Sunday, June 26, 2011

کسی نے ’’کچھ‘‘ کر رکھا ہے۔

کسی نے ’’کچھ‘‘ کر رکھا ہے۔

دسمبر اور جنوری کے سرد اور اداس موسم کو جب فروری کی محبت اور میٹھی گرمائش ملنا شروع ہوتی ہے تو کرہ زمین سبزے کا لبارہ اوڑھے جشن بہار کا اعلان کر دیتی ہے۔ سارے رات آسمان پر چمکنے کے بعد چاند اور تارے معدوم ہو جاتے ہیں ایسے میں سورج بیدار ہو کر انگڑائی لیتے ہوئے آنکھیں کھولتا اور پرندے چہچہا کر اسے صبح بخیر کہتے ہیں۔ پھول باد صبا کے ساتھ جھولتے ہوئے صبح کا نغمہ گاکر زندگی کی طرف مسکراہٹیں اچھالتے ہیں۔ اور خوش قسمت صبح خیز انسان اس منظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے سیر کرکے اپنی صحت بھی بناتے ہیں اور پورے دن کے لیے خوشگواریت بھی سمیٹ کر اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا بہترین انداز شکر ادا کرتے ہیں۔

مگر اس دلکش منظر سے تھوڑا دور خوبصوت کالونی کے ایک عالیشان گھر کے بیشتر کمروں کی کھڑکیوں پر ابھی تک پردے پڑھے ہوئے ہیں اور کمروں میں تاریکی چھائی ہوئی ہے۔اور ان کمروں کے مکین ابھی خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔

۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔

شاہدہ آپاں نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی عزیز و اقارب اور احباب کے مل بیٹھنے کے لیے ایک دعوت کا انعقاد کیا تھا حالانکہ کہ تقریب کاسارا اہتمام گھر کے عقب میں موجود باغیچے میں ایک بڑے میز کے گرد گدے دار کرسیاں لگا کر کیا گیا تھا لیکن صفائی اور سجاوٹ کا خیال پورے گھر کے لیے رکھا گیا تھا۔

تقریباً تمام مہمان تشریف لا چکے تھے اور دعوت کے منشور کے عین مطابق مختلف میزوں کے گرد بیٹھ کر ایک دوسرے سے حال و احوال کا تبادلہ کر رہے تھے۔ جس میں سب سے زیادہ حصہ خواجہ لے رہی تھیں جو کہ اپنے طبقے کی تمام غیر موجود خواتین کا خوب تیا پانچہ کر رہی تھیں۔

’’شمیم! تمہاری فاخرہ کے رشتے کا کیا بنا۔‘‘ شائشتہ بیگم نے آہستہ آواز میں اپنے ساتھ بیٹھی اپنی بیسٹ فرینڈ سےپوچھا۔

’’کونسا رشتہ؟‘‘ بیگم شیم اختر جو بیگم خواجہ کے قصوں میں پوری طرح کھوئی ہوئی تھی نے پلٹ کر غائب دماغی سے جواب دیا۔

’’ہفتے کو مارکیٹ میں ہم ملے تھے تو تم نے بتایا تھا کہ کچھ لوگ تمہاری فاخرہ کو دیکھنے کے لیے آنے والے ہیں۔‘‘ وہ دونوں کونے میں بیٹھی ہوئی تھیں پھر بھی یہ گفتگو کر تے ہوئے ان کا لہجہ کافی دھیما ہو گیا تھا۔ جب کہ دیگر افراد بڑی دلچسپی سے بیگم خواجہ کی ’’رپورٹیں‘‘ سن رہے تھے۔

’’اوہ۔۔۔۔ ہاں۔اس بار بھی وہی ہوا جو ہر بار ہوتا ہے۔ پتہ نہیں میری بیٹی کیسی قسمت لکھا کر لائی ہے۔ لڑکے کی ماں اور بہنوں نے تو فاخرہ کو دیکھتے ہی آنکھیں ماتھے پر رکھ لی تھیں۔ بلکہ لڑکے کی بھابھی نے تو باتوں باتوں میں جتا بھی دیا تھا کہ اگر اس کی شادی کرنی ہے تو پہلے اس کا وزن کم کروائیں۔

ہائے میری بچی۔۔۔۔۔ بیچاری نے تو پہلے سے کھانا پینا بھی چھوڑ رکھا ہے۔ مگر کمر ہے کہ بڑھی جا رہی ہے۔ سب نسخے آزمائے یہاں تک کہ فاقے کروا کر بھی دیکھ لیے مگر کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔ الٹا وزن کم کرنے والی دوائیاں کھا کھا کر چہرے کی رونق بھی چلی گئی اور آنکھوں کے نیچے حلقے بھی پڑ گئے۔‘‘ بیگم شمیم اختر کے لہجے میں دکھ اور مایوسی ہی مایوسی تھی۔

’’ہاں بہنا۔ بس آج کل کے لڑکے تو اونٹ پر چڑے بیٹھے ہیں خود چاہے پورے ’کدو‘ ہوں مگر شادی کے لیے تو سینک سلائی جیسی سوکھی سڑی لڑکیاں ہی چاہیے۔’’ شائستہ نے اپنی خاص سہلی کے درد کو کم کرنے کی ایک کوشش کی۔

’’اچھا۔ ۔ ۔ ۔ تم سناؤ۔ فاہد کی جاب ابھی تک قائم ہے یا ہر بار کی طرح اس بار پھر سے چھوڑ دی۔‘‘ بیگم شمیم نے شائستہ کی دکھی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔

’’جا تو رہا ہے۔ مگر پھر سے وہی روٹین ہے کہ کبھی اس کا آفس میں دل نہیں لگتا تو کبھی اس کی طبعیت میں بیزاری چھائی رہتی ہے گھر آ کر بھی اس کی طبیعت سست سست سی رہتی ہے۔ جب سے کالج چھوٹا ہے تو بیچارے کی ساری سرگرمیاں ختم ہو کر رہ گئی ہے بس رات کو انٹرنیٹ یا فلمیں وغیرہ ہی دیکھ کرزہن پر چھائی خشکی تھوڑی دور کر لیتا ہے۔لگتا ہے کہ میرے بیٹے کو کسی کی نظر لگ گئی ہے۔‘‘ بیگم شائستہ کے لہجے میں اپنے لخت جگر کے لیے فکرمندی ہی فکرمندی تھی۔

’’ہونہہ۔ ۔ ۔ ۔ تم فاہد کو لے کر پیر سید احسن فرمان شاہ کے پاس کیوں نہیں چلتیں۔ سنا ہے کہ وہ بہت پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔ اگر نظر بد کا کوئی مسئلہ ہوا یا کسی نے کچھ کر رکھا ہوا تو وہ فوراً نا صرف بتا دیں گے بلکہ اس کا توڑ بھی کر دیں گے۔

بلکہ شک تو مجھے بھی ہے کہ میری فاخرہ پر بھی کسی نے کچھ کر رکھا ہے ورنہ میری بیٹی اتنی موٹی بھی نہیں، تمہیں وہ ہماری کلاس فیلو ساحرہ یاد ہے وہ کتنی موٹی تھی اور کیسے اس کی شادی بی۔اے کے فوراً بعد ہو گئی تھی۔ ضروری کسی دشمن نے میری بیٹی کے لیے بندش کا عمل کروا رکھا ہے۔‘‘ شمیم نے سوچتے ہوئے کہنا شروع کیا اور آخر تک پہنچتے پہنچتے ان کا لہجہ بہت پرجوش ہو چکا تھا۔

اس اثناء میں نوکروں نے کھانا سرو کرنا شروع کر دیا تھا۔

دو نوں چونک کر کھانے کی طرف متوجہ ہو گئیں۔
۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔
’’جب بھی میں اپنی اماں یا کسی رشتے دار کی طرف جانے کی بات کرتی ہوں کبھی آپ کے سر میں درد شروع ہوجاتا ہے۔ اور کبھی آپ کو سستی اور تھکاوٹ محسوس ہونے لگتی ہے۔ میں کہتی ہوں کہ آج شائشتہ آپاں کے گھر میں اکیلی نہیں جاؤں گی۔ چاہے آپ کی طبیعت خراب ہے یا جو بھی ہے۔ آپ کو میرے ساتھ چلنا ہی ہو گا۔‘‘ آج پھر بخاری صاحب کے گھر سے لڑنے کی آوازیں گلی تک آ رہی تھیں۔

’’میری پیشانی پر ہاتھ رکھ کر دیکھو۔ اور تم ہی بتاؤ کیا میری طبیعت صحیح ہے؟ تم ہو آؤ اور میری طرف سے معذرت بھی کر لینا۔‘‘ واحد بخاری صاحب کے لہجے میں چڑچڑا پن سختی واضع تھی۔

’’چلیں آج تو آپ بیمار ہوں گے مگر سعید بھائی کی عائشہ کی سالگرہ پر آپ تھکے ہوئے، نمرہ بھابھی کی ماریہ کی شادی پر آپ کی طبعیت چکروں نے خراب کر رکھی تھی۔ یہ آپ کو ساری بیماریاں میرے رشتہ دار کی تقریبات کے مواقع پر ہی کیوں ہو جاتی ہیں۔‘‘ رابعہ بخاری چلائے جا رہیں تھی۔

’’میری راحتیں اور صحت تو اسی دن اٹھ گئیں تھی جب تم سے شادی کی تھی۔ تم سے شادی کیا کی میں نے اپنے آپ کو اسٹار پلس کا مرض کر لیا ہے۔ رات کو تم دیر تک جاگتی ہو اور میر ی بھی نیند خراب کرتی ہو کیونکہ تم نے اپنے فیورٹ ڈرامے اپنے رشتہ داروں سے پہلے دیکھنے ہوتے ہیں۔ اس لیے تم سے صبح اٹھا نہیں جاتا اس لیے مجھے ناشتہ بھی نہیں ملتا۔ دوپہر میں کیوں کہ تم کو سونا ہوتا ہے اس لیے رات کا کھانا بھی تم دوپہر کو بنا کر رکھ دیتی ہو۔ اور اسی کھانے کو دوبارہ گرم کر کے میرے آ گے رکھ دیتی ہو۔‘‘ بخاری صاحب بھی غصے میں آ گئے تھے۔

’’ہاں۔ ہاں۔ اب تو سارا قصور میرا ہی ہے۔ اب تو میرے ٹی۔وی دیکھنے پر آپ کو اعتراض ہو رہا ہے۔ اگر دوپہر کو سُو لو تو آپ کو اعتراض ہوتا ہے۔ میرے ہر ہر بات پر آپ کیڑے نکالتے ہیں۔‘‘ اب کہ رابعہ بخاری نے چلانے کے ساتھ ساتھ رونا بھی شروع کر دیاتھا۔

نتیجتاً بخاری صاحب دو ٹوک انداز میں جانے سے انکار کرتے ہوئے اپنے کمرے میں جا کر بند ہو گئے۔

بخاری کچھ دیر وہیں بیٹھے روتی رہیں۔ پھر اپنے آنسو پونچھے، میک درست کیا اور اور تیزرفتاری سے گاڑی دوڑاتے ہوئے اپنی بڑی بہن کر گھر پہنچ گئی۔

’’آ گئی رابعہ۔ اتنی دیر کیسے ہو گئی اور واحد بھائی کدھر ہیں۔‘‘ شائستہ نے ان کا استقبال کرتے ہوئے کہا۔

’’ان کی طبیعت کچھ خراب تھی۔اس لیے وہ نہیں آ سکے۔انہوں نے معذرت کی ہے۔‘‘ رابعہ نے بیٹھی بیٹھی آواز میں اپنی بڑی بہن کو جواب دیا۔جس کو سن کر ان کے پیشانی پر شکنیں ابھر آئی۔ اور وہ سب سے ملانے کے بعد رابعہ کو اپنے خالی کمرے میں لے جا کر دروازہ بند کر لیا۔ اور ان کو بازو سے پکڑ کر بولی۔
’’رابعہ! ۔ ۔ ۔ تم میری چھوٹی بہن ہو اور ایک لحاظ سے میری بیٹی ہی ہو۔ تم مجھ سے اپنی کوئی بات نہیں چھپا سکتی۔ بتاؤ‘ اب کس بات پر تم دونوں کا جھگڑا ہوا ہے۔’’ شائشتہ نے نرمی سے پوچھا ہی تھا کہ رابعہ نے ان سے گلے لگ کر دھواں دھار انداز میں رونا شروع کر دیا۔
اور روتے روتے بولی کہ۔
’’واحد کا رویہ میرے ساتھ ٹھیک نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ لڑائی کرتے رہتے ہیں اور پھر اس کے بعد آج کا سارا واقعہ سنا دیا۔‘‘

’’ہونہہ۔ ۔ ۔ ۔ شادی کے پہلے سال تم دونوں کتنے خوش تھے لگتا ہے کسی نے جل کر تم دونوں پر عملیات کروا دئیے ہیں تاکہ تم دونوں میں محبت نہ رہے اور ناچاقی پیدا ہو جائے۔‘‘ شائستہ آپاں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔

’’جی۔ جی ایسا ہی ہوگا۔ ورنہ پہلے تو واحد مجھے سے بہت پیار کرتے تھے۔ اب میں کیا کروں؟ میں نے کسی کا کیا بیگاڑاتھا۔ ‘‘ رابعہ کی سوچ کی سویاں اچانک ایک منطقی نقطے تک پہنچ چکی تھیں۔

‘’پریشان مت ہو۔ تم ایسا کرنا۔ جمعرات یا منگل پیشگی اطلاع دے کر یہاں آجانا۔میں تمہیں پیر سید احسن فرمان شاہ کے پاس لے کر چلوں گی۔ وہ بہت پہنچے ہوئے بزرگ ہیں اور انشاء اللہ تمہارا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ اور واحد کو بتانے کی کوئی ضرورت نہیں مرد ایسی باتوں کو نہیں سمجھتے۔‘‘ شائشتہ آپاں نےسمجھاتے ہوئے کہا تو رابعہ نے اپنا سر ہلا کر اقرار کر لیا۔

۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔
جمعرات کا دن تھا اور دوپہر کے تقریباً ڈھائی بج رہے تھے جب بیگم شائشتہ جوبیگم شیم اختر اور رابعہ بخاری کے ساتھ پیر صاحب سے اپنے مسائل کے حل میں ملنے کے آئی تھیں۔

’’پیر سید احسن فرمان شاہ ابھی تشریف نہیں لائے۔ آپ عورتوں کے لیے مختص حصے میں ان کا انتظار کریں پیر صاحب ٹھیک عصر کے وقت اپنے حجرے سے باہر تشریف لاتے ہیں اور عصر کی نماز کے بعد ہی کسی سائل سے ملاقات کرتے ہیں۔ ‘‘ خدام سائلین کا انتہائی ادب کے ساتھ اسقبال کر تے، انہیں ایک نمبر جاری کرتے۔ اور انہیں پیر صاحب کے معمول سے بھی آگاہ کر رہے تھے۔ اور انہیں بھی ایک طرف بنے بڑے سے کمرے میں بیٹھنے کے لیے کہا گیا۔

کمرے میں ایک موٹے کپڑے کا پردہ لگا کر دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ پردے کی دوسری طرف سے مردوں کے آہستہ آہستہ بولنے کی آوازئیں آ رہیں تھیں۔ کمرے کے جس حصے میں خواتین کی نشست تھی اس حصے میں ایک بہت بڑا فانوس لگا ہوا تھا۔ جس میں جلتی شمعیں پورے کمرے کو دودھیا روشنی سے منور کر رہیں تھییں۔

کچھ دیر کے بعد نماز عصر کے لیے آزادن دی جانے لگی تو کمرے میں موجود عورتیں جائے وضو کی طرف بڑھ گئیں جبکہ مرد پہلے ہی حجرے سے منسلک مسجد کی طرف جا چکے تھے۔ جب تمام مرد مسجد میں داخل ہو گئے تو ان کے پیچھے عورتیں بھی اپنی صفیں درست کرنے لگیں۔ تو وہ تینوں جو سب سے پیچھے کھڑی تھیں چپکے سے مسجد سے نکلیں اور پہلے والے کمرے میں جا کر چلی آئیں جہاں کچھ اور خواتین بھی موجود تھیں۔

نماز کی ادائیگی کے بعد جب تمام لوگ دوبارہ بڑے کمرے میں پہنچ گئے تو سرخ و سفید رنگت اور ونورانی چہرے والے پیر صاحب کمرے میں داخل ہوئے اور سب کو سلام کرنے کے بعد عورتوں والے حصے میں تشریف لا کر انہیں بھی سلام کیا۔ پھر اس بڑے کمرے سے منسلک ایک چھوٹے کمرے میں داخل ہو گئے۔

اور دو خادم اس دروازے کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے اور نمبر ایک اور نمبر دو کو پکارا۔

نمبر ایک کو کمرے میں بھیج دیا گیا اور نمبر دو کو کمرے کی قریبی نشت پر بٹھا دیا گیا۔ تقریباً پانچ منٹ بعد نمبر ایک والے بزرگ کمرے سے باہر نکلے اور نمبر دو کو اندر داخل کر کے نمبر تین کو آواز دے گئی جو کہ خواتین کی طرف جاری کیا گیا تھا۔ نمبر تین والی خاتون جا کر انتظار والی نشست پر بیٹھ گئیں۔

لوگ اندر جاتے رہے اور باہر آتے رہے تقریباً ایک گھنٹے بعد ان میں سے رابعہ کا نمبر آ گیا اور وہ جا کر انتظار کرنے والی نشست پر بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر اسے اندر جانے کی اجازت مل چکی تھی۔

رابعہ نے کمرے کے دروزے پر پڑی ہوئی چق اٹھائی اور اندر داخل ہو گئی۔ کمرے میں شمعیں روشن کر کے اجالا کیا گیا تھا۔ دیواروں کے ساتھ خانہ کعبہ اور مسجد النبوی کی بڑی بڑی تصویریں آویزاں تھیں۔ ایک دیوار کے ساتھ چھت تک بنی ہوئی لکڑی کی الماری میں دینی کتب چنی ہوئی تھیں۔ پیر صاحب کے سامنے ریل میں ایک قرآن کریم کھلا ہوا پڑا تھا۔ انہوں نے رابعہ کو سلام کا جواب دیتے ہوئے اس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

رابعہ ایک دیوار کے ساتھ لگے ہوئے بڑے سے تکیے پر بیٹھ گئی۔ اور پیر صاحب کے استفسار پر اپنا پورا مسئلہ بتادیا۔

پیر صاحب نے رابعہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر اپنی آنکھیں بند کر لیں اور کچھ پڑھنے لگے۔

تھوڑی دیر بعد پیر صاحب نے رابعہ کے سر سے اپنا ہاتھ ہٹایا اور آنکھیں کھول دئیں۔ پیر صاحب کی آنکھوں کی سرخی بے تحاشہ حد تک بڑھ چکی تھی۔ انہوں نے لمبے لمبے سانس لیے اور گویا ہوئے۔

’’تم پر بہت زبردست عمل ہوا ہے۔ بچی۔ لیکن انشاء اللہ ہم اس کا توڑ کر دیں گے۔اس کے لیے تمہیں ہمارا بتایا ہوا وظیفہ پورے چالیس دن تک کرنا پڑے گا۔ ہم تمہاری رہنمائی کریں گے۔ کیا کر لو گی۔‘‘

پیر صاحب کے گمبھیر لہجے میں پوچھے سوال کا جواب میں رابعہ کے منہ سے ہلکا سا ’’جی۔۔۔۔‘‘ نکلا۔

’’ٹھیک ہے لیکن سن لو اگر تم یہ عمل پورا نہ کر پائی تو بہت جلد تمہارا اور تمہارے میاں کی علیحدگی ہو جائےگی اور اگر ایک بار عمل شروع کر کے چھوڑ دیا تو اس سے بھی برا ہو گا۔‘‘ پیر صاحب کا لہجے میں سردی اور جلال ایک ساتھ آ گیا تھا۔

رابعہ کے گلے میں الفاظ پھنس کر رہ گئے تھے مگر اپنے گھر کو بچانے کے لیے اس کے منہ سے پھر سے ’’جی۔۔۔۔‘‘ ہی نکلا۔

’’پیر صاحب نے ایک کاغذ پر خوبصورت روشنائی سے کچھ عربی کلمات لکھے اور انہیں روزانہ صبح فجر کے بعد چلتے ہوئے ۱۰۰۰ بار اس طرح پڑھنے کی ہدایت کی کہ پہلے 40بار بیٹھ کر اور پھر 460بار چلتے ہوئے پڑھنے ہیں۔ اور پھر انہیں دہرانا ہے۔ اور ایسا چالیس دن تک کرنا ہے۔‘‘
اس کے بعد انہوں نے رابعہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے عمل جاری رکھنے اور دو جمعرات کے بعد آنے کا وقت دے دیا۔ اور کسی کو بھی ان الفاظ اور اس عمل کے متعلق بتانے سے منع کر دیا۔

۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔

بیگم شائستہ کے سر سے ہاتھ ہٹانے کے بعد پیر صاحب نے انہیں خود کے لیے اور فاہد کے لیے ایک وظیفہ بتایا یہ وظیفہ بھی نماز فجر کی ادائیگی کے بعد تھوڑا چلتے ہوئے اور تھوڑا بیٹھ کر تھا۔ اور اس میں وظیفہ دھرانے کی تعداد رابعہ کے معاملے سے زیادہ تھی۔

اس کے بعد انہوں نے بیگم شائستہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر انہیں بھی عمل جاری رکھنے اور دو جمعرات کے بعد آنے کا وقت دے دیا۔ اور انہیں بھی کسی کو بھی ان الفاظ اور اس عمل کے متعلق بتانے سے منع کر دیا۔

۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔

بیگم شمیم اختر کے سر سے ہاتھ ہٹانے کے بعد پیر صاحب نے انہیں خود کے لیے اور فاخرہ کے لیے ایک وظیفہ بتایا یہ وظیفہ بھی نماز فجر کی ادائیگی کے بعد تھوڑا تیز تیز چلتے ہوئے اور آہستہ آستہ چلتے ہوئے کرنا تھا۔

اس کے بعد انہوں نے بیگم شائستہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر انہیں بھی عمل جاری رکھنے اور دو جمعرات کے بعد آنے کا وقت دے دیا۔ اور انہیں بھی کسی کو بھی ان الفاظ اور اس عمل کے متعلق بتانے سے منع کر دیا۔

۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔

چالیس دن کے بعد جمعرات کے دن وہ دوبارہ پیر صاحب کے حجرہ میں پہنچ کر پیر صاحب کے تشریف لانے کا انتظار کر رہیں تھیں۔ اس بار فاخرہ اور فاہد بھی ان کے ساتھ تھے۔ پچھلی بار کی طرح اس بار ان کے چہروں پر پریشانی بالکل نہیں تھی۔ بلکہ خوشی اور اطمینان کی ایک واضع جھلک ان کے چہروں سے جھلک رہی تھی۔اور وہ یہاں پیر صاحب کا شکریہ ادا کرنے آئیں تھیں۔

فاخرہ پہلے کی طرح سست اور موٹی نہیں رہی تھی۔ اور اس کا رشتہ بھی طے ہو چکا تھا۔

فاہد بھی اب آفس میں دل لگا کر کام کرتا تھا جس پر اس کے باس اور دوسرے کولیگ اس سے خوش تھے اس کوآفس مین رہتے وقت کوفت، بیزاری اور سستی بالکل نہیں رہتی تھی۔

واحد صاحب کو بھی وقت پر تازہ ناشتہ اور تازہ کھانا ملا کرتا تھا جس پر وہ اپنی بیگم کے پھر سے شکرگزار تھے اور اب انہیں نہ ہی سردرد ہوتا تھا اور نہ کوئی اور جسمانی درد۔ اور اب رابعہ بھی روز رات کو وقت بھی سو جاتی تھی اور اپنے ڈرامے دوپہر کے وقت دیکھا کرتی تھی۔

پیر صاحب جو پچھلے کچھ عرصہ سے ان کے اکٹھے نمبروں سے جان چکے تھے کہ وہ اکٹھی آتیں ہیں۔ انہیں اکٹھا ہی اپنے حجرے میں بلا لیا۔ وہ تینوں فاہد اور فاخرہ کو لے کر اندر داخل ہوئی اور بہت عقیدت سے پیر صاحب کا شکریہ ادا کیا۔

پیر صاحب نے انہیں اس عمل کو ہمیشہ جاری رکھنے کا کہہ کر انہیں آئندہ آنے سے منع کر دیا اور دعاؤں کے ساتھ انہیں واپس بھیج دیا۔

۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔
پیر صاحب کے حجرے سے منسلک مسجد میں پروفیسر ساجد اقبال صاحب پیر احسن فرمان شاہ کے بیٹھے ان کے مریضوں کے کیس ڈسکس کر رہے تھے۔ دونوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے اکھٹے ہی نفسیات اور فلسفے کی ڈگری لی تھی۔

’’یار احسن! لوگوں کو پاکھنڈی پیروں سے بچانے کی ہماری پالیسی فل الحال تو بالکل ٹھیک جا رہی ہے۔ مگر تم انہیں جو عربی کاغذ لکھ کر دیتے ہو ان پر کیا لکھتے ہو۔ اور کیا اس سے لوگوں کا تعویز، گنڈوں اور عملیات پر یقین اور پکا نہیں ہو رہا ہے۔‘‘

’’یقیناً، ہماری اس پالیسی سے لوگوں کا تعویز، گنڈوں اور عملیات وغیرہ پر یقین تو بڑھ رہا ہے لیکن میرے پاس ان تمام لوگوں کے نمبر ہوتے ہیں جنہوں نے مجھ سے ’علاج‘ کروایا ہو۔ ان کی نفسیاتی الجھنیں حل کرنے کے بعد تقریباً 6 ماہ بعد میں انہیں بلا کر سب کچھ بتا دیتا ہوں۔ اس دوران وہ ہماری خوب پبلیسٹی بھی کر دیتے ہیں اور زہنی طور پر اس قابل بھی ہو چکے ہوتے ہیں کہ میری بات سمجھ جائیں۔‘‘

’’گڈ، اچھا طریقہ ہے، مگر وہ تم عربی میں انہیں لکھ کر کیا دیتے ہو۔‘‘ساحد صاحب نے پوچھا۔

’’یہی کہ صبح خیزی ہزار پریشانیوں‘ مصیبتوں اور بیماریوں سے نجات کا زریعہ ہے۔‘‘ پر صاحب کے کہنے پر دونوں اصحاب نے قہقہ لگا دیا۔
۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔
ختم شد

No comments:

Post a Comment