Sunday, June 26, 2011

بدل گئی نظر دل

بدل گئی نظر دل

زوجہ محترمہ کی نئی پالیسی کے تحت آج پھر گیٹ لاک تھا۔ اور میں یہ اچھی طرح جانتا تھا کہ تھا کہ گاڑی کا ہارن بجانے سے محترمہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگنے والی' اس لیے میں گاڑی کا انجن چلتا چھوڑ کر نیچے اترا اور دروازے پر لگی گھنٹی کو دبا کر پھر سے گاڑی میں بیٹھ کر گیٹ کھلنے کا انتظار کرنے لگا۔
دو منٹ انتظار کرنے کے بعد گیٹ نہ کھلنے پر میں نے پھر سے بیل دبائی اوراس بار بیل سے ہاتھ ہٹا کر دروازے کو زور زور سے پیٹنے لگا۔

یہ طریقہ کار گر ہوا اور فوراً ہی گیٹ کھل گیا۔

بالکل سرخ چہرہ لیے محترمہ دروازے کے بیچوں بیچ کھڑی خطرناک تیوروں کے ساتھ مجھے گھور رہی تھی۔ میں گاڑی میں بیٹھ گیا تو ایک سائیڈ پرہو گئی لیکن چہرے کی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی میں نے گاڑی شیڈ کے نیچے کھڑی کی گیٹ کو بند کیا۔ اور اندر کی طرف چل دیا وہ بھی چہرے پر غصہ سجائے میرے پیچھے پیچھے چل رہی تھی۔

ڈرائنگ روم میں پہنچتے ہی محترمہ مجھ کر برس پڑی "یہ کیا بد تمیزی تھی۔ آخر ایسی کون سے قیامت آگئی تھی کہ دو منٹ باہر انتظار نہیں کر سکتے تھے۔ ابھی ون اردو پر کائنات بہن ڈائٹنگ چارٹ لگانے والی تھی۔ اور یازغل بھائی کے تھریڈ"محبت بہت اہم ہے مگر کسی کی؟؟" میں کتنی اہم گفتگو چل رہی تھی۔ میں اٹھنے ہی لگی تھی کہ آپ نے دروازہ دھڑ دھڑانا شروع کر دیا۔ میری تو دل ہی گبھرا گیا تھا۔"

"ون اردو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !" میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔ میں جانتا تھا کہ یہ بیگم کی ایسی کمزوری ہے کہ اگر اس پر بات کی تو آج گھر سے باہر ہی رہنا پڑے گا۔

"کیا ون اردو ۔ ۔ ۔ ۔ ؟" بیگم نے بہت گہری آنکھوں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔ جیسے میرے دل میں ون اردو کے لیے موجود جلن کو اپنی آنکھوں کی ایکس۔ریز سے باہر نکال لے گی۔

"کچھ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم پلیز میرے لیے چائے بنا دو۔" اس کی نظروں سے گبھرا کر میں لباس تبدیل کرنے کے لیے کمرے کے اندر چلا گیا۔

میں لباس تبدیل کرتے ہوئے مسلسل ایک ہی بات سوچے جا رہا تھا کہ اس ون اردو سے کیسے نجات حاصل کی جائے۔ "بیگم کونسا پہلے میری سنتی تھی مگر اب جب سے اس نے ون اردو جوائن کیا ہے۔ تو میری زندگی اور ہی عذاب ہوتی جا رہی ہے۔ کبھی کھانا لیٹ ہونے لگا ہے۔محترمہ رات کو بھی ایک دو بجے اٹھ کر ون اردو کے سامنے جا بیٹھتی ہے۔ مجھ سے زیادہ پروا ون اردو کی کرتی ہے۔ یہ ون اردو بالکل مجھے اپنا رقیب سا لگنے لگا ہے۔""مگر یار! یہ جو روز نئی ڈشیں کھانے کو مل رہی ہیں یہ بھی تو ون اردو کی کرامت ہے وگرنہ پہلے تو " زہن نے سر زنش کی تو اس سے پہلے کہ ون اردو کی اور سہولیات سامنے آتی میں نے زہن کو جھٹکا اورڈائننگ روم میں آ طرف چل پڑا۔

ڈرائنگ روم کا منظر دل جلانے کے لیے بالکل پرفیکٹ تھا۔ چائے کی کتیلی اور کپ میز پر پڑے تھے اور بیگم صاحب گوشن کو گود میں دبائے میرے آفس کے لیب ٹاپ پر اپنا ون اردو اوپن کیے بیٹھی ہوئی تھی۔ میرے دل میں ون اردو کے خلاف جلن اور بھی بڑھ گئی۔ وہ ساری رات میں نے ون اردو سے نجات کے طریقے سوچتے ہوئے گزارا۔

رات بھر کڑھنے کی وجہ سے صبح حالت بہت بری تھی۔ مگر چند ضروری امور کی سر انجام دہی کے لیے آفس جانا بھی سخت ضروری تھا۔ اس لیے میں تیار ہو کر کچن میں گیا دیکھا تو ناشتہ ندارد۔ وہاں سے بنا ناشتہ گیٹ کی طرف لپکا تو پیچھے سے بیگم نے آواز دی کہ ناشتہ کر کے جائیں۔ مگر میں جلدی کا کہہ کر وہاں سے سیدھا آفس بھاگا۔

سرخ سرخ آنکھیں دیکھ کرآفس میں ہر کسی نے طبعیت کے بارے میں تشویش ظاہر کی۔ میں نے آفس میں پہنچ کر چائے اور بسکٹ لانے کے لیے کہا۔
تھوڑی دیر بعد میرے آفس کا دروازہ کھلا اور میرا دوست، ہم راز قیصر بھلی اندر داخل ہی اپنے مخصوص انداز میں بولا۔" سنا ہے دشمنوں کی طبیعت بہت ناساز ہے۔ کہیں بھابھی اپنے میکے تو نہیں گئی ہوئیں۔ کہ ہجر میں ایک ہی دن میں یہ حالت بنا رکھی ہے۔"

"نہیں یار! ہوتی تو گھر میں ہی ہے مگر آج کل مجھے نہیں ملتی۔"

"ہائیں! یہ کیا بات کر دی۔" قیصر نے حیرانی سے پوچھا تو میں نے اسے اپنی بیوی کے ون اردو پر جوائننگ کے متعلقہ پوری تفصیلات بتا کر پوچھا۔"تو ہی بتا یار اب میں کیا کروں۔ کیسے اس ون اردو سے جان چھڑاؤ۔" میری بات سن قیصر قہقہ لگا کر ہنس پڑا۔ "واہ۔ یار تمہیں تو رقیب بھی پوری دنیا سے ہٹ کر ملا ہے۔ تم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ گھر کی ڈی۔ایس۔ایل ہی کٹوا دو" "

"تم میرے دوست ہی ہو ناں۔"مجھے بے اختیار قیصر پر شک ہوا۔ "ہائیں۔ کیوں کیوں۔ یہ جملہ کیوں؟" قیصر نے عجلت سے پوچھا۔

"تمہاری باتوں سے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ تم مجھے گھر سے نکلوانا چاہتے ہو!"

"وہ کیسے۔ ۔ ۔ ۔ !" قیصر نے پوچھا۔

"تمہارا کیا خیال ہے کہ جو ون اردو کا صرف نام لینے پر لڑائی کے لیے تیار ہو جاتی ہے وہ ون اردو سے جدائی پر کیا کرے گی۔ " میں نے قیصر سے کہا۔

"ہممممم۔ یہ تو بہت سیرئیس پرابلم ہے یار!۔ کچھ ایسا سوچنا پڑے گا کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔" قیصر پرسوچ اندا ز میں کہہ کر کرسی کی پشت پر لیٹ سا گیا۔

پھر اچانک چٹکی بجا کرمیز پر جھکتے ہوئے پرجوش انداز میں بولا۔"تم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ"اس کا انداز دیکھ کر میں بھی میز پر جھک گیا۔"کمپیوٹر میں کچھ ایسی گڑ بڑ کر دو کہ جب تم چاہو استعمال کر لو لیکن وہ استعمال نہ کر سکے۔"

"ہاہ۔ یار یہ بھی کر کے دیکھ چکا ہوں۔ محترمہ ہمسائیوں کے جا کر ان کے گھر سے ون اردو کے کسی احمد لون بھائی سے حل پوچھ کر آ گئی۔ اور خود ہی کمپیوٹر ٹھیک کر ڈالا۔" میں نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔

"تو یار تم نے بتایا تھا کہ بھابھی کو کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے۔ یاد ہے ایک دفعہ میرے لاہور جانے پر تم نے کچھ کتابوں لے آنے کے لیے نام بھی لکھ کر دیئے تھے۔ تو ان کو کچھ کتابیں کیوں نہیں لا دیتا کہ وہ کتابوں میں تین چار دن گزار دیں۔ بعد میں خود سائٹ وائٹ بھول جائیں گی۔"قیصر نے دانشوارنہ انداز گفتگو استعمال کرتے ہوئے کہا۔

اس کی بات سن کر میرا قہقمہ نکل گیا۔"بیگم کہتی ہے کہ ون اردو' اردو زبان کی کتابوں کا سب سے بڑا ای۔مرکز ہے جہاں سے ہر قسم کی کتابیں فری مل جاتی ہیں۔ اور تمہیں وہ مائیکرو پوائنٹ شئیر پوائنٹ پر لکھی ہوئی ای۔بک یاد ہے جس سے ہم دونوں نے مل کر اپنے نئے سسٹم کی پریزٹیشن تیار کی تھی وہ بھی بیگم نے ون اردو سے لے کر دی تھی۔ اور بتاؤں۔ میں نے اسے کھانے بنانے پر لگانا چاہا۔ تو ون اردو سے کوئیک ریسپیز اٹھا لائی۔ اسلامی کتب پڑھنے کے لیے کہا تو پھر ون اردو۔ ایک دو مسئلے لکھ کر دیے کہ جاؤں ان کی اسلامی تشریخ کروا کر لاؤ تو وہ بھی ون اردو سے کسی سے پوچھ آئی۔

یار۔ وہ ہر چیز ون اردو سے ڈھونڈ لاتی ہے۔ سچ پوچھوں تو مجھے لگتا ہے کہ اس کے ہاتھ یہ ون اردو خزانے کی طرح لگا ہے۔ ہر مشکل کا حل دریافت۔" میں نے تیز تیز بولتے ہوئے کہا۔

تو قیصر نے حیرت سے پوچھا۔"یار! جب ون اردو اتنی اچھی چیز ہے تو تم کو کیا تکلیف ہے اس سے۔ شکر کرو کہ بھابھی انڈین ڈراموں کے نشئے پر نہیں اور کچھ نہ کچھ کام کی باتیں ہی سیکھتی ہیں ناں۔ تو تمہارے پیٹ میں کیوں درد اٹھ رہا ہے۔"
"وہ اس لیے کہ اب میرے ہی گھر میں مجھے ہر وقت ون اردو کی باتیں سنائی جاتی ہے۔ کبھی ساحرہ آپی کے کھانے جلانے کی داستانیں، کبھی جرار بھائی کی شوخیوں کے ترانے کبھی ٹیم بھائی کے عظیم ہونے کی سلامی۔ کبھی ام فوزان آپی کی قابلیت اور کبھی سوبی اور فضا کی باتوں یاد کرکے مسکرانا۔" میں نے تقریباً رو دینے والے لہجے میں کہا تو قیصر قہقہ لگا کر یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ "تمہارا کچھ نہیں ہونے والا۔"

رات کو جاگنے اور قیصر کی باتوں کی وجہ سے سارا دن خراب گزرا۔ گھر آ کر گیٹ پر بیل دی اور حب عادت آ کر گاڑی میں بیٹھتے ہی خیال آیا کہ نہیں ایک بار سے بیل سے گیٹ نہیں کھلنے والا۔ یہ سوچ کر باہر نکلنے ہی والا تھا کہ گیٹ کھل گیا۔ بیگم نے بڑی سے چادر اوڑھ رکھی تھی۔

میں گاڑی اندر لے آیا تو بیگم نے گیٹ بند کیا میرے ہاتھ سے بیگ لینا چاہا تو میں نے انکار کر دیا۔ وہ بڑی خاموشی سے میرے پیچھے پیچھے چلتی ہوئی اندر آئی۔

ڈرائنگ روم میں پہنچتے ہی بولی۔ آپ کپڑے چینج کر کے آ جائیں میں چائے بنا کر لاتی ہوئی۔ میں حیران پریشان اپنے کمرے میں کپڑے تبدیل کرکے واپس ڈرائنگ روم میں وآپس آیا تو دیکھا کہ بیگم چائے بنا کر میرا انتظار کر رہی ہے۔

یہ کایا پلٹ دیکھ کر مجھے لگا کہ جیسے میں خواب دیکھ رہا ہوں۔ خود کو چٹکی کاٹنے کا سوچا مگر اگر یہ خواب ہے تو پھر بھی اسے برباد کیوں کرو۔

بیگم دوسرے صوفے پر بیٹھی اپنی چادر کا کونے پکڑے اس کو اپنے ہاتھ کے انگوٹھے کے گرد لپیٹتی جا رہی تھی۔ جیسے کوئی اضطراب ہو۔

جیسے ہی میری چائے ختم ہوئی وہ برتن سائیڈ پر کر کے ہچکچاتے ہوئے بولی۔ جی میں نے آپ سے کچھ کہنا ہے۔

اس کی بات سن کر میرے زہن میں فوری طور پر یہی آیا کہ کچھ بڑی فرمائش ہونے والی ہے مگر وہ بولی کہ "جی شاید میں نے کئی مرتبہ آپ سے انجانے میں بدتمیزی کی ہے۔ پلیز مجھے معاف کر دیں۔" اس کے چہرے پر ندامت اور آنکھوں میں نمی سی تھی۔

مجھ پر ایک دم انکشاف ہوا کہ میں اس سے شدید محبت کرتا ہوں۔ میں نے اس کو آگے بڑھ کر سینے سے لگا لیا۔ وہ مزید روتے ہوئے بولی کہ" مجھے جانتی ہوں کہ آپ کو ون اردو اور اس کی باتیں اچھی نہیں لگتی، مگر میرے لیے وہ بہت اہم ہے۔ وہاں سے علم دین اور علم دنیا دونوں حاصل ہوتے ہیں۔ آپ کے جانے کے بعد میں پورا دن گھر میں تنہا ہوتی ہوں۔ اور وہ یہ فالتو ڈرامے دیکھ کر بھی اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتی۔ بس ایک بار وہاں لاگ ان ہو جاؤں تو میرا دل ہی نہیں کرتا لاگ آف ہونے کو۔

مجھے پتہ ہے آپ کو یہ اچھا نہیں لگتا مگر میں نے کبھی اس کی پروا نہیں کی۔ آج کسی نے ون اردو پر شوہر اور بیوی کے حقوق پر کتاب ایشو کی اور اس پر بہت بات بھی ہوئی۔ پلیز اگر مجھے سے آپ کے حقوق میں کوئی کوتاہی ہو گئی ہو تو مجھے معاف کر دیں۔ میں آئندہ کبھی کوتاہی نہیں کروں گی۔ اگر آپ کہیں گے تو میں آئندہ سے ون اردو پر نہیں جاؤں گی۔"

مسلسل روتے ہوئے ون اردو پر ناجانے کی بات کرتے ہوئے اس کے آنسو نکل آئے۔

میں نے اپنی ہتھیلیوں سے اس کے آنسوصاف کیے اور بولا۔ "بیگم،یہ واقعی سچ ہے کہ مجھے تمہاری ون اردو سے متعلق دیوانگی کبھی اچھی نہیں لگی۔ اور آج سے پہلے میں چاہتا تھا کہ تم کو ون اردو سے جدا کر دوں۔ مگر آج میں ون اردو کا بہت مشکور ہوں کہ میری بیوی مجھے واپس مل گئی ہے۔ اگر تم ڈرامے وغیرہ دیکھتی تو ان سے ون اردو جیسی نہ سہی مگر وابستگی ضرور پیدا ہو جاتی۔ مگر وہاں تم کو کوئی سمجھاتا ہر گز نہیں۔" میں نے نرم سے لہجے میں بیگم سے کہا "تم ون اردو پر جب تک اور جتنا چاہو رہ سکتی ہو" میرے اس طرح کہنے پر ایسا لگا کہ بیگم کے چہرے پر ہزاروں چراغ روشن ہوں گئے ہیں اور اس کا چہرہ دیکھ سے میرے لیے بے اختیار نکلا۔

"میری زندگی واپس دلانے کے لیے بہت بہت شکریہ۔ ون اردو"

No comments:

Post a Comment