کبھی اور پھر یہاں پر اضافی ہیں۔ انہیں پڑھنے ضروری نہیں۔
کبھی تعلقات بڑھانے کو دل چاہتا ہے
پھر دنیا سے اوجھل ہونے کو دل چاہتا ہے
کبھی ہجوم میں منزل کا تعین کرتا ہوں
پھر ویران جنگل میں کھونے کو دل چاہتا ہے
کبھی کیچڑ سے خوب گندھ مچاؤں
پھر زرہ زرہ دھونے کو دل چاہتا ہے
کبھی دور تک انجان راستوں پر چلتا رہوں
پھر لمبی تان کر سونے کو دل چاہتا ہے
کبھی گلا پھاڑ پھاڑ کے قہقہے خوب لگاؤں
پھر دھاڑیں مار کے رونے کو دل چاہتا ہے
کبھی منبر پر چڑھ کر خوب شور مچاؤں
پھردیر تک خاموش رہنے کو دل چاہتا ہے
کبھی تقلید کے دسیوں سال گزاروں
پھر ملا مار کے مرنے کو دل چاہتا ہے
کبھی ساری رونقیں کم پڑ جاتی ہیں
پھر سحر تنہا کونے کو دل چاہتا ہے
(سحر آزاد)
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment