Sunday, June 26, 2011

بلا عنوان

بلا عنوان

عجیب ہونقوں کی طرح بغیر کچھ سوچے سمجھے میں آگے ہی آگے بڑھا جا رہا تھا کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں کہاں نکل آیا ہوں۔ گلیاں اور سڑکیں تو اپنی ہی جیسی ہیں مٹی کی خوشبو بھی بالکل اپنے دیس کی ہی ہے۔ مگر لوگ! لوگوں کی کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی بہت پرائے پرائے لگ رہے تھے۔


میں کسی سے بھی بات کیے بغیر آگئے بڑھتا جا رہا تھا کہ اچانک ایک موڑپر لوگوں کا جم غفیر دیکھا۔ ایک شخص تھا عجیب سی وضع اختیار کیے ہوئے لوگوں کی طرف حقارت کی نظر سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں اور چہرے سے نفرت نظر آ رہی تھی اس کے الفاظ مجھے سمجھ نہیں آ رہے تھے مگر وہ شاید کسی کو ختم کر دینے کی بات کر رہا تھا اچانک میرا سر مڑا تو کیا دیکھتا ہوں کہ تمام لوگوں کے ہونٹ مقفل ہیں اور وہ بالکل مشینی انداز میں سر کو ہلائے جا رہے ہیں۔


میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے پکارنے لگا،" میں جاننا چاہتا ہوں، میں جاننا چاہتا ہوں۔" وہ سب لوگ اٹھ کر مجھ پر ٹوٹ پڑے مجھے مارتے ہوئے میری طرف منہ کر کے الگ الگ بولیاں بولنے لگے کوئی کہہ رہا تھا۔"ارے۔ یہ تو بدتمیز ہے۔""یہ بد اخلاق شخص ہے۔" اسے پتہ ہی نہیں اس شہر میں لوگ سوال نہیں کرتے' اس کی جرات کیسے ہوئی سوال کرنے کی اور وہ بھی اتنے بڑے شخص سے' اس کو ہر لفظ کے ساتھ لپٹی خوشبو محسوس نہیں ہوتی یقیناً یہ خارجی، منافق یا منکر ہے اسے نکال دو اسے کوڑے مارو۔


میں اپنے زخموں کو سہلاتا حیرت سے سب کو دیکھے جا رہا تھا۔ اور یہ سوچ بار بار میرے زہن میں آ رہی تھی کہ میں نے غلط کیا کہا۔ اس شہر میں سوال پوچھنا جرم کیوں ہو گیا۔


کیا اس شہر کے لوگ علم سے بیزار ہوں گے ہیں کہ وہ سوال ہی نہیں پوچھتے۔اور کیا وعدہ کے ایفاء کا وقت قریب آ گیا ہے اور علم اٹھایا جا رہا ہے۔

No comments:

Post a Comment