Sunday, June 26, 2011

تمہیں کیا ملے گا نماز میں

تمہیں کیا ملے گا نماز میں




’’رکو۔ ۔ ۔ ۔ ! کدھر جا رہے ہو؟‘‘



فضا میں کوڑا لہرانے کی آواز سنائی دی۔





’’نماز پڑھنے‘‘



پانی پر سکون روانی سے بہنے جا رہا تھا۔





’’نماز پڑھنے ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ تمہیں نماز پڑھنا آتی ہے۔۔۔۔۔ کیا تمہیں پتہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ کیسے اور کتنے اٹھاتے ہیں۔۔۔۔۔ کیا تم جانتے ہو کہ قیام میں ہاتھ کہاں باندھتے ہیں نظریں کہاں رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ کیا تم جانتے ہو رکوع میں کتنا جھکتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم جانتے ہو سجدہ میں جسم کا کونسا حصہ سب سے پہلے زمین سے لگاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ تشہد اور قعدے کی جامعیت اور کاملیت کیا ہے۔۔۔۔۔ اور نماز سے رخصت کیسے لیتے ہیں۔۔۔۔ کیا ان سب کے بارے میں جانتے ہو۔‘‘



کوڑے لگانے والے ہاتھ میں تیزی بڑھتی ہی جا رہی تھی۔





’’ہاں جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔ مگر ان سب سے کیا ہوتا ہے۔۔۔۔۔؟ میں تو ان سب کا زیادہ خیال نہیں کرتا‘‘



پانی کسی پتھر سے ٹکرایا تھا۔





’’ کیا۔۔۔۔؟‘‘



کوڑے والا ہاتھ ایک لمحے کے لیے تھما اور دوسرے لمحے اس ہاتھ میں سلگتی ہوئی فولادی سلاخیں تھیں۔





’’تم ارکان نماز کے بارے میں احتیاط نہیں کرتے۔۔۔۔؟ تم مجرم ہو۔۔۔۔۔؟ تم خود پر ظلم کرنے والے ظالم ہو۔۔۔۔؟ اس بے فائدہ نماز سے تمہیں کیا فائدہ ہو گا؟ چھوڑ دو ایسی نمازیں جن میں طریقہ نہیں۔ ‘‘ ششششش۔ عریاں جسم کو سلاخوں سے داغا گیا تھا۔





’’کیا نماز بھی بے فائدہ ہوتی ہے۔؟‘‘



پتھر نے پانی کا بہاؤ روک دیا تھا۔





’’ہاں ہوتی ہے۔ تمہارے جیسوں کی۔ جو ارکان کو اہمیت نہیں دیتے۔ ‘‘ ششش ’’جو نماز کو اہمیت نہیں دیتے۔‘‘ششش





’’میں نماز کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہوں۔ لیکن تمہارے جیسی نہیں’’



پانی کی سطح درجہ بڑھ رہا تھا۔





’’ہونہہ۔۔۔۔۔۔‘ تم اگر ان چیزوں کو اہمیت نہیں دیتے تو کس چیز کو اہمیت دیتے ہو۔‘‘ ششش





’’ میں تکبیر تحریمہ کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہوں مگر ان کا فاصلہ نہیں ناپتا کیونکہ میرے ہاتھ جیسے بھی اٹھتے ہیں میری نیت اللہ کی بڑائی کرنا ہوتا ہے۔





میں زیر ناف یا سینے پر ہاتھ باندھنے کو اتنی اہمیت نہیں دیتا۔ کیونکہ میں ہاتھ کہیں بھی باندھوں میری نیت اللہ کے سامنے مؤدب ہونے کی ہوتی ہے۔





اور ہر تکبیر پر ہاتھ اٹھاؤں یا نا اٹھاؤں یہ میرے لیے اہم نہیں ہے۔ کیونکہ ہر بار تکبیر کہنے پر میں اللہ کی بزرگی کو تسلیم کرتا ہوں۔





میں رکوع میں گھٹنوں کو زور سے پکڑوں یا آہستہ سے مگر میری نیت خدا کے حضور عاجزی کی ہوتی ہے۔





میں سجدے میں انگلیاں پھیلاؤں یا سمیٹوں‘ میری نیت بندگی کی معراج پانا ہوتی ہے میری نیت اللہ سے سب سے زیادہ قریب ہونا ہوتی ہے۔





میں تشہد و قعدہ میں سیدھی کمر سے بیٹھوں یا جھک کر بیٹھوں، شہادت کی انگلی ایک بار اٹھاؤں یا پورا تشہد و قعدہ میں لرزاتا رکھوں۔ میں ایک دعا مانگوں یا ایک اضافی دعا مانگوں۔ میری نیت اللہ کی صفات و بزرگی کو تسلیم کر کے اپنے لیے رحم مانگنے کی ہوتی ہے۔





اور سب سے بڑھ کر میں ان طریقوں پر اس لیے بھی دھیان نہیں دیتا کہ میرے نبی ﷺ نے دونوں طریقوں سے یہ عبادت کی ہے۔ اور میرے نبی ﷺ نے کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا۔‘‘





پانی کی سطح پتھر سے اونچی ہو گی تھی اور اس رکاوٹ کو پار کر کے اس نے گرم سلگتی سلاخ کو ٹھنڈا کر دیا تھا۔

No comments:

Post a Comment