Sunday, June 26, 2011

پاکستان، قابلیت اور کارکردگی

پاکستان، قابلیت اور کارکردگی
(
سحر آزاد)
پاکستان جنوبی ایشیاء کا ایک ایسا ملک ہے جس کی جغرافیائی اور تاریخی اہمیت سے اقوام عالم میں کسی کو انکار نہیں۔ یہ خطہ پوری زمین کے ایک جغرافیائی، موسمی اورثقافتی ماڈل کی طرح ہے جس میں یورپ کی طرح برف پوش پہاڑ بھی ہیں افریقا کی طرح ہموار میدان بھی۔ جس میں خلیج کی طرف تپتے ہوئے صحرا بھی ہیں اور روس اور نارتھ پول کی طرح منجمد آبادیاں بھی۔ اس میں امریکہ جیسے ٹھنڈے ریتلے میدان بھی ہیں اور دلدلی آتش فشاں بھی۔ اس میں سطح مرتفع کی سختیاں بھی ہیں اور وادیوں کی راحت بھی۔ اس میں نمکین پانی والے بحر ہند کے ساحل بھی ہیں اور پنجند کا میٹھا دریا بھی ہے۔ اس کے پہاڑ معدنیات کے خزانے ہیں اس کے صحرا تیل و گیس کے زخائر سے بھرے پڑے ہیں۔ اس میں نمک کے پہاڑ ہیں تو اس کی مٹی میں سونا ہے۔ اس میں اسلام آباد کی جدت ہے، تو کیلاش کی قدامت بھی ہے، اس میں پنجاب کی روایت ہے تو خیبر پختوانخواہ کی غیرت بھی ہے۔ اس میں بلوچوں کی طاقت ہے تو کشمیریوں کے دلوں کی حدت بھی ہے اور گلگت کے پھولوں کی مہکت بھی ہے۔

اس کے جوان سیاچن جیسے گلئیشرز پر اپنی ہمت کے جوہر دکھا رہے ہیں تو لڑکے تعلیمی میدان میں بین الاقوامی اعزاز حاصل کر کے اپنے ملک کا نام روشن کر رہے ہیں اور اس کی بیٹیاں پہاڑ وں کے سروں پر اپنے قدم رکھ چکی ہیں۔
یہ وہ ملک ہے جس کے بارے میں اقبالؒ فرماتے ہیں۔

نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
زرا نم ہوتو یہ مٹی بڑی زرخیر ہے ساقی
لیکن۔۔۔۔!
زرخیر ترین زمین اور آبادی کے پچھتر فیصد لوگوں کے زراعت سے متعلق ہونے کے باوجود یہاں پر آٹے کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور گندم، کپاس اور دوسری زرعی اجناس امپورٹ کرنا پڑتی ہیں۔

دنیا میں ڈاکٹر ز اور انجینئرز کی گنتی میں چھٹے نمبر پر ہونے کے باوجود اس ملک کے دیہات میں کوئی ڈاکٹر نہیں ملتا۔ اس سے مملکت پاکستان کے محکمہ صحت کی کامیابی کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ ڈاکٹرز ان سے اتنے ناامید ہیں کہ یا تو وہ ملک سے باہر چلے گئے ہیں یا انہوں نے اپنے ذاتی کلینک بنا لئے ہیں جن میں اکثر کلینکس میں علاج کی غرض سے پہنچنا ہر بندے کے بس کی بات نہیں۔
اگر ہم اپنے ڈاکٹرز کو اکاموڈیٹ نہیں کریں گے تو ایسا ہی رہے گا۔

اس ملک کے پرانے اور چھوٹے شہر تو خیر بڑے بڑے شہر جیسے کراچی اور لاہور کی بھی یہ حالت ہے کہ زرا سی بارش ہو جائے تو شہر سیلاب کا منظر پیس کر رہا ہوتا ہے۔تو یقیناً انجینئرز پرائیوٹ ہاوسنگ اور بزنس پروپوزلز پر کام کر رہے ہوں گے۔
اگر ہم اپنے انجینئرز کو اکاموڈیٹ نہیں کریں گے تو ایسا ہی رہے گا۔

لاہور دنیا کا سب سے زیادہ کالجوں والا شہر ہے اور اس کے مضافات کے اسکولوں کی دیواریں اور چھت تک نہیں ہے۔ بعض دیہاتی اسکولوں میں اساتذہ گھروں میں بیٹھ کر تنخواہ لے رہے ہیں اور ان کی حاضری نہ ہونے کی وجہ سے اسکول زمینداروں کے قبضوں میں چلے گئے ہیں۔ جہاں نئی نسل کی تربیت ہونا تھی وہاں پر جانور باندھے جا رہے ہیں۔ اس سے پاکستان کے تعلمی بنیادی ڈھانچے اور اس کے احتسابی نظام کا پتہ چلتا ہے۔
اگر احتسابی نظام کمزور یا سرے سے ہو گا ہی نہیں۔ تو ایسا ہی رہے گا۔ بلکہ بگڑتا جائے گا۔

پاکستان دنیا کی ساتویں بڑی آرمی اور ایٹمی طاقت رکھنے ولا ایک بڑا ملک ہے۔ لیکن آج بھی اس کے لیڈروں کے اندر اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ غیروں کی دھمکی کا منہ توڑ جواب دے سکیں۔ اخلاقی دیوالیہ اور بار بار کے آزمائے سیاسی گیڈروں کو چننے کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔
پاکستان اپنے قیام کے ساتھ ہی دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کا اعزاز حاصل کر چکا تھا۔ بابائے قوم محمد علی جناحؒ نے پاکستان کے ایک اسلامی جمہوری ملک ہونے کی خوشی پوری دنیا کو سنائی تھی۔ لیکن آج 64 سال گزر جانے کے بعد بھی پاکستان میں دو دو آئین چل رہے ہیں۔ ایک پاکستان کا آئین اور ایک مولوی کا آئین۔ اسلامی جمہوریت کہیں غائب ہو گئی اور دعویٰ آ گیا اسلامی نظام نافذ کیا جائے۔ یعنی جو کچھ پہلے چل رہا ہے سب غیر اسلامی ہے۔ اور پھر نکلا فتوے کا نظام۔ گورنمنٹ سے منظوری لیے بغیر ہر محلے میں ایک عدد قاضی القضاء براجمان ہو گیا۔ جس کی سند یہ ہے کہ وہ کسی دوسرے قاضی کا بیٹا یا بھائی وغیرہ ہے۔ اور دینے لگے فتوے اس کو مار دو وہ کافر ہے۔ اس کو چھوڑ دو وہ مسلمان ہے۔
آج اگر ان سر شوریدہ لوگوں کو روکا نہ گیا تو تباہی کہیں دور نہیں۔

یہ تو کچھ مثالیں ہیں وگرنہ کسی بھی سرکاری محکمے کو اٹھا کر دیکھ لیں۔17 کروڑ قابل ترین اور درد مند دل رکھنے والے نفوس پر مشتمل یہ قوم آج اس بدحالی کا شکار کیوں ہے؟
آج اس کی وجہ میں نہیں بتاؤں گا۔
اس کی وجہ آپ تلاش کریں۔

اورمن الحیث القوم ہم کون کون سی بڑی غلطیاں دہرا رہے ہیں۔ اس کو اپنے اندر تلاشنے کی کوشش کیجئے۔


اے اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ ان لوگوں کا جن پر تمہارا فضل ہوا۔ ناکہ ان لوگوں کا جن پر تمہارا غضب ہے۔ (آمین)

No comments:

Post a Comment