’’خداوند نے انسان کو اس دنیا میں بھیجا، اسے محبت کرنا سکھایا، اسے اختیار دیا کہ وہ دنیا میں رہے گھومے پھرے اور خوشیاں پھیلائے اور اپنی زندگی کو اپنی مرضی کے ساتھ گزارے۔
خداوند یسوع (نعوز باللہ) نے تمام انسانوں کی مصیبتیں اپنے ’تن‘ پر جھیل کر دنیا کو آزاد کر دیا۔ اس نے اختیار دیا انسان کو کہ جو چاہے کہے اور جیسے چاہے رہے۔
لیکن انسان نے قوانین و ضوابط قائم کیے، اخلاقیات بنائیں اور سچ کہنے میں عذر تلاش کرنے لگا۔ زندگی کی حقیقتوں پر پردہ ڈالنے لگا اور اجناس کی طرفین کے باہمی معاملے چھپا ڈالے اور انسان کو لذتوں کی دنیا سے دور کر دیا۔
کس لیے؟
اور کیون کر؟
کبھی مذہب کا نام لے کر، کبھی اخلاق کا نام لے کر، کبھی معاشرے کا نام لے کر اسے تمام عمومی عوامل کو چھپاتے رہے جو کہ خدا نے نہیں بنائے۔ خدا نے تو انسان کو بنا کپڑوں کے پیدا کیا تھا۔ یہ تو انسان ہے جس نے زات میں اور بات میں پردوں کا استعمال کرنا سیکھا۔ اور اس انسان نے ہی آدمی کے افعال اور افکار پر پابندیاں لگائی اور تہزیب کے نام پر بولڈ اور ہمت والے دانشور وروں کو زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کیا۔‘‘ پروفیسر رچرڈ بارڈر کے خاموش ہوتے ہی پورا ہال تالیوں سے گونج پڑا۔ سب سے زیادہ تالیوں کی آواز نوجوانوں کے سیکشن سے آ رہی تھیں۔
پروفیسر صاحب نے سب کو مسکرا کر ہاتھ ہلایا اور گویا ہوئے۔
’’کوئی سوال؟ ’’
’’سر شخصی آزادی اور اظہار رائے کی حد کیا ہونی چاہیے۔ یعنی اخلاقیات کو کیا اہمیت دینا چاہیے۔’’
’’مذکورہ بالہ کے لیے اخلاقیات ایک رکاوٹ کی مانند ہیں۔اس لیے انہیں راستے میں حائل نہیں ہونے دینا چاہیے۔’’
پورے حال میں خاموشی ہو گئی۔
اتنے میں کلاک نے وقت کے پورا ہونے کا اعلان کیا۔ اور پروفیسر صاحب نے الوداعی فقرے کہنے کے بعد اپنی کتابیں اٹھائی اور ہال سے باہر نکل آئے اور تیز تیز چلتے ہوئے اپنے خوبصورتی سے آراستہ کیبن میں داخل ہو ئے۔
ان کی سیکریٹری لارا نے کھڑے ہو کر انہیں صبح الخیر کہا۔ اور انہیں آج کی ڈاک تھما دی۔
پروفیسر نے اپنا کوٹ ہینگر پر لٹکایا۔ اور ڈاک کے لفافے پلٹنے لگنے۔
اچانک ایک لفافہ پلٹے ہی پروفیسر کے ہونٹ سیٹی کی انداز میں سکڑ گئے۔
انہوں نے لفافہ چاک کیا۔ اندر ایک قیمتی اور خوبصورت ورق پر پاکستان کی ’سوسائٹی برائے ماڈرن رائٹرز’ کا لوگو چھپا ہوا تھا۔
پروفیسر نے اپنی قریب کی نظر کا چشمہ پہنا اور یہ رقعہ پڑھنا شروع کیاجس میں لکھا تھا
’’محترم جناب پروفیسر ہارڈر صاحب۔‘
نیک خواہشتات کے ساتھ ، امید ہے کہ آپ اور آپ کا خاندان خیرو عافیت کے ساتھ زندگی سے لطف کشید کر رہا ہوگا۔
بعد از۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہو گا کہ پاکستان مختلف النسل لوگوں کی ایک روایت پسند آبادی پر مشتمل ایک ملک ہے اور یہاں کی اکثریت ایک ایسے نظام میں رہ رہی ہے جو کہ لوگوں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ کبھی بھی اپنے حق کا اظہار نہ کر سکیں اور نہ ہی انہیں کوئی شخصی آزادی حاصل ہے۔
اس سلسلے میں ہماری سوسائٹی از حد کوشش کر رہی ہے کہ لوگوں تک شخصی آزادی اور آزادی اظہار کا شعور بیدار ہو اور ہم نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد کو راہ راست پر لا بھی چکے ہیں لیکن اب اس سلسلے میں ہمیں روایت پسندوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنہ کرنا پڑ رہا ہے اور نوجوان دوبارہ سے سڑے وہوئے روایت پسند نظام کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔
ہم اس وقت شدید مشکل میں ہیں۔ اس وقت صرف آپ ہی ہیں جو کہ ہماری مدد کر سکتے ہیں۔
امید ہے کہ آپ اپنے انمول وقت میں سے چند قیمتی لمحے ہماری جھولیاں میں بھی ڈالیں گے۔
آپ کے قیام و طعام اور فیس کا خاص خیال رکھا جائے گا۔
آپ کا مخلص
سیکرٹری جنرل۔
سوسائٹی برائے ماڈرن رائٹرز۔‘‘
’’دلچسپ۔‘‘ رقعہ پڑھنے کے بعد پروفیسر کے منہ سے نکلا۔
’’لارا۔ کمرے میں آؤ۔ مجھے ایک خط لکھونا ہے۔‘‘ پروفیسر نےکہا اور پھر اپنے پاکستان جانے کے لیے انتظامات اور وہاں رہائش کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔
۔۔۔۔*****۔۔۔۔
پروفیسر رچرڈ بارڈر جب کراچی کے جناح انٹرنیشل ائیر پورٹ پر اترے تو اس عظیم الشان عمارت کو اپنی توقعات سے بڑھ کر پایا۔ سیکیورٹی کے معاملات انتہائی امن و امان سے طے پا گئے اور وہ مسکراتے ہوئے باہر نکلے۔
ان کے میزبان ’’آمدی راستے’’ پہلے سے منتظر تھے۔
بڑے پر تپاک انداز میں ڈاکٹر صاحب کا استقبال کیا گیا اور انہیں ایک جدید لگثرری کار میں بٹھا کر ایک شاندار ہوٹل میں پہنچا دیا گیا۔ جہاں پر ایک پرتعیش کمرہ ان کے نام پر پہلے سے ہی مختص تھا۔ میزبانوں نے پروفیسر کی مصروفیت کے جدول کو جلد ہی بھجوانے کا وعدہ کرتے ہوئے انہیں آرام کرنے کا مشورہ دیا اور اجازت چاہی۔
پروفیسر نے اپنی عادت کے مطابق چند گھنٹے سو کر گزارے اور پھر شام کے وقت بیدار ہو گئے۔
انہوں نے ہوٹل انکوائری سے فون کر کے اپنے لیے ایک تجربہ کار ڈرائیور اور گاڑی کا انتظام کرنے کے لیے کہا جو انہیں شہر کی سیر کروا سکے۔
چند منٹ بعد انہیں ایک ڈائیور جو کہ گائیڈ بھی تھا اور ایک گاڑی فراہم کر دی گئی تھی۔
پروفیسر گاڑی کی عقبی سیٹ میں بیٹھے اور ڈرائیور کو شہر کے مرکزی حصے کی طرف جانے کا حکم دے کر اپنے لیکچر کے بارے میں سوچنے لگے جو کہ انہوں نے یہاں کے نوجوانوں کے لیے تیار کیا تھا۔
اچانک غلط سمت سے ایک گاڑی نکلی ڈرائیور نے پھرتی سے بریک لگائی اور سوچوں میں الجھے پروفیسر اچھل کر سامنے موجود سیٹ سے ٹکرا گئے۔
’’کیا ہوا۔ ایسے بریک کیوں لگایا۔‘‘ پروفیسر نے چیخ کر کہا۔
’’سر وہ غلط لائن سے گاڑی سامنے آ گئی تھی۔‘‘ ڈرائیور نے ڈری ہوئی آواز میں جواب دیا۔
پروفیسر نے چونک کر باہر دیکھا تو واقعی باہر ہر کوئی جلدی میں نکلنے کی کوشش میں تمام قوانین توڑے جا رہا تھا۔ کہیں سے بھی کوئی گاڑی نکال کر اچانک کسی بھی لائن میں ڈال دیتا تھا۔ اور ہر کوئی اپنا بچاؤ خود ہی کر رہا تھا۔ نہ ہی کہیں ٹریفک پولیس کا وجود تھا اور نہ کہیں چالان کرنے والے کیمرے نصب دکھائی دے رہے تھے۔
’’آخر ان لوگوں کا مسئلہ کیا۔ ایسے تو کوئی بھی وقت پر نہیں پہنچ سکے گا۔‘‘ پروفیسر نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
’’سر‘ یہ لوگ قانون پر بالکل یقین نہیں رکھتے۔‘‘ ڈرائیور نے پروفیسر کی بربراہٹ کا مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’کیوں یقین نہیں رکھتے جب کہ یہ قوانین بنائے ہی ان کی سہولت کے لیے جاتے ہیں۔‘‘ پروفیسر کو ڈرائیور کی باتوں میں دلچسپی پیدا ہو رہی تھی۔
’’سر یہ لوگ کہتے ہں کہ ہم آزاد ملک کے آزاد باشندے ہیں۔ اس لیے یہ سڑکیں بھی ہماری ہیں اور قانون بھی ہمارے کہ جب مرضی توڑیں۔ بس ہمیں کوئی روکے نا۔ ہم اپنی مرضی کریں۔ وہ کیا کہتے ہیں۔ ہاں شخصی آزادی۔‘‘ ڈرائیور کے قہقہے نے پروفیسر کے نظریہ شخصی آزادی پر پہلا پتھر پھینک دیا تھا۔
’’اچھا۔۔ ۔۔ ۔!‘‘ پروفیسر کے زہن میں نئے سوالات جنم لے رہے تھے۔
’’اور کیا سر۔ یہان پر ہر کوئی اپنی مرضی سے جو کچھ مرضی کرتا رہتا ہے۔ حکومت سڑک بناتی ہے گلیاں پکی کرواتی ہیں۔ اور پھر لوگ ان کو کھدوا کر اپنی گھر میں بجلی، گیس اور پانی کا میٹر لگواتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ ہمارا حق ہے۔ نہ کوئی روکنے والا ہے نہ ہی کوئی پوچھنے والا۔‘‘ ڈرائیور نے اپنی سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے بڑے پرجوش انداز میں بتایا۔
اچانک ساری ٹریفک ایک دم سے رک گئی۔ گاڑیوں میں معمولی سی حرکت بھی ختم ہو چکی تھی۔ اور ہارن بجنا شروع ہو گئے تھے۔ ڈرائیور نے فٹ سے گاڑی کے شیشے چڑھا لیے۔
اچانک سامنے سے گاڑیوں کے درمیان سے چند لوگوں کسی سیاسی پارٹی کا جھنڈا اٹھائے نمودار ہوئے اور اپنے ہاتھوں سے گاڑیاں بجاتے، نعرے لگاتے سڑک کراس کرنے لگے۔
’’کیا یہ مذہبی لوگ ہیں۔‘‘پروفیسر نے خوف زدہ ہو کر ڈرائیور سے پوچھا۔
’’نہیں۔ نہیں سر، یہ لوگ اپوزیشن پارٹی سے ہیں اور اپنے مطالبات کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔‘‘ ڈرائیور نے پروفیسر کی پریشانی بھانپ کر جواب دیا۔
’’لیکن احتجاج کرنے کا بھی کوئی طریقہ ہو تا ہے کوئی اصول ہوتا ہے۔‘‘ پروفیسر کی گھبراہٹ، چڑچڑاہٹ میں تبدیل ہو چکی تھی۔
’’ہوتا ہو گا سر، لیکن یہ لوگ آزاد ہیں کسی اصول کو‘ کسی قائدے کو نہیں مانتے، وہ کیا کہتے ہیں ہاں یہ آزادی اظہار رائے کو ماننے والے لوگ ہیں سر۔ اور کسی اخلاق کو نہیں مانتے۔‘‘ پروفیسر کا نظریہ آزادی اظہار رائے بھی پر شکن ہو چکا تھا۔
اتنے میں تڑیفک لائٹس اور حکومتی تنصیبات توڑتا ہوا جلوس گزر چکا تھا۔ اور ٹریفک پھر سےسڑک پر رواں دواں ہو چکی تھی۔ لیکن اب پروفیسر کا دل اس سیر سے اچٹ ہو چکا تھا۔
پروفیسر نے اچانک ڈرائیور کو اگلے چوراہے سے واپس مڑنے کا حکم دیا۔ لیکن ڈرائیور نے کہا یہ چوراہا محفوظ نہیں ہے اگلے چوراہے سے مڑتے ہیں۔ مگر پروفیسر حد سے زیادہ بیزار ہو چکے تھے۔ اور یہ سمجھ رہے تھے کہ ڈرائیور اپنا بل بڑھانے کے لیے ایسا کہہ رہا ہے۔ انہوں نے سختی سے ڈرائیور کو اسی چوراہے سے مڑنے کا کہا۔ اور آنکھیں موند کر سیٹ پر ہی لیٹ سا گئے۔
تقریباً دو ہی منٹ گزرے ہوں گے کہ اچانک گاڑی ایک زور دار جھٹکے سے رک چکی تھی۔پروفیسر نے آنکھیں کھول کر دیکھا موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوان ہاتھوں میں خطرناک ہتھیار پکڑے گاڑی کو روکے کھڑے تھے۔
’’جلدی سے اپنا موبائل اور جیب میں جو کچھ بھی ہے ہمارے حوالے کرو۔‘‘ ایک نوجوان نے غراتے ہوئے نوجوان اور پروفیسر سے کہا۔جب کہ دوسرا نوجوان ہاتھ میں موجود مہلک گن کا رخ ان کی طرف رکھے ہوئے تھا۔
ڈرائیورنے اپنا موبائل اور بٹوہ نکال کر نوجوان کو دیتے ہوئے پروفیسر کو بھی نوجوان کا حکم انگریزی میں دہرایا ۔ پروفیسر نے بھی جلدی سے اپنا موبائل اور بٹوہ نکال کر نوجوان کے ہاتھ میں دے دیا تھا۔ وہ نوجوان آناً فاناً ہوا کے گوڑھے پر سوار وہاں سے رفو چکر ہو چکے تھے۔ قسمت سے پروفیسر نے اپنے کاغذات رقم اور کریڈٹ کارڈ اپنے بیگ میں ہی رکھے ہوئے تھے۔ بٹوے میں صرف چند ڈالرز اور ملاقاتی کارڈ ہی تھے۔
ڈرائیور نے گاڑی فوراً تھانے کی طرف موڑ دی۔ تھانے میں کافی رش لگا ہوا تھا۔ اور انسپیکٹر اپنی جگہ پر موجود نہیں تھا۔ ایک حوالدار نے ایک سادہ پیپر پر ان کی درخواست لکھ کر روانہ کر دیا۔
’’یہ اس ملک میں ہو کیا رہا ہے۔‘‘ پروفیسر کی پریشان سی آواز سنائی دی۔
’’یہاں پر قانون کی بالا دستی نہیں ہے سر، بھوگ اور بیروزگاری کی وجہ سے لوگوں میں سے اخلاق بھی اٹھتا جا رہا ہے اور اچھے اچھے گھروں کے نوجوان جرائم کی راہ اختیار کر رہے ہیں۔ اگر یہاں پر اصول، قانونین اور اخلاق بہتر ہو جائے تو یہ ملک ترقی کی راہ پر چل نکلے۔‘‘ ڈرائیور نے ٹی وی شوز میں ہونے والی گفتگو اور اخبارات میں لکھی حقیقت بتا دی۔
’’لیکن مغرب میں تو ایسا نہیں ہوتا۔‘‘ پروفیسر کی آواز میں تھکاوٹ سی اتر آئی تھی۔
’’لیکن سر اب لگتا نہیں کہ وہ دن دور ہو گا جب مغرب میں بھی یہی صورتحال ہو جائے گی کیونکہ وہاں پر بھی لوگ قوانین کا احترام چھوڑ رہے ہیں، اخلاقیات کو بوجھ سمجھ رہے ہیں، وہاں پر بھی ایک دوسرے کے مذہب کا احترام نہیں رہا۔ کبھی امریکا میں کوئی شخص قرآن کریم کا نسخہ جلا رہا ہے تو کبھی سویڈن میں نبی ﷺ آخر زمان کے کارٹون بنائے جا رہے ہیں۔ اور کہیں پر مادر پدر آزاد کتب لکھی جا رہی ہیں۔ گند سے بھری فلمیں دکھائی جا رہی ہیں۔
مغرب بہت جلد اپنی باقی مانندہ اخلاقیات بھی اتار پھینکے گا، شخصی آزادی کے نام پر دوسرے کے احترام اور ضرورت کا خیال رکھنا ختم ہو جائے گا۔ آزادی اظہار کے نام پر لغویات بکی جائیں گی۔
اور پھر وہاں بھی ایسا ہی انجام ہو گا۔‘‘
پروفیسر کو کار کا ماحول اچانک بہت زیادہ سرد لگنے لگا تھا۔ اور اس پر کپکپی سے طاری ہو رہی تھی۔ اس نے ڈرائیور کو تیز رفتاری سے ہوٹل چلنے کے لیے کہا۔ اپنا سامان اٹھایا۔ بل کلئیر کرنے کو کہا تو بتایا گیا کہ وہ میزبانوں کی طرف سے ہو گا۔ فوراً ائیر پورٹ پہنچا۔ اور فوری فلائٹ پکڑ کر اپنے ملک کے لیے روانہ ہو گیا۔
لیکن اپنے افکار وہ پیچھے ہی چھوڑ چکا تھا۔ اور اس کو شخصی آزادی اور آزادی اظہار رائے میں اخلاقیات، قوانین اور اصول و ضوابط کی اہمیت کا باخوبی اندازہ ہو چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment