Sunday, June 26, 2011

لیکن کرے کون؟؟؟

لیکن کرے کون؟؟؟


پردیس میں پانچ سال کاٹنے کے بعد میں اپنے شہر سیالکوٹ واپس لوٹا تو دیکھا کہ زندگی تیزی سے ترقی کی جانب بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ کچے اور آدھ پکے مکانوں والی بستیاں ضروریات زندگی سے بھر پور جدید کالونیوں سے تبدیل ہو چکی ہیں۔ وہ سڑکیں جو تھوڑی سی بونداباندی کے بعد جھوہڑ کی شکل اختیار کر لیتی تھیں اب صاف ستھری پکی حالت میں ہیں اور ان کے اطراف میں اسکول کے بچوں نے رضا کارانہ طور پر سایہ دار پودے بھی لگ دیے ہیں۔ اور سڑک سے پرے موجود میدان کو بھی عارضی پارک کی سی شکل دے دی گئی ہے۔

سست، تکلیف دہ قدیمی تانگے کی جگہ برق رفتار، بنسبت آرام دہ موٹر سائیکل رکشہ رائج ہو چکا ہے۔ پرانی کھٹارا بسوں کی جگہ جدید کوچز نے لے لی ہے۔ ٹاٹ والے اسکولوں میں بینچز کا انتظام ہو چکا ہے۔ اور ایک پورے روڈ کے گرد مختلف چھوٹے بڑے اسپتال قائم ہوچکے ہیں جہاں پر معمولی نزلہ زکام سے لے کر دل کے ٹرانسپلانٹ کرنے تک کا انتظام موجود ہے۔

جہاں حلوائی کی دوکان ہوتی تھی آج وہاں ایک بہت بڑی بیکری کھڑی ہے۔ چھوٹی چھوٹی کریانے کی دوکانیں جنزل اسٹورز میں تبدیل ہو چکی ہیں منیاری کی دوکان والا شاپنگ مال کھڑا کر چکا ہے اور اپنے کندھوں پر ٹوکری اٹھائے پھیرے لگانے والے نے اسی شاپنگ مال میں دوکان خرید لی ہے۔

بچوں کے لیے سندباد اور فن لینڈ جیسی تفریحی جگہوں کا انتظام ہو چکا ہے۔ رؤف ٹاور کی طرح کئی اور کثیر منزلہ لگژری ہوٹلز قائم ہو چکے ہیں۔ پہلے الیکڑوانکس اور کمپیوٹر کے لیے ایک سیٹھی پلازہ ہوا کرتا تھا۔ آج جگہ جگہ ایسی کمپیوٹر، الیکڑوانکس اور موبائل سینٹرز نظر آتے ہیں۔

پہلے گھروں مین لینڈ فون ہوتے تھے یا کسی بزرگ کے پاس ایک آدھ موبائل فون ہوتا تھا جب کہ آج ہر گھر میں ایک عدد کمپیوٹر ضرور پایا جا رہا ہے اور گھروں کے تمامی افراد کے پاس موبائل پایا جاتا ہے۔

لیکن لوگ شاید زندگی جینا بھول چکے ہیں۔

ایک دوڑ سی لگی ہوئی محسوس ہورہی ہے، سیلری سے گھر کا خرچہ پورا ہو رہا ہے تو اوور ٹائم سے تقریبات بھگتائی جارہی ہیں اور قرض سے اپنا درجہ زندگی (کلاس) سنوارا جا رہا ہے۔

کانوینٹ، بیکن ہاوس، سٹی اسکول، ایجوکیشن سٹی کے تعلیم کا معیار وہاں نصب سوئمنگ پولز، عمارت، اے سی اور جنریٹرز سے ناپا جا رہا ہے۔

گلشن اقبال اور گیریژن بے حیا عورتوں اور مردوں کو اس قدر تحفظ اور پھلنے پھولنے کا موقع دے رہے ہیں کہ آپ اگر وہاں چند لمحے ٹہریں تو آپ پر بھی بے حیائی کا شبہ کیا جاسکتا ہے۔

اللہ پر اعتبار اور توکل بالکل ختم ہوا محسوس ہو رہا ہے خدا پر یقین سے ہٹ اور خواتینی ڈائجسٹ پڑھ پڑھ کر لڑکیاں خود ہی اپنا بر تلاشنے نکل پڑی ہیں اور آوارہ لڑکے انہیں ٹشو پیپر بنائے پھرتے ہیں اور بعد میں اپنے دوستوں میں ایسی محلے دار، کزنوں اور ساتھی طلب عالم لڑکیوں کے قصوں نام اور مزے لے لے کر بتاتے پائے جا رہے ہیں۔

ملا ویسے کہ ویسے ہی ہیں۔ مفرق، بے ہنر، بےروزگار، معمولی پڑھے لکھے، چند حدیثیں اور چند آیتیں رٹے ہوئے جس سے زیادہ یا کم پوچھ کر آپ خود کو باخوشی کافر ڈکلئیر کروا سکتے ہیں۔ یا تو محفلوں میں طوطے کی طرح ایک ہی بات دہراتے رہتے ہیں یا پھر دوسرے فرقے کے خلاف بولتے رہتے ہیں۔ اب تو بار بار کی دہرائی باتوں کو لوگ سننے کا تکلف بھی نہیں کرتے اور جمعہ کو بھی عین اس وقت مسجدوں میں پہنچتے ہیں جب کہ عربی خطبہ شروع ہونے میں ایک یا دو مںٹ باقی رہتے ہوں۔

کوئی مل کا مالک ہے یا کوئی معمولی کارکن سب لوگ ہی پیسے کی کمی کا باکثرت زکر کرتے پائے جاتے ہیں۔ لیکن حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ اتنی تنگی ہونے کے باوجود صرف ایک نہیں بلکہ تمام موبائل نیٹ ورکس کی ناصرف ’سمز‘ خریدی ہوئی ہیں بلکہ ان پر تمام الٹے سیدھے پیکج بھی ایکٹو کروائے ہوتے ہیں۔

ایک دوست جو کہ سیالکوٹ ٹیلی نار میں کام کرتا ہے اس نے بتایا کہ یہ شہر ہر روز لاکھوں روپے موبائل کے استعمال میں صرف کرتا ہے۔ مجھے اس کی بات پر بالکل یقین نہیں آیا تو اس نے مجھے اپنی روزانہ کلیکشن کی تفصیلات تک دکھا ڈالیں۔

100 کا کارڈ لوڈ کروائیں تو بنا کسی کام کے ہی 16 روپے کاٹ لیے جاتے ہیں اور 84روپے ہی استعمال کرنے کے لیے ملتے ہیں۔ اور ان پیسوں مین لوگوں نے مختلف پیکج بھی کروائے ہوتے ہیں جن کے پیسے کی روزانہ کٹوتی ہوتی ہے اور یہ پیکج عموماً سیکنٹروں ایس ایم ایس اور سیکنڑوں مفت منٹوں پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان پیکجز کو بہت زیادہ پزیرائی بھی حاصل ہے۔ حیرت اس بات کی ہے کہ کیا لوگ یہ پیکج مکمل استعمال بھی کرتے ہیں اور اگر کرتے ہیں تو کیا ان کے پاس بات کرنے کے لیے اتنے فالتو منٹ ہوتے بھی ہیں۔ اور اگر ہوتے ہیں تو اتنی لمبی لمبی یہ بات کیا کرتے ہیں

اور اگر ان کے پاس لاکھوں روپے موبائل فون کمپنیوں کو دینے کے لیے موجود ہیں تو پھر یہ رونا کس چیز کا روتے ہیں۔

پانچ سال پہلے والی وہ سادگی وہ خلوص یہ تیز رفتار ترقی نگل چکی ہے باقی بچا ہے تو صرف ظاہر کی ایک دوڑ جیسے میں سب ہی لوگ بھاگتے اور گرکر کچلے جا رہے ہیں۔
جسم ہیں تو زخم زخم، روح ہے تو داغ داغ

اور شاید یہ صرف ایک شہر نہیں میرے پورے پاکستان کا حال ہے۔

یہ سب دیکھ کر دل میں اتنی تکلیف ہوئی کہ بے اختیار جادو کی چھڑی کی آرزو ہو گئی جسے گھما کر سب کچھ پہلے جیسا کر سکوں۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ جادو کی کوئی ایسی چھڑی نہیں ہوتی تو دوسروں کی غلطیوں کو غائب کر دے۔

بات بہت بگڑی ہوئی ہے مگر اتنی بھی نہیں کہ اسے درست نہ کیا جا سکے۔

لیکن کرے کون؟؟؟

No comments:

Post a Comment