عبد السلام کی شادی کیوں نہیں ہوئی۔
شام کے سات بجتے ہی میں حسب معمول طبق پہنچا کاونر پر کھانے کا آرڈر دے کر اپنی مخصوص میز پر بیٹھ کر کھانے کا انتظار کرنے لگا۔
تب میں نے اسے پہلی مرتبہ دیکھا۔ سر کا کافی حصہ خالی ہو چکا تھا۔ چہرے پر شیو نہ کرنے کی وجہ سے سفید اور سیاہ کانٹے سے اگھے ہوئے لگ رہے تھے۔ کھلے گھیرے کی بوسیدہ سی شلوار قیمض پہن رکھی تھی۔ سارا دن دھوپ میں رہنے کی وجہ سے چہرے کی جلد کا رنگ جھلس گیا تھا اور آنکھوں پر بہت موٹے شیشوں کی عینک لگی ہوئی تھی۔
اور مرے مرے قدموں سے چلتا ہوا میز کے پاس آیا اور السلام علیکم کہہ کر میرے پاس بیٹھ گیا۔
میں نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ اس کے سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھا۔
"کیا حال ہے بھائی جان؟"
"الحمد اللہ! بہت کرم ہے اللہ کا۔ جس بھی حال میں رکھے۔" اس کی چال کی طرح اس کی آواز بھی بہت مری مری سی تھی۔
اتنی دیر میں میرا کھانا آ گیا۔
میں نے اسے بھی کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ مگراس نے شکریہ کہہ کر انکار کر دیا۔
چونکہ مجھے اس کے سامنے اکیلے کھاتے ہوئے اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ اس لیے میں کھانا سامنے رکھے اس کا کھانا کا انتظا ر کرنے لگا۔
اس نے جب یہ دیکھا تو بولا۔ "آپ کھانا شروع کریں۔ ابھی دو منٹ میں میرا بھی کھانا آ جائے گا۔"
"دو منٹ کی تو بات ہے میں صبر کر لیتا ہوں۔ " میرے کہنے پر وہ مسکرا دیا۔
"برا نہ مناؤ تو ایک بات پوچھوں؟" اس نے تھوڑا سا جھجھکتے ہوئے سوال کیا۔
"جی ضرور! میں خواہ مخواہ برا نہیں مانتا۔" میں نے جواب دیا۔
تو اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔"کیا آپ کی شادی ہو چکی ہے؟"
"اس طرح کے سوال پر کون برا مناتا ہے بھائی جان۔ بہرحال میری ابھی شادی نہیں ہوئی۔ ابھی میں صرف ۲۶ سال کا ہوں۔ آپ سنائیے آپ کی شادی کب ہوئی تھی اور آپ کے کتنے بچے ہیں۔" میرے جوابی سوال سے اس کے چہرے پر جیسے ایک تاریک سایہ سا چھا گیا۔
"میری ابھی تک شادی نہیں ہوئی۔" اس نے جیسے شرمندہ شرمندہ سے لہجے میں کہا۔
"کیوں؟" حیرت کی شدت سے میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا
"لمبی بات ہے دوست۔ یہ کرو گے میری یہ داستان سن کر؟" اس نے ایک غمزدہ سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ اتنی دیر میں اس کا کھانا بھی آ گیا تھا۔
ہم دونوں نے بالکل خاموشی سے کھانا کھایا۔ نا وہ میری طرف دیکھ رہا تھا اور نہ میں ہی اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ بس دونوں نظریں جھکائے کھانا کھا رہے تھے۔
کھانے کے بعد چائے بھی آ گئی مگر ہم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف نہیں دیکھا۔
ابھی بھی ہم دونوں کے درمیاں ایک عجیب سا سکوت طاری تھا۔
اچانک اس کی آواز نے سکوت توڑا۔
"تم ناراض تو نہیں ہو گئے۔" اس نے پوچھا۔
"نہیں بھائی۔ آئی ایم سوری۔ اگر میری وجہ سے آپ کو دکھ پہنچا ہو تو۔" میں نے جواب دیا۔
" نہیں' نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ٹھیک ہے میں بتاتا ہوں کہ آخر ایسا کیوں ہوا۔" اس نے کہا
"میرا نام عبد السلام ہے۔ میرا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ میں چوبیس سال کا تھا جب میں کویت آ گیا تھا۔ میں ایک غریب خاندان کا پہلا فرد تھا جو کویت آیا تھا۔ میرا پورا گاؤں اور خاص طور پر میرا محلہ بہت غریب تھا۔ میں جب یہاں آیا تو پہلے چھ مہینے تو بہت ہی مشکل سے گزرے۔ اس کے بعد مجھے ایک آئل کمپنی میں پائپ صاف کرنے کا کام مل گیا۔ مہینے میں 26دن کام کرنا ہوتا تھا۔ روزانہ کے چار دینار مل جاتے تھے۔ کھانا اور رہائش بھی کمپنی کی طرف سے تھی۔ اس لیے میں بہت خوش تھا۔ میں ہر مہینے گھر والوں کو پیسے بھیجتا تھا۔
جو کہ ہمارے گھر والوں کے لیے ایک بڑی رقم ہوتی تھی۔ جوں جوں ہمارے گھر والوں کے پاس پیسے آتے گئے۔ انہوں نے پہلے محلے والوں سے ملنا جلنا ختم کر دیا اور پھر رشتہ داروں سے۔ ان کو تمام لوگ لالچی اور ان کے پیسوں پر نظر رکھنے والے لگنے لگے۔
لیکن پھر بھی انہوں نے ڈھونڈ ڈھانڈ کر اپنی مرضی کے مطابق میرے لیے ایک لڑکی پسند کر ہی لی۔ لیکن میں اس وقت جوان تھا اور دوسرے ساتھی لڑکوں کی طرح آزاد رہنا چاہتا تھا۔ اس لیے میں نے گھر والوں کو دو ٹوک الفاظ میں منع کر دیا کہ پانچ سال تک میری شادی کے متعلق سوچا بھی نہ جائے ورنہ میں ناراض ہو جاؤں گا اور کبھی بھی واپس نہیں آؤں گا۔
گھر میں سے کوئی بھی اپنی نئی شان و شوکت نہیں کھونا چاہتا تھا۔ گھر سے فوراً میری ہر بات ماننے کے پہلے خط اور بعد میں ٹیلی فون پر ٹیلی فون آنے لگے۔ میں اپنی اس جیت پر بہت خوش ہو گیا۔اور ہر معاملے میں اپنی مرضی کرنے لگا۔
دو سال بعد میں نے اپنے چھوٹے بھائی کو بھی یہاں بلا کر اسے سیٹ کروا دیا۔ چھوٹا چونکہ پائپ فٹنگ کا کام سیکھ کر آیا تھا۔ اس لیے آتے ہی اسے ایک اچھی تنخواہ والی نوکری مل گئی۔ اور اس نے بھی گھر والوں کو پیسے بھیجنے شروع کر دیے۔
اس کے گھر پیسے بھیجنے سے میری وہ اہمیت نہیں رہی جو کہ پہلے تھی۔ میں بہت حیران تھا کہ اب گھر والے میری بات اتنی توجہ سے کیوں نہیں سنتے۔
اب میری عمر 28 سال ہو گئی تھی اور چھوٹے کی عمر 27 سال ہو گئی تھی اس نے گھروالوں سے اپنی شادی پر اصرار کرنا شروع کردیا کہ اسکی شادی کر دیں۔ اگر بھائی نے لیٹ شادی کرنی ہے تو اس کی بعد میں کر دیجیے گا۔ میں نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی اور اس کی شادی کے لیے اپنے ماں باپ کو پریشرائز کرنا شروع کردیا۔ اور آخری حل کے طور پر میں نے پیسے بھجوانے بند کر دیے اور چھوٹے کو بھی پیسے بھجوانے سے روک دیا۔
آخر کار گھر والےمیرں ضد کے سامنے ہار گئے اور چھوٹے کی شادی اس کی پسند کی جگہ پر بہت دھوم دھام سے شادی کر دی گئی۔ سارے گاؤں والے اور رشتہ دار طرح طرح کی باتیں بنا رہے تھے کہ بڑے کے ہوتے چھوٹے کی شادی کیوں کر دی۔
چھوٹے نے چونکہ چاہ مہینے کی چھٹی لی تھی اور میں نے صرف ایک ماہ کی اس لیے میں اسے چھوڑ کر واپس آگیا۔ مجھے یہاں پہنچے تقریباً دو مہینے ہی ہوتے تھے کہ گھر میں کسی بات پر جھگڑا ہوا اور چھوٹا اپنی بیوی کو لے کر الگ ہو گیا۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ گھر پر پھر سے میری حکومت قائم ہو جائے گی اور میں پھر سے اپنی مرضی کیا کروں گا۔
چھوٹے نے علیحدہ ہونے کی وجہ سے اپنی چھٹیوں سے پہلے ہی پہنچ کر رپورٹ کر دی اور اب وہ مجھ سے کھنچا کھنچا رہنے لگا تھا۔ اور آخر کار مجھ سے الگ ہو کر کسی اور ساتھ رہنے لگا۔
مزید ایک سال بعد میری مہلت کے پانچ سال ختم ہوگئے۔ گھر والوں نے کہا کہ پیسے بھیجو تاکہ تمہاری اور تمہارے ساتھ تمہاری اکلوتی بہن کی بھی شادی کر دی جائے۔ پیسوں کے لیے گھر والوں نے چھوٹے کو خط لکھا۔ جس نے ایک سال میں ایک لاکھ روپیہ کر کے دینے کی حامی بھر لی اور میری شادی مزید ایک سال کے لیے تاخیر کا شکار ہو گئی۔
ابھی چھ مہینے ہی گزرے تھے کہ لڑکے والی نے چھوٹی کی شادی کے اصرار کرنا شروع کر دیا اور ابھی میرے پاس اتنی رقم اکٹھی نہیں ہوئی تھی۔ کہ ہم دونوں کی شادی ہو سکتی تو میں نے مشورہ دیا کہ یا تو ان کو انتطار کے لیے کہیں یا پھر یہ رشتہ توڑ دیں۔ اور یہی حال چھوٹے کا تھا۔ لیکن یہ بہن اس کی بہت لاڈلی تھی اور رشتہ بھی بہت اچھا تھا۔ اس لیے اس نے رشتہ توڑنے سے انکار کرتے ہوئے قرض لے کر شادی کے لیے مناسب رقم دینے کا انتظام کر ہی لیا۔
میں جو ہمیشہ اپنی واہ واہ ہی سنا کرتا تھا اس بارخود سے زیادہ کسی کی بڑھائی کیسے سن سکتا تھا۔ اس لیے میں نے بھی تمام جمع شدہ رقم گھر بھجوا دی۔ بہن کی شادی بھی بہت دھوم دھام سے کر دی گئی۔
اب نہ ہی گھر والوں کے پاس میری شادی کے پیسے تھے اور نہ میرے پاس۔ الٹا چھوٹے کو ہرانے کےلیے میں نے کافی قرض بھی اٹھا لیا تھا۔ اس لیے فل الحال شادی کا کوئی امکان نہیں تھا۔ شادی کے بعد میں پھر سے واپس آ کر کام میں جھٹ گیا۔
اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ میں یہاں بیمار ہو گیا۔ اور چھ مہینے تک الصباح ہسپتال میں داخل رہا۔ علاج کا خرچہ تو حکومت برداشت کرتی رہی مگر اس عرصے میں میری نوکری بھی چھٹ گئی اور قرض بھی مزید بڑھ گیا۔ اس دوران چھوٹے نے میرا خیال رکھنا شروع کر دیا۔ مگر اس کی بھی نئی نئی فیملی اور خرچے تھے اس لیے وہ کہاں تھا دو گھر سنھبال سکتا تھا۔
صحت یاب ہونے کے بعد بھی میں اس قابل نہیں تھا کہ محنت کا کوئی کام کر سکتا۔ ایک کویتی ڈاکٹر نے مجھ پر ترس کھا کر اپنے گھر میں خادم رکھ لیا۔ اور تم جانتے ہی ہو کہ خادم کی تنخواہ کتنی ہوتی ہے۔ رفتہ رفتہ پانچ سال گزر گئے اور انہیں پانچ سالوں میں' میں نے کم کھا کر اور کم اچھا پہن کر اپنا سارا قرضہ اتار دیا ہے۔
اب میں 35 سال کا ہو گیا تھا اور جلد از جلد شادی کرنا چاہتا تھا۔ مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا یک بعد دیگرے ایک ہی سال میں میرے ماں باپ اس دنیا سے گزر گئے۔ ماں باپ کے گزرنے کے بعد چھوٹے نے گھر بیچ کر جو قرض میرے بیماری کی وجہ سے گھر والوں نے لیا تھا وہ ادا کیا اور اس کے بعد جو تھوڑی سی رقم بچ گئی مولوی صاحب سے اس کے ہم تینوں کے لیے حصے کروا دیے۔
اب میں 40 سال کا ہو چکا ہوں۔ ماں باپ کے مرنے کے بعد اب کوئی میرا پرسان حال نہیں ہے سب اپنی اپنی زندگیوں میں مست ہیں اور کوئی پوچھتا بھی نہیں ہے کہ میاں کس حال میں ہو زندہ ہو یا مر گئے۔" اس کی آنکھوں میں نمی صاف محسوس کی جاسکتی تھی اور میں چاہنے کے باوجود بھی اسے ایک لفظ تسلی کا نہیں کہہ سکا۔
وہ دو منٹ خاموشی سے میری طرف دیکھتا رہا اور پھر خاموشی سے اٹھ کر طبق کے دروازے سے باہر نکل گیا۔
ختم شد
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment