اختیاردل
( سحر آزاد)
کمرہ عدالت لوگوں سے کھچا کھچ بھرے ہونے کے باوجود ماحول میں اس قدر خاموشی چھائی ہوئی تھی کہ اگر فرش پر کوئی کیڑا بھی رینگتا تو اس کے رینگنے کی آواز کو باخوبی سنا جا سکتا۔ عدالت آج وجود کی تاریخ کا سب سے اہم فیصلہ سنانے والی تھی۔
اچانک ہلکا سا شور ہوا اور کئی نظریں ڈائس کے دائیں جانب موجود دروازے سے داخل ہوتے جج صاحب پر پڑیں۔ مجمعے نے کھڑے ہو ان کی توقیر کی اور ان کے بیٹھتے ہی مجمعہ بھی واپس بیٹھ گیا۔
جج صاحب نے اپنے سامنے موجود کاغذات پر ایک نظر ڈالی اور ناظم مندوب سے مخاطب ہوئے۔’’مقدمے کی کاروائی شروع کی جائے۔‘‘
ناظم مندوب نے اٹھ کر طریفین کے وکلا کو مقدمے کی کاروائی شروع کرنے کا اشارہ کیا۔
’’قابل قدر جج صاحب ! میری موکل ’روح‘ کا دعویٰ ہے کہ رئیس الاضاء دل پر اس کا اختیار ہے۔جب کہ ’نفس‘کہتا ہے کہ دل پر اختیار کا حق صرف اسی کا ہے۔ طرفین میں سے کوئی بھی اس دعوے سے دستبرداری اختیار کرنے سے انکاری ہے۔اس لیے رئیس الاضاء کی حوالگی کے لیے عدالت کی مدد درکار ہے۔‘‘
’’ہونہہ۔ ٹھیک ہے آپ کو مقدمے کی مزید کاروائی جاری رکھنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ طرفین کے وکلاء کو اپنا اپنا موقف پیش کرنے کی اجازت ہے۔‘‘ جج صاحب نے اپنی عینک اتارتے ہوئے کافی گھمبیر لہجے میں کہا۔
نفس اور روح کے وکیل اٹھے اور ڈائس کے سامنے جج کی اطراف میں کھڑے ہو گئے۔
’’اگر دل جو ’وجود‘ کے تمام اعضاء کا رئیس ہے۔ اس کا اختیار میرے مؤکل ’نفس‘ کو دے دیا جائے تو میرے مؤکل کا دعوہ ہے کہ وہ وجود کوخوش رکھے گا۔‘‘نفس کے وکیل نے بلند آواز میں نفس کا دعوہ بیان کیا۔
’’یہی دعوہ میری مؤکل روح کا بھی ہے۔‘‘ روح کے وکیل نے جواب دیا۔
ٹھیک ہے اب آپ اپنے اپنے دعوہ کے حق میں دلائل دیں۔
’’میرے موکل کا دعوی ہے کہ وہ تمام ماتحت اعضاء کو راحتیں فراہم کرے گا۔ وہ ہر قسم کے دیکھنے سے پابندی ہٹا کر آنکھوں کو سکھ دے گا۔ پھر آنکھوں کو اختیار ہو گا کہ وہ دنیا کی تمام رنگینیوں سے لطف اندوز ہو۔وہ کانوں سے تمام پابندیاں ہٹا دے گا۔ اور کسی بھی قسم کے نغمے یا باتیں سننے کی کھلی آزادی ہو گی۔وہ زبان سے تمام پابندیاں ہٹا کر اسے آزاد کر دے گا۔ وہ ہاتھوں سے تمام پابندیاں اٹھا دے گا ہاتھوں کو اجازت ہو گی کہ کچھ بھی کریں۔ غرض یہ ہے کہ ’نفس‘ وجود کو تمام پابندیوں، مشکلوں اور مشقتوں سے نجات دلا کر خوش رکھے گا۔‘‘نفس کے وکیل نے مسلسل دلائل دیتے ہوئے کہا۔
اور روح اس معاملے میں کیا کہتی ہے۔
’’جی میری موکل کا کہنا ہے کہ میں تو آنکھوں، کانوں، ہاتھوں، زبان اور دیگر ماتحت اضا کو حرام و حلا ل کی پابند بناؤں گی،ان کو خوف خدا سے تھرانے پر مجبور کر دوں گی اور ان میں ندامت کے آنسؤں دلاؤں گی۔ بری بات کہنے سننے سے روکوں گی۔ ہاتھوں کو دوسرے اجسام کو تنگ کرنے سے روکوں گی۔ اللہ کے سامنے جھکے رہنے پر مجبور کروں گی عرض کہ میں دل کو صرف درد ہی دوں گی۔ ‘‘روح کے وکیل نے جواب دیا۔
عدالت میں موجود سناٹا مزید گہرا ہو گیا تھا۔
’’اگر روح دل کو خوشیوں سے دور رکھے گی، صرف درد دے گی، مصیبت اور پابندیاں کھڑی کرے گی۔ تو پھر دل کو روح کے حوالے کیوں کیا جائے، نفس کے حوالے کیوں نہ کر دیا جائے کہ پھر نہ کوئی پابندی ہو گی نا کوئی درد نا کوئی مصیبت نا کوئی پابندی۔آخر دل کو ’درد‘ سے کیا حاصل ہو گا۔‘‘ جج صاحب کی بھاری آواز میں حیرت ہی حیرت تھی۔
روح کے نمائندے کے چہرے پر ایک عجیب سے مسکان آ گئی۔ اور وہ گویا ہوا۔’’ میری مؤکل روح کہتی ہے کہ دل میں’درد‘ جتنا زیادہ ہو گا۔ وہ اتنا ہی اپنے خالق کو عزیز ہو گیا۔ اقبالؒ کے الفاظ میں
نہ چھپا چھپا کہ تو رکھ اسے تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ رہ تو عزیز تر نگاہ آئینہ ساز میں
اور اپنے خالق کے پسندیدہ بننے سے زیادہ راحت کسی نظارے میں نہیں، کسی نغمے میں نہیں، کسی بات میں نہیں، کسی حس میں نہیں اور ناہی کسی آزادی میں ہے۔
’’خالق سے محبت کی راحت، اس سے بڑی راحت نہ کوئی ہو سکتی ہے اور نا کوئی دے سکتا ہے۔ لیکن دل کے اختیار کو جبراً نا روح کے سپرد کیا جا سکتا ہے نا ہی نفس کے۔ مگر دل کو مشورہ دیا جا سکتا ہے کہ وہ روح کے اختیار پر چلے۔ اسی فیصلے کے ساتھ عدالت برخواست کی جاتی ہے۔‘‘ جج صاحب نے فیصلہ سنایا اور اٹھ کر چلے گئے۔
(ختم شد)
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment