔

"ہو کیوں نہیں۔ بھائی شادی کروانے جا رہا ہے۔ کوئی مزاق تو نہیں۔" ان کے تیسرے دوست امجد نے لقمہ دیا۔

"ہنس لو۔ اور ہنس لو۔ تب دیکھوں گا جب تمہاری زبردستی شادی کروا دی جائے گی۔" ساجد نے مصنوعی برا مانتے ہوئے کہا۔



ساجد کی بات سن کر تینوں دوست قہقہ لگا کر ہنس پڑے۔



اسی اثنا میں میرے پر دستک دے کر میجر عمران اندر داخل ہوئے۔



تینوں اٹین شین ہو کر کھڑے ہوگئے اور میجر عمران کو مشترکہ سلوٹ گیا۔



میجر عمران نے جوابی سلوٹ کیا۔ اور ساجد کی طرف متوجہ ہو کر بولے۔



"سوری کیپٹن ساجد! آپ کی چھٹی کو 06دن کے لیے ملتوی کیا جا رہا ہے۔ آپ کو اور آپ کے اسپیشل ٹیم کے تمام ساتھیوں کو ایک خصوصی مشن کے لیے بھیجا جا رہا ہے۔"

"لیکن وہ سر اسکی تو" راحت نے کہنا چاہا تو میجر عمران اس کی بات کاٹ کر بولے۔"جانتا ہوں۔ یہ ایک ہفتے میں واپس آ جائے گا۔ ' اور آپ ابھی باہر جا کر گرواند کے پچاس چکر لگائیں گے۔تا کہ آپ کو باور ہو سکے کہ آرڈرز کو صرف فالو کیا جاتا ہے ان پر سوال نہیں کیاجاتا۔"

"ایم آری کلیر۔"

میجر عمران نے خاصے سخت لہجے میں کہا تو تینوں نے بیک وقت کہا۔

"یس سر"



"گڈ" میجر عمران کہہ کر چلے گئے۔

اور ان کے پیچھے پیچھے راحت بھی گراونڈ میں اپنی سزا مکمل کرنے چلا گیا۔



ساجد نے امجد کی طرف دیکھا اور صرف ایک لفظ کہا "امی"



تو قہقہہ لگا کر امجد بھی باہر چلا گیا۔ اور ساجد نے خود کو زہنی طور پر تیار کرتے ہوئے فون کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



اچانک ہی ایک جھٹکے سے گل خان کی آںکھوں سے اندھیرے کی چادر ہٹ گئی۔ وہ کچھ سوچنے اور سمجھنے سے قاصر تھا۔ اس نے اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی تو اس سے منہ سے بے اختیار درد کی وجہ سے ایک سسکی سی نکل گئی۔



درد کا احساس ہوتے ہی اس کی یادداشت نے پھر سے کام کرنا شروع کر دیا۔ اس نے جھٹکے سے مڑ کر کان کی طرف دیکھا تو پوری کی پوری کان بیٹھ چکی تھی۔ اس کے ساتھ کام کرنے والے دوست کان کے اندر ہی دب گئے تھے۔ وہ بے اختیار کان کے ملبے کی طرف بڑھا اور دونوں ہاتھوں سے اسے ہٹھانا شروع کر دیا۔ وہ خود کان کے دروازےکے ساتھ کھڑا تھا اور اس سے کچھ فاصلے پر ہی سکایت کھڑا تھا باقی ساتھی بہت نیچے کان کی غار کے آغاز میں تھے۔ وہ سکایت کو آوازیں بھی دیے جا رہا تھا اور پکارے بھی جا رہا تھا۔ اس کو اپنے زخم اور تکلیف یکسر بھول چکی تھی۔ دو منٹ بعد ہی اس کے ہاتھوں سے کسی کا جسم ٹکرایا۔ اس نے مزید تیزی سے مٹی ہٹانی شروع کر دی اس پر بالکل ہذیانی کیفیت طاری تھی۔ تھوڑی دیر میں وہ اس جسم پر سے مٹی ہٹا چکا تھا۔ وہ سکایت ہی تھا۔ اس کا منہ اور ناک میں مٹی بھر چکی تھی۔ لیکن اس کا سر پتھروں سے کچلا جا چکا تھا۔

سکایت میں سانس باقی نہیں رہی تھی۔ سکایت ہلاک ہو چکا تھا۔ گل خان نے اپنی قبائلی روایت کے تحت لاش کے چہرے پاس پڑی اپنی چادر سے ڈھکا۔ چادر کو سکایت کے چہرے پر ڈالتے ہی اس کو فاطمہ اور اپنی بچوں کا خیال آیا۔



اور اس نے گاؤں کی طرف بھاگنا شروع کر دیا۔



گاؤں کے قریب پہنچتے ہی اسے گاؤں سے دھوئیں کے اٹھتے ہوئے بادل دکھائی دینے لگے۔ لیکن اس وقت تک وہ تکلیف کو برداشت کرنے کی آخری حد تک پہنچ چکا تھا۔ وہ زمین پر گر گیا۔ لیکن وہ رکا نہیں اور رینگتے ہوئے گاؤں کی طرف بڑھنے لگا۔



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



"تم لوگوں کی وجہ سے ہمارا مشن برباد ہو گیا۔ اتنا بڑا دہشت گرد بچ گیا۔ سینکڑوں معصوموں کی جان چلی گئی۔ میں اس کی وجہ ضرور جاننا چاہوں گا۔"

اینڈریو اپنے ماتحتوں پر بری طرح سے برس رہا تھا کہ ڈریک نے آ کر اس کے کان میں کہا۔ "سر جنرل آپ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔"

اینڈریو نے پیغام سن کر ایک بار پھر اپنی ماتحتوں پر نظر ڈالی

"اگر مجھے کوئی سچی وجہ نے دے سکے تو سب کا کورٹ مارشل کرواں گا۔"

بولتے ہوئے وہاں سے نکل آیا اور لفٹ سے گراونڈ فلو ر پر پہنچا اور دو تین گلیاں کراس کر کے جنرل کے دروازے پر پہنچ گیا اور دستک دے کر انتظار کرنے لگا۔



اندر سے کم آن کی آواز سن کر کمرے میں داخل ہو کر جنرل کو سلیوٹ کیا جنرل نے اشارے سے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔



"ویل ڈن۔ مسٹر انڈریو تم نے بہت اچھا کام کیا ہے۔"

جنرل نے کہا۔

"میں لگتا ہے سر آپ کے پاس صحیح اطلاع نہیں پہنچی ہم نے غلط ٹارگٹ ہٹ کیا ہے۔"

اینڈریو نے شرمندہ سے لہجے میں کہا۔

"میں جانتا ہوں اسی لیے حقیقت بتانے کے لیے میں نے تمہیں بلایا ہے تاکہ تم اپنے ماتحتوں کے ساتھ غیر ضروری سخت سلوک مت کرو۔"

جنرل نے کہنا شروع کیا تو اینڈریو کے چہرے پر حیرت پھیل گئی۔ جنرل نے سانس لے کر پھر سے بولنا شروع کر دیا۔

"پچھلے دنوں جو اسرائیل سے ٹیکنیکل ایکسپرٹ بلایا گیا تھا۔ وہ صرف اسی فکسیشن کے لیے بلایا گیا تھا۔ اب تمہیں بتانا ضروری ہو گیا ہے۔کہ ہمارا اصل پلان کیا تھا۔ لیکن پہلے تم مقدس بائبل پر حلف دینا پڑے گا کہ تم اس بارے میں کوئی بھی بات لیک اوٹ نہیں کرو گے۔ یا تم حلف دینے پر تیار ہو۔"



بات ختم کرکے جنرل نے پوچھا۔



"یس سر! میں ہولی فادر اور مقدس بائبل پر حلف دیتا ہوں کہ اس کمرے میں ہونے والی کسی بات کو لیک اوٹ نہیں کروں گا۔"

اینڈریو نے کہا۔

تو جنرل اپنی سیٹ سے اٹھ کر اینڈریو کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھا اور اینڈریو کے کان میں تفصیل بتانے لگا۔ تفصیل سن کر اینڈریو کا چہرہ حیرت سے بگڑتا جا رہا تھا اور آنکھیں پھیلتی جا رہی تھیں۔





۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



آئی ایس آئی کے ہیڈ کواٹر میں موجود میجر سلمان اپنے آفس میں بیٹھا ہوا ابھی ابھی اپنے سنئیر کی طرف سے بھجوائی ہوئی ناکام ڈارون اٹیک مشن کی فائل پڑھ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر دکھ اور پیشانی پر سوچ کی لکیریں نظر آرہی تھیں۔



"نہیں ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اتنی اچھی مشینری والے ڈرون میں خود بخود کوئی ٹیکنیکل خرابی نہیں آ سکتی۔" وہ بڑبڑاتے ہوئے اٹھا اور سیدھا اپنے سنیئر کے دفتر میں پہنچ گیا۔



"سر! میں اس کیس کے بارے میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔"

"اوکے۔ پندرہ منٹ بعد آنا میں تب تک میں فارغ ہو جاؤں گا۔"

سینئر نے مصروف سے انداز میں میجر سلمان کی طرف دیکھ کر کہا اور پھر سے فائل پر جھک گیا۔



اپنے سینئر کا ایسا انداز دیکھ کر میجر سلمان کا سر گھوم گیا اور فائل اس کے ٹیبل پر چٹختے ہوئے بولا۔



"133 معصوم لوگ جن میں 45بچے اور 25عورتیں شامل تھیں اور ماری گئیں، امریکن کہتے ہیں کہ یہ ایک ٹیکلن مسٹیک ہے اور آپ کے پاس اس پر بات کرنے کے لیے وقت نہیں ہے۔"



میجر سلمان نے چیختے ہوئے کہا تو فوری طور پر دروازے پر کھڑے گارڈ اندر آ گے۔ اور حیرت سے میجر سلمان کو دیکھنے لگے۔



سینئر آفیسر نے فائل بند کی۔ اور دونوں گارڈز کو ہاتھ کے اشارے سے باہر بھیج دیا اور میجر سلمان سے بولا۔



"آرام سے بیٹھو "

میجر سلمان کے بیٹھ جانے پر اسے پانی کا گلاس دیتے ہوئے بولا۔

"یہ سارا عمل ایک مشینی آپریشن تھا۔ جس میں فنی خرابی کسی بھی وقت آ سکتی ہے۔ ہمارے پاس سوائے اس کو ماننے اور اس کی تحقیق کروانے کے کوئی اور چارہ ہے کیا۔ اگر ہے تو بتاؤ میں ضرور اس پر عمل کروں گا۔"



سینئر آفیسر نے کہا۔ تو میجر سلمان نے چہرے مایوسی پھیل گئی۔ اسے احساس ہو گیا تھا کہ اس معاملے میں اس کا سنیئر بھی اتنا ہی بے بس ہے جتنا کہ وہ خود۔



"آئم سوری سر۔کہہ کر اور سلیوٹ کر کے وہ اپنے دفتر میں واپس آ گیا۔



ٹیبل پر بیٹھتے ہی دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام کر بڑبڑانے لگا کہ "ہم کر ہی کیا سکتے ہیں۔""ہم کر ہی کیا سکتے ہیں"



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



گل خان گاؤں میں پہنچ چکا تھا۔ پورا گاؤں خون سے نہایا ہوا لگ رہا تھا۔ جا بجا بچوں، عورتوں اور مردوں کی لاشوں کے ٹکرے بکھرے ہوئے تھے۔ کچھ جسم مکمل شکل میں بھی پڑے ہوئے تھے۔ گل خان ایک ایک لاش کے پاس جا کر ان کی سانسیں محسوس کرنے کی کوشش کر رہا تھا ان کے دل کی دھڑکن تلاش کر رہا تھا۔ یہ سارے لوگ اس کے اپنے تھے اس کے پیارے تھے۔



تھوڑا ہی آگے گیا ہوگا کہ اس کو کس کی درد بھری آہوں کی آواز سنائی دی۔ یہ آوازیں گل خان کے پیچھے سے سنائی دے رہی تھیں۔گل خان نے مڑ کر پیچھے دیکھا تو اس کو لکڑی کے ٹکروں کے نیچے خون میں لت پت ایک ہاتھ دیکھائی دیا۔ گل خان بے تابی سے آگے بڑھا اور لکڑی کے تختے ہٹانے شروع کر دیے۔



نیچے محلہ کا دوکان دار تھا۔ جو اپنی ہی دوکان کے ملبے میں دبا پڑا تھا۔ اس کی سانسیں بہت مشکل ہی چل رہی تھیں اور اس کو کوئی ہوش نہیں تھا۔ گل خان اسے ہوش میں لانے کے لیے آوازیں دینے لگا۔ بازین خان اٹھو یارا آنکھیں کھولو۔ گل خان کے چیخ چیخ کر پکارنے پر بازین خان نے اس کو آنکھیں کھول کر دیکھا۔ اس کے ہونٹ کچھ کہنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس نے اپنے کان اس کے ہونٹوں سے لگا دیے بازین خان کلمہ طیبہ کا ورد کر رہا تھا۔ ابھی اس نے دو مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھا ہی تھا کہ اس کی آواز آنی بند ہو گئی۔ اس کے جسم سے روح خارج ہو گئی تھی۔ گل خان سے اس کا جسم کپڑوں سے ڈھانپا اور فاطمہ اور اپنی بچیوں کو تلاش کرنے لگا۔ اسکول کا خیال آنے پروہ اس جگہ کا اندازہ لگانے لگا جہاں پر کبھی اسکول تھا۔



پورا دن وہ اپنے پیاروں کو لاشوں میں تبدیل ہوتے دیکھتا رہا وہ پتھر ہٹا ہٹا کر ہر جگہ سے لاشوں کو نکال رہا تھا۔ اور ان کو ایک جگہ پر اکھٹے کیے جار ہا تھا۔ اچانک اس نے ایک پتھر اٹھایا تو نیچے سے اس کی پیاری بیٹی، اس کی زندگی آمنہ کا کچلا ہوا جسم پڑا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر گل خان کو اپنے جسم سے روح نکلتے ہوئے محسوس ہوئی۔ لیکن پھر فاظمہ اور ہما کا خیال آتے ہی وہ جلدی جلدی قریب سے پتھر اٹھانے لگا اور تھوڑی ہی دیر میں وہ فاطمہ، ہما اور اپنی بڑی بہن کا جسم برآمد کر چکا تھا۔ اور انہیں اٹھائے باقی لوگوں کے پاس لایا اور اپنے پیارے کے جسموں کے ڈھیر کے پاس بیٹھ کر چیخنے لگا۔ اس کی چیخیں سن کر پتھر اور وہ وادی بھی رو رہی تھی۔



اس علاقے کا ایک ایک پتھر رو رہا تھا۔



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



ملک میں روز روز ہونے والے بم دھماکوں میں ہزاروں موت لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ان دھماکوں کے پیچھے ایک ہی شخص ہے جس کو بیرونی ممالک سے امداد مل رہیں ہیں۔



اب حکومت نے اس کو زندہ یا مردہ گرفتار کرنے کی زمہ داری اسپیشل سروسز گروپ کو سونپی ہے۔ اب ہمیں یا کام کرنا ہے۔ اپنے ملک کے لیے اپنی قوم کے لیے۔



یہ علاقہ انتہائی خطرناک ہے شرپسند وہاں سالوں سے رہ رہے ہیں ہر قدم پر ہمارا سامنا موت سے ہو گا۔ ہر پتھر کے نیچے موت چھپی بیٹھی ہو گی یا تم لوگ اس علاقے میں مشن مکمل کرنے کے لیے تیار ہو۔ کون ہے جو موت کی آںکھیں میں آنکھیں کے لیے تیار ہے۔ کون ہے جو مادر وطن کا قرض ادا کرنے کے لیے بالکل تیار ہے۔



اپنے کمانڈنگ آفیسر کی بات سن کر کیپٹن ساجد سمیت تمام ساتھیوں نے بلند آواز میں کہا مادر وطن کے لیے اپنی قربانی دینے کے لیے اقرار کیا۔



ان سب کے چہرے ایمان کی مضبوطی سے دھمک رہے تھے اور اس کی آںکھوں میں حاصل ہو جانے والی منزل کی چمک اور آہنی ارادوں کی مضبوطی جھلک رہی تھی



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



"اٹھو بھائی۔ کیا کوئی اور بھی بچا ہے۔" گل خان کے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھ کر پوچھا تو وہ چونک کر اسی کی طرف دیکھنے لگا۔ یہ ایک پچاس سے پچپن سال کے درمیان کا آدمی تھا جو اپنی وضع قطع سے کسی مسجد کا امام نظر آرہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے بھی دکھ اور غصے کا اظہار بیک وقت ہو رہا تھا۔



"سب یہ پڑے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ میرے پیچھے ۔ ۔ ۔ ۔ یہ میری آمنہ ہے ۔ ۔ ۔ ۔ آج اس کا اسکول کا پہلا دن تھا ۔ ۔ ۔ ۔ فاطمہ نے بچت کر کر کے اس کو پڑھانے کے لیے پیسے جمع کیے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو میری بچی یونیفارم میں کتنی پیاری لگ رہی ہے۔ " گل خان کی اس حالت پر بوڑھے کے ساتھ آئے ہر فرد کی آنکھوں میں آنسو اوردلوں میں غصہ بھرتا جا رہاتھا۔



لاشوں کے لیے گڑے کھودتے ہوئے ہر فرد کا خون ابل رہا تھا اور آنکھوں کی سرخی بڑھتی جا رہی تھی۔ اب ان آںکھوں سے آنسو نہیں آ گ نکل رہی تھی۔ تمام لاشوں کو دفنانے کے بعد ان لوگوں نے گل خان کو اپنے ساتھ لیا اور پیچھے تین قبروں میں سینکڑوں لوگوں کا قبرستان چھوڑ گئے۔



گل خان کی دماغی حالت درست نہیں رہی تھی۔ لیکن وہ پھر بھی وہاں سے جانے پر رضا مند نہیں تھا۔ وہ لوگ اسے وہاں سے کھینچتے ہوئے لیے جا رہے تھے اور گل خان مڑ مڑ کر پیچھے دیکھتا جا رہا تھا۔



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



"اللہ اکبر ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ اکبر۔ حسب عادت فجر کی آزان کے ساتھ ہی گل خان کی آںکھ کھل گئی۔ اس کو اپنا سر بھاری بھاری معلوم ہو رہا تھا۔ اس نے چارپائی سے نیچے قدم رکھے تو اس کا جوتا موجود نہیں تھا اور جس پر پٹیاں بندھی ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ اس کو لگا کہ وہ اپنے گھر میں موجود نہیں ہے۔ اس خیال کے آتے ہی اس کے اوپر آگہی کے در کھلتے گئے اس کو کل کا بیتاہوا ایک ایک واقعہ یاد آ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ اس وقت وہی ضعیف آدمی اس کے کمرے میں آیا لیکن اس نے گل خان کو رونے سے روکا نہیں۔



"رو لو دوست۔ ۔ ۔ ۔ رو لو ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے درد کم تو نہیں ہو گا یا درد کو پالنے کا حوصلہ ضرور ملے گا۔" ضعیف آدمی تھوڑا رکا پھر مزید گویا ہوا۔"چلو اپنے خدا کے سامنے جھکنے کا وقت آ گیا ہے۔" وہ گل خان کو سہارا دے کر باہر لے آیا۔



نماز فجر کے بعد اسی ضعیف آدمی نے جہاد پر بیان کیا اور وہ تمام لوگ جو کل گل خان کے گاؤں سے ہو کر آئے اور دیگر افراد کا دل بھی کچلا سا جا رہا تھا۔ وہ ضعیف آدمی انہیں کہہ رہا تھا۔



"یہ بزدل۔ ۔ ۔ ۔ بچوں اور عورتوں کے قاتل ۔ ۔ ۔ ۔ ہم انشاء اللہ ان کو میدان جنگ میں ضرور دھول چٹائیں گے۔ ہم ان کو ضرور تباہ ہو برباد کر دیں گے۔ ان پر اللہ کا عذاب نازل ہو گا۔ اور یہ بس تباہ ہو جائینگے۔"



"لیکن بزرگوار! " یہ نوجوان نے کہنا شروع کیا" پاکستانی تو مسلمان اور ہمارے بھائی ہے۔ ان کے خلاف ہماری جنگ کیوں ہے۔"نوجوان کی بات سن کر اس آدمی کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ بولا۔ "ہم مسلمانوں کے دشمن نہیں ہے۔ ہماری دشمن تو ان کی ملحد حکومت کے ساتھ ہے۔ اور ہم انشااللہ کامیاب ہو ں گے"



اس کے کہتے ہی "نعرہ تکبیر" "اللہ اکبر" کے نعرے گونجنے لگے۔





۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



ایک بلیک کوبرا ہیلی کوپٹر نے کپیٹن ساجد اور اس کے دوسرے ساتھ کو رسی کے زریعے مشن اسپاٹ پر اتارا۔ تمام کمانڈوز بڑی خاموشی کے ساتھ آگے بڑھے جارہے تھے۔



کمانڈوز شاہینوں کی نگاہوں سے جائزہ لیتے ایک دوسرے کو اشارے کرتے آگے ہی آگے بڑھے جار ہے تھے۔



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



ایک پیدائشی پٹھان کو بندوق چلانے کے لیے کسی ٹرینگ کی ضرورت نہیں ہوتی اور پہاڑوں پر لڑنا صرف انہی پر موقوف ہے۔ گل خان کو بھی اسلحہ اور بارود سے لیس کیا جا چکا تھا۔ اوراس نے خود کو خود کش بمب بلاسٹ کے لیے بھی پیش کر دیا تھا۔ اب وہ دنیا میں رہنا نہیں چاہتا تھا سب جلد از جلد شہید ہو کر اپنے بچوں سے ملنا چاہتا تھا۔ دو ایک دن میں اس کو کراچی میں امریکن کمپنی میں خود کش بم بلاسٹ کے لیے بھیجا جانے والاتھا۔ اب اس کا زیادہ تر وقت ٹرینگ لیتے اور عبادت کرتے گزرتا تھا۔ وہ ضعیف مولانا وہاں سے جا چکے تھے تاکہ اور لوگوں کو جہاد کی طرف مائل کر سکیں۔



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



اچانک انہیں دور سے روشنی دکھائی دی۔وہ بہت خاموشی سے اس روشنی کی جانب بڑھنے لگے۔ اور اس روشنی کے بہت قریب پہنچ گئے تھے کہ اچانک ایک خاموش گولی آئی اور ایک کمانڈو کے سینے میں پیوست ہوگئی۔ کمانڈو کی چیخ سن کر سب کمانڈوز نے فائر کھول دیا۔ دونوں طرف سے فائرنگ شروع ہو گئی۔ وقفے وقفے سے دونوں طرف کے لوگ کم ہو رہے تھے۔ اچانک کیپٹن ساجد دوڑ کر آگے بڑھا اور اس نے مکان کے اندر چھلانگ لگا دی۔ لیکن گل خان دروازے میں ہی اس سے بھڑ گیا۔ وہ دونوں زور آزمائی کر رہے تھے۔ کہ اچانک ہی دونوں کے منہ سے اللہ اکبر کا نعرہ ایک ساتھ نکلا اور دونوں نے اپنے جسموں سے بندھے ہوئے بارود سے خود کو اڑا لیا۔



پورا گھر اڑ چکا تھا۔ کیپٹن ساجد اور اس کے ساتھی کمانڈوز کا مشن پورا ہو چکا تھا۔ لیکن مطلوبہ دہشت گرد کو پہلے ہی اطلاع مل گئی تھی وہ وہاں سے جا چکا تھا۔



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



افغانستان کے ایک نامعلوم مقام پر ایک زمین دوز سیو سیف میں را کا سربراہ کرنل راتھوڑ، موساد کا سربراہ کرنل ڈیوڈ اور امریکی جنرل اسمتھ بیٹھے ہوئے اپنی کامیاب پالیسی کو سیلبریٹ کر رہے تھے۔ اس اثنا میں دروازے پر سرخ بلب روشن ہوا اور سر سے پاؤں تک سیاہ لبادے میں ایک آدمی اندر داخل ہوا۔ آؤ کمانڈر ہم تمہاری ہی فتخ کا جشن منا رہے ہیں۔ وہ آدمی قریب آ کر اپنے چہرے سے نقاب ہٹاتا ہے تو پتہ چلتا ہے یہ تو وہی ضعیف آدمی ہے جو گل خان کو ملاتھا۔



"کیا کہتے تھے یہ لوگ کرنل راتھوڑ ہم کیا ہے ایک قوم"

کرنل ڈیوڈ کے کہتے ہی سب نے ملک کر ایک کان پھاڑ دینے والا قہقہہ لگایا ۔



"اور کیا کہتے تھے ۔ پاکستان السلام کا قلعہ ہے۔" کرنل راتھوڑ نے ہنستے ہوئے کہا تو اس بار ان کا قہقہ پہلے سے بھی بلند تھا۔"



"اور اور ہم ایک ہیں" کرنل راتھوڑ نے کہا تو جنرل اسمتھ پیٹ پر ہاتھ رکھ کر بولا۔ "اور مت ہنساؤ راتھوڑ مجھ سے ہنسی کنٹرول نہیں ہو رہا۔"



"آپ کا پلان انتہائی شاندار جنرل، واقعی اگر اس قوم کو ہرانا تھا تو آپ کے پلان سے بہترین اور کوئی پلان نہ تھا۔ ایک ٹیکنیکل مِسٹیک کا بہانہ کر کے ہم نے ان کے لوگوں کو ان کے ہی خلاف کر دیا۔ آج یہ ایک دوسرے سے ہی لڑ رہے ہیں اور ایسے ہی ختم ہو جائیں گئے۔" ضعیف آدمی نے خوش ہوتے ہوئے پوری تقریر کر ڈالی۔



اتنے میں جنرل راٹھوڑ پھر بولا۔ اور وہ کیا کہتے تھے۔

"پاکستان اسلام کا قلعہ ہے۔"



اس بات پر پھر سے سب قہقہے لگانے لگے۔

No comments:

Post a Comment