بے جی کی تتلیاں
رات ڈھائی بجے کا عمل ہو گا‘ اندھیرے کمرے میں وہ تنہا سو رہا تھا۔ اچانک اس کے جسم کو ایک زوردار جھٹکا لگا اور وہ تیزی سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس کی سانسیں بہت تیزی سے چل رہی تھیں۔ پورا جسم اور کپڑے پسینے سے شرابور تھے۔ اس کے چہرے پر حسرت اور ہاتھ ایسے پھیلے ہوئے تھے۔ جیسے وہ کسی کو روک لینا چاہتا ہو۔
..........
’’اٹھو پتروں! بابا جی دروازے پر آنے والے ہیں۔ آج اس کو آٹا نہیں دینا کیا۔ ‘‘بےجی نے مجھے اور میرے چھوٹے بھائی علی کو اٹھاتے ہوئے کہا
’’بے جی آپ ہم دونوں سے ہی آٹا بابا جی کو کیوں دلواتی ہے۔ اور کیا بابا جی کو روز آٹا دینا ضروری ہے۔‘‘ میں نے حسب عادت منہ بگاڑے ہوئے پوچھا۔
بے جی نے کوئی جواب نہ دیا ہمیشہ کی طرح مسکراتے ہوئے آٹے کا برتن ہمارے ہاتھ میں پکڑا دیا۔
’’ہم بابا جی کو آٹا کیوں دیتے ہیں؟‘‘ علی نے بہت معصومیت سے بے جی کا پلو پکڑ کر کھینچتے ہوئے پوچھا۔
بے جی ہمارے پاس گھنٹوں کے بل زمیں پر بیٹھ گئیں اور ہم دونوں کو اپنی بانہوں میں لیتے ہوئے پیار سے بولیں۔’’ جب ہم اللہ تعالیٰ کے بندوں کی مدد کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوتا ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوتا ہے تو ہمیں اچھے اچھے انعام دیتا ہے۔‘‘
انعام کی بات سن کر ہم دونوں بہت خوشی خوشی دروازے کی چوکھٹ میں بیٹھ کر باباجی کا انتظار کرنے لگے۔
علی ہمیشہ کی طرح آج بھی بہت پرجوش تھا۔ اسے ہمیشہ سے ہی باباجی کو آٹا دینا بہت اچھا لگتا تھا اس لیے وہ مسکرا رہا تھا اور میں اس کی مسکراہٹیں دیکھ کر ہمیشہ کی طرح اسے گھور رہا تھا۔ لیکن جتنی چھوٹی سی عمر میں وہ تھا اسے اس کی قطعاً کوئی پروا نہیں تھی۔
تھوڑی دیر بعد باباجی گلی کی نکر سے "دعا فقیراں رحم اللہ" کی گردان کرتے ہوئے نمودار ہوئے۔ میں نے بابا جی کے منہ سے کبھی کوئی دوسرے الفاظ نہیں سنے تھے۔
وہ ہمارے پاس پہنچے ہمارے سروں پر ہاتھ پھیرنے کے بعد اپنے ہاتھ ہوا میں دعا کے انداز میں بلند کیے۔ پھرہمارے ہاتھوں سے برتن لے کر آٹا اپنے جھولے میں ڈالا اور چلے گئے۔
مجھے یہ سب بہت اچھا لگتا تھا مگر ایک سوال رہ جاتا تھا کہ "بے جی اپنے لیے انعام کیوں نہیں چاہتی۔ ہمیشہ ہمارے ہی نام انعام کیوں کر دیتی ہیں؟
..........
میں اس دن بہت ہی خوش تھا۔ کیونکہ میں پہلی بار ابا جی کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں جا رہا تھا۔ حالانکہ میں بار بار ابا جی سے ضد کرتا تھا کہ مجھے بھی مسجد میں لے جائیں۔ مگر وہ ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ جب تم سات سال کے ہو جاؤ تب لے کے جاؤں گا۔ میرے سب دوست نماز پڑھنے جاتے تھے وہ مجھ پر ہنستے تھے کہ تم نماز پڑھنے نہیں جاتے۔
آج میں سات برس کا ہو گیا تھا اس لیے میں بہت خوش تھا کہ آج سے میں بھی نماز پڑھنے مسجد جاؤں گا ابا جی مجھے مسجد جانے سے نہیں روکیں گے اور کوئی بھی مجھ پر نہیں ہنسے گا۔
بے جی نے فجر سے تھوڑا پہلے مجھ کو نہلایا۔ نئے کپڑے پہنائے میرے بال بنائے۔ اس دوران میں باربار ابا جی کو دیکھ رہا تھا کہ کہیں آج بھی وہ مجھے چھوڑ کراکیلے ہی مسجد نہ چلے جائیں۔
جوں ہی بے جی نے میرے بال بنانے سے فارغ ہوئیں میں بھاگ کر ابا جی کے پاس چلا گیا۔ ان کی انگلی پکڑ کر مسجد کی جانب روانہ ہو گیا۔
گھر سے تھوڑا ہی دور نکلے ہوں گئے کہ اچانک ابا جی کی نظر میرے سر پر پڑی تو وہ رک گئے اور بولے "تمہاری ٹوپی کدھر ہے؟ لگتا ہے گھر بھول آئے ہو۔ جاؤ بھاگ کر پہن کر آ جاؤ اتنی دیر تک میں آہستہ آہستہ مسجد کی طرف چلتا ہوں۔"
میں بھاگ کر گھر میں داخل ہوا اور سیدھا اپنی ماں کے کمرے کی طرف بڑھا۔ وہ مصلے پر بیٹھی ہوئی تھیں ان کے ہاتھ دعا کے لیے بلند تھے اور وہ بہت عاجزی سے اللہ تعالیٰ سے درخواست کر رہی تھیں کہ
’’یااللہ! میراپتر بہت چھوٹا ہے۔ ابھی وہ بہت نادان ہے۔ اسے نہیں پتہ کہ تیرا رتبہ کیا ہے۔ تمہارے آگے کیسے جھکتے ہیں۔ یااللہ اسے تمہارے گھر میں اٹھنے بیٹھے کا بھی پتہ نہیں ہے۔ اگر اس سے کوئی بے ادبی، کوئی غلطی، کوئی کوتاہی ہو جائے تو اسے معاف کر دینا۔ اس کے الفاظ کو درگزر کرنا۔ تم سے بہتر درگزر کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ تم سے بہتر درگزر کرنے والا کوئی نہیں ہے۔‘‘
سائیڈ ٹیبل پر میری ٹوپی پڑی تھی میں نے وہ اُٹھائی اور جلدی سے بھاگ کر بابا کے پاس پہنچ گیا۔
لیکن میرے زہن میں ایک الجھن پیدا ہو چکی تھی۔ مجھے بالکل سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں تو نماز پڑھنے جا رہا ہوں۔ ایک اچھا کام کرنے جا رہا ہوں۔ تو بے جی کس اتنی ڈری ہوئی کیوں ہے۔
..........
میں نے بہت زور سے دروازہ بند کیا۔ اپنا بستہ کندھوں سے اتار کر زمین پر دے مارا۔ اور بہت غصے سے بڑبڑانے لگا۔
بے جی تیزی سے باہر آئی وہ میرا غصے سے سرخ منہ دیکھ کر پریشانی سے پوچھا۔
’’کیا ہوا پتر! سب خیریت ہے ناں۔ اتنا غصہ کس پر آ رہا ہے۔‘‘
’’بے جی۔ وہ شمعوں میرے ہاتھوں سے ماری جائے گی۔‘‘ میں نے غصے سے چلاتے ہوئے کہا
’’اب کیا' کر دیا اس بیچاری نے کہ تم اسے مار ہی ڈالنا چاہتے ہو۔‘‘ بے جی نے اپنی مسکراہٹ دبا کر کہا۔
’’آج پھر وہ پانی کا گلاس لیے دروازے پر کھڑی تھی۔ کہہ رہی تھی ٹھنڈا پانی پی لو کتنی گرمی ہے۔ اور وہ کمبخبت کاشی وہ بھی میرے ساتھ تھے میرے‘ ہنس کر کہنے لگا کہ پسینہ تو میرا بھی نکل رہا ہے مجھے تو نے کبھی پانی نہیں پوچھا۔‘‘
میں سانس رک کر بے جی کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا رہی تھی۔
" اب اس کاشی نے سب کو بتا کر میرا مزاق اڑوانا ہے اور آپ مسکرا رہی ہیں۔اس شموں بی بی کو روک دیں ورنہ میرے ہاتھوں ضرور ماری جائے گی۔‘‘
’’ویسے پتر! کڑی ہے بہت سونی۔ تمہارے بابا سے بات کروں‘‘ بے جی نے میری ساری بات نظر انداز کر کہ کہا تو میرا رنگ اُڑ گیا کہ کہیں بے جی سچ میں بابا کوبتا دیا تو۔
’’ناں بے جی! ایسا سوچیے گا بھی مت۔‘‘میری آواز بہت سخت اور انداز بے حد بے لچک تھا۔
بے جی میری ہر حرکت اور ہر انداز کو سمجھتی تھی۔ میری بات سن کر اچانک انہوں نے مجھے اپنے پاس بٹھا تے ہوئے کہا۔
’’پتر اب تم میڑک میں ہو۔ بہت سمجھدار ہو۔ میں آج جو بھی تمہیں کہوں اسے یاد رکھنا۔ چاہیے آج یہ بات تمہیں سمجھ آئے یا نہ آئے۔ مگر اسے یاد ضرور رکھنا۔ ایک دن یہ تمہیں سمجھ آ جائے گی۔
یہ جو لڑکیاں ہوتیں ہیں ناں۔ یہ بالکل تتلیوں کی طرح ہوتی ہے۔ جس ہتھیلی پر بیٹھ جاتی ہیں اس ہتھیلی کو اپنے سارے رنگوں ساری خوشیوں سے خوبصورت بنا دیتی ہیں۔ پھر ایک ہتھیلی میں بیٹھنے کے بعد اگر ان کو اس ہتھیلی سے علیحدہ کر دیا جائے تو وہاں سے یہ بے رنگ اور بے پر ہو اٹھتی ہے۔ اور دوسری بار رنگ بھرے جانے اور پر نکلنے میں ان کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔
کوشش کرنا کہ کبھی بھی تمہاری وجہ سے کسی تتلی دوبارہ رنگ بھرنے اور دوبارہ پر نکالنے کے مجبور نہ ہونا پڑے۔
میری بات یاد رکھو گے ناں۔‘‘
پتہ نہیں بے جی کی آواز میں ایسا کیا تھا کہ فوراً میرے منہ سے نکلا۔’’بے جی۔ میں کبھی آپ کی یہ بات نہیں بھولوں گا۔‘‘
میری سوچ پھر ایک نقطے پر اٹک گئی تھی کہ "بھلا میں کیسے کسی کے رنگوں اور پروں کو بچا سکتا ہوں۔"
..........
میڑک فائنل امتحانات کا انگلش کا پہلا پرچہ دے کر گھر آیا تھا۔ پرچہ بہت اچھا ہوا تھا اس لیے میں بہت خوش تھا۔
بے جی نے میرا فیورٹ تازہ کھانا روٹی اور بنڈی بنا کر مجھے دی۔ میں نے بڑے مزے لے لے کر کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد بے جی بولیں کہ
"میری طبیعت کچھ خراب لگ رہی ہے چلو دوائی لے کر آتے ہیں"
ڈاکٹر کا کلینک چونکہ کافی فاصلے پر تھا اس لیے میں بھاگ کر تانگہ لے آیا۔ ہم دونوں تانگہ پر سوار ہو کر ڈاکٹر کے پاس پہنچے۔
ڈاکٹر کے پاس ایک مریض پہلے سے موجود تھا۔ اس لیے ہم ویٹنگ روم میں بیٹھ گئے۔
بے جی نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ اچانک انہوں نے میرے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کر دی۔ میں نے چونک کر ان کی طرف دیکھا ان کا جسم کانپا شروع ہو گیا تھا۔ میں نے ڈاکٹر کو آواز دی ڈاکٹر فوراً آ گیا۔ انہیں دو ٹیکے لگائے۔
بے جی نے میری طرف دیکھ کر اکھڑے اکھڑے لہجے میں کہا کہ "رونا نہیں۔ پتر! لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ " بے جی چلی گئی تھی۔ اپنے سوہنے رب کے پاس۔
..........
مجھے محسوس ہوا کہ کوئی میرے بالوں میں اپنا ہاتھ پھیر رہا ہے یا احساس ایسا پر لطف تھا کہ میرا دل چاہ رہا تھا کہ یہ احساس کبھی بھی ختم نہ ہو۔
میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو بے جی میرے بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ مجھے آنکھیں کھولتا دیکھ کر مسکرا دیں۔
"کیوں پتر! اپنی بے جی کا کہا سمجھ میں نہیں آ رہا۔"
’’بے جی۔ سمجھ تو گیا ہوں مگرلوگ تو کچھ اور ہی کہتے ہیں۔‘‘
’’کیا کہتے ہیں لوگ؟" بے جی کی مسکراہٹ اور واضع ہو گئی تھیں۔
’’وہ کہتیں ہیں کہ شادی سے پہلے دلی لگواؤ، محبت ایک اچھی چیز ہے جس سے تتلیوں کے رنگوں اور پروں پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ تتلیاں بہت سخت جان ہوتی ہیں۔ اپنے رنگوں کو سنھبال سنھبال کر اور پروں کو حفاظت سے رکھتیں ہیں۔ وہ ہتھیلیوں کے گرد تو چکر لگاتی ہیں مگر ان ہتھیلیوں پر بنا مضبوط تعلق بیٹھتی نہیں ہیں۔ اور اگر کچھ رنگ اتر بھی جائے کچھ تکلیف برداشت بھی کر لیتیں ہیں۔‘‘
’’پتر! فیصلہ تو تم کو کرنا ہے۔ بس اتنا یاد رکھا کہ ان تتلیاں کے رنگ کا ایک قطرہ بھی ارزاں نہیں ہوتا۔ اب تو سو جاؤ میں چلتی ہوں۔" بے جی نے اٹھ کر جاتے ہوئے کہا
"بے جی۔ پھر سے مت جائیں۔ مجھے چھوڑ کر مت جائیں۔ بے جی، بے جی رکیں" میں نے بے اختیار ان کو روکنے کی کوشش کی مگر میں اپنی جگہ سے ہل نہیں سکا۔
’’بے جی نے مڑ کر میری طرف دیکھا اور کہا۔ میں رک نہیں سکتی۔ مگر تمہیں اپنا وعدہ تو یاد ہے ناں۔
کسی بھی تتلی کے پر اور رنگ اترنے کا زمہ دار تم کبھی نہیں بنو گے۔‘‘
..........
ختم شد
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment