Sunday, June 26, 2011

چھوٹی سی غلط فہمی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ہمارے زندگی میں اکثر اوقات ایسا وقت آتا ہے جب وقت بالکل ٹھہرا سا لگتا ہے۔ ایک ہی جیسی روٹین، صبح اٹھنا، ناشتہ کرنا آفس جانا واپس آ کر کھانا تیار کرکے کھانا اور نیوز دیکھ کر کوئی کتاب پڑھنے کے بعد سو جانا اور اگلے دن پھر سے وہی روٹین ۔ ۔ ۔ ۔

تو بالکل ایسا ہی ان دنوں میرے ساتھ ہو رہا تھا۔ میر ا قیام وطن سے ہزاروں میل دور "صحرا کے تاج" دبئی میں تھا۔ جب کہ پاکستان میں موجود اکثر دوستوں کا خیال تھا کہ دبئی جیسے جدید، بیدار اور زندگی سے بھر پور ملک میں بوریت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔وہ ان کو اندازہ ہو بھی کیسے سکتا تھا اورپہلے مجھے بھی نہیں پتہ تھا کہ کہ اس باہر سے رنگین نظر آنے والی زندگی کی دلکشی کا عکس بہت جلد دھندلا ہو جاتا ہے اور پھر ہر خوبصورت بالکل ایک پوسٹر کی طرح لگنے لگتی ہے اور تب اندازہ ہوتا ہے کہ گھر کا آرام اور سکون کتنا انمول تھا۔

"اگر لکھ چکے ہو تو تو زرا منے کو دیکھ لو۔ کب سے رو رہا ہے۔" کچن سےآتی بیگم کی آواز نے لکھنے کے موڈ کا پھر سے ستیاناس ہو گیا۔ اور میں جو پچھلے کافی عرصے سے کوشش کر رہا تھا کہ کم از کم پوری زندگی میں ایک تحریر ہی لکھ لوں۔ دل میں اپنی شادی کے وقت کو کوستا ہوا اپنے صاحبزادے کے پاس آ کر اسے گھورنے لگا۔

اور وہ محترم جو پچھلے کافی دیر سے رُو رُو کر اپنا سُر سدھارنے کی کوشش کر رہے تھے۔ گھورنے جانے پر ایک لمحے کے لیے تیوری چڑھائی اور پھر جیسے میری بے بسی دیکھ کر مسکرا دئیے۔ اس وقت اتنا غصہ مجھے اس کی ماں پر نہیں آ رہا تھا جتنا اس محترم پر آیا۔
"خیر بچو تھوڑا بڑھا ہو جاؤ پھر دیکھو گا تمہیں۔ " یہ کہا نہیں صرف دماغ میں ہی سوچا۔ اس لیے کہ ان محترمہ کے کان بہت بڑے اور تیز ہیں۔ جن کے مجازی خدا ہونے کا مجھ کو شرف حاصل ہے۔ اور اپنے لاڈلے کے بارے میں ایسے خیالات جان کر میرا شام کا کھانا بھی بند کیا جا سکتا تھا۔ اس لیے فل الحال خود ہی سوچ سوچ کر خوش ہوا جا رہا تھا۔

لیکن منے کو شاید میری خوشی کچھ زیادہ پسند نہیں آئی تھی۔ اس لیے مجھ کو گیلا کرتے ہوئے' پھر سے لاؤڈ اسپیکر آن کر دیا۔

"تم سے ایک چھوٹا سا بچہ بھی سنبھالا جاتا اور دعویٰ کرتے ہو کہ 500کارکنان کو روز سنبھالتا ہوں۔قسم سے بہت ہی نکمے انسان ہو تم۔" بیگم نے کچن سے نکل کرجلدی سے ٹیبل سجاتے ہوئے حسب معمول مجھے "نکما" قرار دیا۔اور آ کر اپنے لعل کو لے کر اس کو نیپی کرنے کے بعد اس کے جھولے میں لٹا دیا۔

اس دوران میں نے ٹی وی آن کر لیا تھا۔ اور جیو نیوز پر خبریں سن رہا تھا۔ کیپٹل ٹاک میں حامد میر سیاستدانوں کا دنگل کروا رہا تھا۔ اور گفتگو ایسے موڑ کی طرف جا رہی تھی کہ میں دنیا و جہاں سے غافل ہو کر اسے سن رہا تھا۔ کہ پھر سے بیگم نے طنزیہ انداز میں حکم نامہ جاری کیا۔
"ابھی میں ٹی وی میں جا کر اعلان نہیں کرنے والی کہ کھانا ہونے پر دوبارہ گرم کر کے نہیں دوں گی۔ شرافت اسی میں ہے کہ آ کر کھانا کھا لو۔ ورنہ" اور اس ورنہ کی حقیقت میں بہت اچھی طرح جانتا تھا اس لیے حامد میر پر ایک ترستی نظر ڈال کر میں کھانے کی طرف متوجہ ہو گیا۔

میز پر پہنچ کر پہلے لقمے کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا۔ کہ میرا ہاتھ پر ایک بھاری سا ہاتھ پڑا۔ "برخودار کھانے سےپہلے بس گھر والوں کا میز پر موجود ہونا ضروری ہوتا شادی کے بعد سے تم اخلاق بھولتے جا رہے ہو اور بیٹی تم بھی اس کو نہیں سیکھاتی۔" میز پر ابھی ابھی آ کر بیٹھے ابا جان نے اپنا فرض پورا کیا (یعنی مجھے ڈانٹا اور اپنی پیاری بہو۔ جو خیر سے ان کی بھانجی بھی ہے کہ طرف متوجہ ہوئے۔

"جی ابا جی میں تو بتاتی ہی رہتی ہوں مگر یہ پتا نہیں آج کل کن خیالوں میں گم رہتے ہیں۔" محترمہ نے ایسے انداز میں کہا جیسے ابا جی نے مسئلہ اسرائیل وفلسطین کے بارے رپورٹ طلب کی ہو۔

خیر آج کل میری یہی روٹین تھی یعنی سارا دن دفتر میں شیخ صاحب اور مزدروں کے ہاتھ میں فٹبال بن کر دن کو سیاہ کرتا اورگھر آکر ابا جی اور بیگم کے ہاتھوں میں لڑکھتا رہتا۔
لیکن اسی دوران میری زندگی میں ایک ایسا موڑ آیا کہ جس نے میری زندگی بدل کر رکھ دی۔

مس شاہدہ ایک نیولی بیوہ نے ہماری کمپنی میں پروڈکشن انچارج کی خالی ویکینسی کے لیے اپنی درخواست جمع کروائی خوبصورت گورا رنگ، اسٹائلش لباس اور بولنے کا انداز انتہائی مہذب تھا۔ عمر اس کی 32سال تھی مگر بمشکل 24،25کی لگتی تھی۔ میں نے ان کی سی۔وی شارٹ لسٹ کر کے پروڈکشن مینجر کو بجھوائی تو محترم جو ہر وقت مصروف رہنے کا رونا رہتے تھے نے فوراً (شاید صرف تصویر) دیکھ کر ہی۔ میرے آفس میں مس شاہدہ کو ملاقات کا شرف بخشنے کا فیصلہ کیا اور ٹھیک پانچ منٹ بعد وہ میرے آفس میں موجود تھے۔ وہ حسب توقع صرف دس منٹ کے انٹرویو کے بعد مس شاہدہ کا تقرر کر لیا گیا۔

اب یہ تقرر میری زندگی پر کیسے اثر انداز ہوا۔ ہوا یوں کہ ایک روز مس شاہدہ آفس سے لیٹ ہو گئیں۔ اور میں جو اپنی مرضی سے آدھا گھنٹہ بغیر کام، آرام کر کے ہی گھر جایا کرتا تھا۔ تو میں نے ان کے گھر تک ان کو لفٹ دے دی۔ قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ ابا جی بھی اپنی گاڑی میری زوجہ محترمہ کو ماہانہ شاپنگ کروا کے لا رہے تھے۔انہوں نے مجھے دیکھ لیا۔


میں جو پورا سارا مس شاہدہ کی خوبصورت خوبصورت باتوں کو انجوائے کرکے اب خوشی خوشی گھر میں داخل ہوا تو کیا دیکھا۔ اباجی اور بیگم دونوں کا چہرہ ناراضی سے تھوڑا پھولا پھولا لگ رہا تھا۔ لیکن میں نے دونوں کو زیادہ توجہ نہیں دی۔ اور بہت اچھے موڈ کے ساتھ جا کر منے کو کاٹ سے اٹھایا اور اس کے ساتھ کھیلنے لگا۔ یہ دیکھ کر تو ان دونوں کی حالت اور بھی سوا ہوگی۔
"آؤ کھانا کھا لو۔" ابا جی نے بہت سرد آواز میں پکارا۔

"مجھے بھوک نہیں ہے آپ کھا لیں میں نے دوپہر میں تھوڑا زیادہ کھا لیا تھا۔"

"ہاں میاں! اب تمہیں گھر کا کھانا برا لگنے لگا ہے۔ اب تو تم باہر ہی کھایا کرو گے۔"
ابا جی کے اس انداز میں کہنے کے باوجود میں نے کوئی خاص توجہ نہیں دی اور میں تھک گیا ہوں کہتا ہوا اپنے روم میں جا کر سو گیا۔

صبح اٹھ کر دیکھا تو نا ہی کپڑے اپنی جگہ پر پڑے تھے اور نہ ہو چائے میز پر موجود تھی۔ لیکن بہت عرصہ صرف ابا جی کے ساتھ رہنے کی وجہ سے اپنے کپڑے وغیرے کی جگہ کو صرف بیس منٹ ڈھونڈ کر کل والے کپڑے نکالے اور باتھ روم میں گھس گیا۔ نہانے کے بعد ٹیبل پر ناشتہ بھی نادارد تھا مگر میں کچھ بھی کہے بغیر آفس کے لیے نکل گیا۔اور وہاں پر کریم الدین کے ہاتھوں بنے ہوئے لنج منج سے رول کھا کر اللہ کا شکر ادا کیا۔

سوئے اتفاق آج پھر مس شاہدہ لیٹ ہو گئی تھیں۔ اور آج تو لفٹ کی آفر بھی مجھے نہیں کرنا پڑی بس نکلنے سے چند منٹ پہلے ہی انہوں نے انتہائی مہذب انداز میں لفٹ کی درخواست کی تھی۔

مس شاہدہ کو اس کے گھر کے گیٹ پر ڈراپ کیا تو اس نے اصرار کرنا شروع کر دیا کہ میں کم از کم اس کے گھر سے چائے ضرور پی کر جاؤں مگر میں نے اسے گھریلو مصروفیات کا بتا کر ایسا کرنے سے روک دیا۔ اور سیدھا گھر آیا۔

گھر پہنچا تو سب کچھ معمول کے مطابق لگ رہا تھا۔(جو کہ خاصی حیرت کی بات ھی۔)بس ابا جی اور بیگم مجھے عجیب سے نظروں سے گھور رہے تھے۔

"آج پھر بھوک نہیں ہو گی تمہیں۔ اس لیے میں نے بیٹی سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ تمہارے لیے کچھ نا بنائے۔" ابا جی نے بہت ہی چھبتے اور طنزیہ انداز میں کہا۔

تو میں ٹھٹک گیا کہ ضرور کوئی بات ہوئی خیر میں سوچتے ہوئے اپنے کمرے میں آ گیا۔ کہ آخر ہوا کیا ہے کل سے ویسے بھی کوئی بات میرے تحت الشعور پر بری طرح سے ہٹ کر رہی تھی کہ اچانک ہی مجھے یاد آیا کہ شاہدہ کو لفٹ دیتے ہوئے جو گاڑی میرے ساتھ اشارے پر رکی تھی وہ ابا جان کی ہی گاڑی تھی۔ لیکن اس وقت میں مس شاہدہ کے ساتھ باتوں میں ایسا مصروف تھا کہ میں نے زیادہ توجہ نہیں دی تھی۔

"اچھا تو مجھ پر شک کیا جا رہا ہے۔" میں نے بڑبڑاتے ہوئے کہا اور دل ہی دل میں ان لوگوں کی غلط فہمی ہر ہنستا ہوا انہیں مزید تنگ کرنے کا منصوبہ بنانے لگا۔

اب میں نے جان بوجھ کر تاخیر سے گھر آنا شروع کر دیا۔ بیگم نے اب مجھ سے بات کرنا بند کر دیا اور میرے گھر پہنچتے ہی اباجان منے کو اٹھا لیا کرتے تھے۔ دونوں میں سے کوئی بھی میرے ساتھ بات نہیں کرتا تھا۔ اور کھانا پینا تو آجکل میں نے ویسے ہی باہر کر لیا تھا۔ میں ان دوںوں کے چہرے دیکھتا تو مجھے بہت مزا آتا دل چاہتا تھا کہ ان کو تھوڑا اور ستاؤں آخر میری زندگی بھی تو انہوں نے وبال بنائی ہوئی تھی اب خود ہی اپنی ہی پیدا کردا پریشانی کو بھگت رہے ہیں۔
مگر جو دی آیکشن ان کی طرف سے آیا میں کم از کم اس کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ ہوایوں کے میں نے گھر کے گیٹ پر پہنچ کر حسب معمول بیل دی مگر گیٹ نہیں کھلا۔ میں گاڑی سے نیچے اترا اور دروازے کی بیل بجا دی۔ منور خان اپنی بڑی بڑی مونچھوں کے ساتھ نمودار ہو کر مجھے دیکھنے لگا۔

"خان صاحب۔ کیا آپ سونے کا شغل فرما رہے تھے۔ کہ ہارن دینے پر بھی دروازہ نہیں کھولا۔" میں نے انتہائی فدوینا انداز میں پوچھا۔ کیونکہ یہ خان صاحب بھی والد صاحب کی پسندیدہ ہستیوں میں شامل تھے۔

"بڑے صاحب نے کہا کہ آج سے آپ اس گھر میں نہیں گھس سکتے۔" خان صاحب نے بالکل ایسی نظر مجھ پر ڈالی جیسے وہ آرمی میں رہ کر ہندوستانی فوجیوں پر ڈالا کرتے تھے۔
"مگر کیوں۔ ۔ ۔ ۔ ؟"

میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
"میں نہیں جانتا صاحب۔ اب یہاں سے جاؤ مجھے بڑے صاحب کو جا کر بتانا بھی ہے کہ آپ آئے تھے۔" خانصاب نے نا صرف کہا بلکہ جلدی سے اندر گھس کر چھوٹا دروازہ بھی بند کر لیا۔ اور میرا ہی پینٹ کردہ گیٹ میرا منہ چڑھا رہا تھا۔

میں گاڑی میں بیٹھا اور سیدھا اپنے سدا بہار کنوارے دوست مستنصر مہنگا مسیح کےفلیٹ پر پہنچ گیا۔ اس کے دروازہ کھولتے ہی میں سیدھا اس کے کچن میں گھسا اور جو بھی ملا اٹھا کر میز پر لے آیا اور کھانے لگا۔ مستنصر میرے سامنے میز پر بیٹھا میرا منہ دیکھ رہا تھا۔ جب میں نے کھانا کھا لیا تو وہ میرے لیے پانی لے آیا۔
اور بولا "ہاں بتاؤ کس بات پر گھر سے لڑ کر آئے ہو۔"

"تمہارا اندازہ غلط ہے میں لڑ کر نہیں آیا بلکہ مجھے گھر سے نکال دیا گیا ہے" میں نے کہا اور اس کے ساتھ اسے اپنی پوری روئیداد سنا ڈالی۔

"جتنا میں تمہارے ابا جی کو جانتا ہوں۔ اب اپنے آپ کو بے گھر ہی سمجھو۔" پوری بات سن کر مستنصر ختمی لہجے میں بولا۔

"یار تم ان سے بات کرو کہ اور بتاؤ میں تو صرف مزاق کر رہا تھا۔" میں نے اپنی لہجے میں انتہائی لجاہت سمو کر کہا۔

اور وہ میری بات سے ایسے اچھل پڑا جیسے میں نے اسے شیر میں منہ میں ہاتھ ڈالنے کے لیے کہہ دیا ہو۔

"جتنی دیر یہاں رہنا ہے رہ سکتےہیں، کھانا، کپڑے میری ہر شئے استعمال کر سکتے ہو۔ مگر آج کے بعد دوبارہ تم مجھے یہ بات نہیں کہو گے۔ ورنہ ابھی اٹھو اور چلتے پھرتے نظر آؤ۔" مستنصر نے تیز تیز لہجے میں اپنی بات مکمل کی اور انگلی اٹھا کر دروازے کی طرح اشارہ بھی کر دیا۔
"اوکے۔میرے بھائی اوکے۔ نہیں کہوں گا۔ اب آرام سے بیٹھو۔ اور کوئی ترکیب بتاؤ کہ کیا کریں۔" میں نے کھڑے ہو کر اسے بازو سے پکڑ کر اپنے پاس بٹھاتے ہوئے کہا۔

"فون کرو، نہیں وہ تمہارا فون سنیں گے ہی نہیں، ایسا کرو، انہیں میسج کر دو۔" مستنصر نے کہنے پر میں نے اپنا موبائیل اٹھایا اور بیگم کے نمبر پر یہ لکھ کر میسج کر دیا کہ "کہ یہ کیا ہے۔ ابا جی نے مجھے گھر میں کیوں گھسنے نہیں دیا۔" ٹھیک پانچ منٹ بعد ابا جی کا فون آ گیا۔
"کیوں برخودار، جہاں سے کھانا کھا کر آتے ہو۔ وہاں رہنے کو جگہ نہیں ملی۔" اباجی نے بہت طنزیہ انداز میں کہا۔

"پر ابا جی اپنے گھر کے ہوتے میں ہوٹل میں کیوں رہوں۔" میں نے جواب دیا۔تو آگے سے پھنکارتی ہوئی آواز میں کہا گیا کہ
"میں جانتا ہوں جس ہوٹل سے تم روز کھانا کھا کر آتے تھے۔ بہت معصوم بن رہے ہو۔ مجھے اس لڑکی کا نام اور گھر کا پتہ بھی معلوم ہو گیا ہے۔ اور سنو کل سے آفس جانے کی زحمت بھی مت کرنا۔ وہاں سے تمہیں نکال دیا گیا ہے۔ "

"کس لڑکی کی بات کر رہے ہیں آپ۔ کیوں مجھ پر جھوٹے الزام لگائے جا رہے ہیں۔" میرا کہنا ہی تھا کہ دوسری طرف سے شعلے اگلے گئے۔"ہاں۔ اب اس لڑکی کے لیے باپ کو جھوٹا بھی کہو گے۔ "
"نہیں میرا کہنے کا یہ مقصد ہر گز نہیں تھا میں تو کہہ رہا تھا کہ اب کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔" میرا لہجہ بلکل ممنانے والا ہو گیا تھا۔


"واہ، واہ۔ جھوٹا تو کہہ دیا تھا اب بیوقوف بھی بنا دیا۔ وہ بیٹا ہو تو تم جیسا۔" کہنے کے ساتھ ہی سلسلہ منقطع ہو گیا۔ اور مستنصر جو ساتھ بیٹھا ساری بات سن رہا تھا نے بڑے ہی مغموم انداز میں میری طرف دیکھ کر کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگا میاں۔ میں تمہارے لیے صرف دعا ہی کر سکتا ہوں۔

کچھ ویسے ہی میری جان پر بن آئی تھی اوپر سے مستنصر کی بات سن کر بے اختیار کھڑکی کھول کر باہر کودنےکو جی چاہا۔ مگر میں کنڑول کر گیا اور سوچنے لگا کہ اگر اپنے اباجی کی بات ہوتی تو خیر کسی نہ کسی طریقے منا ہی لیتا مگر اب بات اپنی بیوی کے سگے سسر صاحب کو منانے کی ہے ۔ اور میرے اباجی کو تو اپنی بہو کے علاوہ اور کوئی نظر بھی نہیں آتا۔
آخر بہت سوچنے کے بعد یہی حال سامنے آیا کہ امریکن پالیسی آزمائی جائے اور اپنی بات منوانے کے لیے سعودی عرب یعنی اباجی کے قریبی دوست کرنل احمد صاحب سے مدد مانگی جائے۔اس خیال کے ساتھ جان میں جان آ گئی کیوں کہ محترم کرنل صاحب کی نظر میں' میں کافی شریف آدمی تھا۔اور وہ مجھے جینٹل مین کہہ کر پکارتے تھے۔

اگلے ہی روز میں سیدھا کرنل صاحب کے گھر پہنچا مگر میرے ستارے شاید سٹرایک پرتھے۔ کرنل صاحب کچھ دنوں کے لیے رہنے اپنی بیٹی کے پاس دوسرے شہر گئے ہوئے تھے۔ وہاں سے مایوس ہوکر واپس مستنصر کےفلیٹ پر ابھی پہنچا ہی تھا کہ آفس سے فون آ گیا کہ فوراً پہنچوں۔
آفس پہنچتے ہی جی۔ایم صاحب کے پاس حاضری کا آرڈر ہو گیا۔

"کل رات کو شیخ صاحب کے پاس تمہارے والد صاحب کا فون آیا تھا وہ کہہ رہے تھے کہ تمہیں نوکری سے فارغ کر دیا جائے۔ مگر میں نے شیخ صاحب کو اگلے آڈٹ کی توجیہہ دے کر تمہاری ٹرمینیشن فل الحال رکوا دی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ تمہارے کیا گھریلو مسائل ہیں۔ مگر مجھے دو ہفتے بعد ہونے والا آڈٹ میں ہر حال میں کامیاب چاہیے۔ اس لیے میں نے تمہارے ورکرز کی تعداد بھی بڑھا دی ہے۔ کل سے پروڈکشن ڈیپارٹمنٹ کے لیے نئے اپوائنٹ ہونے والے مسٹر ارشد اور مس شاہدہ تمہارے ساتھ کام کریں گئی۔ وہ نئے ہیں اس لیے ابھی تم ان دونوں کو آسانی سے ٹرینڈ کر سکتے ہو۔"

جی ایم صاحب کی ترش لہجے میں کی گئی یہ بات سن پر بے اختیار میرے چہرے پر مسکراہٹ اور میری مسکراہٹ کو دیکھ کر جی ایم صاحب کے ماتھے پر شکنیں آگئیں۔اور وہ سخت لہجے میں بولے۔

"کیا میں آپ کو جوک سنا رہا ہوں۔"

"سوری سر! انشااللہ میں آ پ کو مایوس نہیں کروں گا اور دو نئے اسسٹنٹ دینے کے لیے بہت بہت شکریہ۔" میں نے بمشکل قسمت کی اس ستم ظریفی کو ہضم کیا اور سنجیدہ چہرہ بنا کر جی۔ایم صاحب سے وداع لی اور اپنے آفس میں آ گیا۔

آفس میں آ کر دیکھا تو اپنےمیز کے بالکل سامنے لگے دو اور اکھٹے لگے ہوئے میز دیکھ کر اسکول کی یاد آ گئی۔ پیون سے پوچھنے پر یہ دماغ کس نے لڑایا ہے تو جواب ملا۔ "سر! میں نے تو بالکل عمومی طریقے سے میز سیٹ کیے تھے۔ مگر ارشد صاحب کا کہنا ہے کہ یہ بالکل ان پروفیشنل لگتا تھا اس لیے انہوں نے اپنی مرضی سے میز سیٹ کروائے ہیں۔"

"اچھا لیکن محترم اب کہاں ہیں۔اور مس شاہدہ بھی کیوں موجود نہیں ہیں۔"
"ارشد صاحب انہیں لے کر کارکنان سے ملانے لے کر گئے ہیں۔"پیون نے منہ بناتے ہوئے جواب دیا۔
"اچھا۔ ان دونوں کو بولو کے فوراً دفتر میں پہنچیں۔ اور شام کو جانے سے پہلے پھر سے سیٹنگ صحیح کر دینا۔" میں نے پیون کو کہا تواس کے چہرے پر خوشی چھا گئی۔ شاید ارشد اس کی سیٹنگ کو چلینج کر کے اس کی نظر میں برا آدمی بن چکا تھا۔

پیون کے جانے کے بعد میں اپنی سیٹ پر بیٹھااور سامنے پڑی فائل دیکھنے لگا۔ تقریبا دس منٹ بعد ارشد اور شاہدہ کی واپسی ہوئی۔ میں نے دونوں کو بیھٹنے کے لیے کہا۔ اور مختصر انداز میں ان دونوں کی جاب ڈیوٹیز بتائی اور تمام کارکنان کی فائل اسٹڈی کرنے کا مشورہ دیا۔

ان دونوں کے جانے کے بعد میں نے بیگم کے نمبر پر ایک اور مسیج کر دیا کہ "کم ازکم وجہ اس رویے کی وجہ تو بتائیں۔" فوراً ہی جواب آیا کہ"میں تمہاری کوئی بات نہیں سننا چاہتی اب جو بھی کریں گے ابا جی ہی کریں گے۔ لہذا اگر تمہیں کوئی بات کرنی ہے تو ان سے ہی کرو۔"

مسیج پڑھ کر میں نے سامنے دیکھا تو شاہدہ فائل کھول کر پڑھ رہی تھی۔ اور ارشد عجیب و غریب منہ بنائے فائل کے صفحات پلٹ رہا تھا۔ ہراک صفحہ پلٹنے کے بعد وہ ایک نظر شاہدہ کو ضرور دیکھتا تھا۔ میں چند منٹ تو یہ دیکھتا رہا پھر میں وہاں سے اٹھا جی۔ایم کو بتا کر سیدھا مستنصر کے فلیٹ پر آ گیا۔

یہاں پر عجیب ہی منظر نظر آ رہا تھا۔ مستنصر لاؤنج میں ایک صندوق کھولے پتہ نہیں کیا تلاش کر رہا تھا۔ میرے کمرے میں داخل ہونے پر اس نے ایک نظر دیکھ کر اپنی توجہ پھر صندوق کی طرف کر لی۔

"کیا کوئی خزانہ ڈھونڈ رہے ہو۔" میں نے پوچھا۔
تو جواب میں اس نے صوفے پر پڑا آئینہ اٹھا کر مجھے پکڑا دیا اور بولا۔ "اس کو غور سے دیکھو۔ " میں نے آئینہ ہاتھ میں لے کر کہا "کیا دیکھوں یار۔ بہت اچھا لگتا ہوں۔ تم جانتے ہی ہو۔" میں نے نا سمجھ آنے والے انداز میں کہا۔

"اندھے بھائی۔ اگر تم اپنے کپڑے نہیں دیکھ سکتے تو کم از کم منہ تو دیکھ لو۔ ایک دم فٹے منہ معلوم ہو رہا ہے۔" مستنصر نے بھنائے ہوئے انداز میں کہا۔

"مگر اس بات کا صندوق سے کیا تعلق۔" میں نے حیران ہو کر کہا۔

"دو سال پرانی شیونگ کٹ ڈھونڈ رہا تھا صندوق میں کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ شیخ صاحب کی کمپنی میں کام کر کر کے اب نائی کو شیو کے لیے پیسے دینا "گناہ" قرار دے چکے ہو۔" مستنصر کا لہجہ ہنوز بھنایا ہوا تھا۔

"دیکھو یار! جب اللہ نے ہاتھ پاؤں پورے دیے ہیں تو اپنا کام اگر خود کر کے پیسے بچا لیے جائیں تو ہرج ہے۔" میں نے صفائی دینے والے انداز میں کہا۔

"پتا ہے پاتا ہے۔ رہنے دو' یہ لو مل گئی کٹ جاؤ شیو بناؤ اور نہا بھی لینا۔ اور اپنا والٹ ادھر کرو۔ تمہارے آنے تک تمہارے لیے کپڑے بھی لے آتا ہوں۔ شکر ہے کہ میں کپڑے کا سائز تم سے مخلتف ہے۔" مستنصر نے نا صرف کہا بلکہ آگے بڑھ کر خود پرس نکالا اور بازار چلا گیا۔
اور میں سیدھا باتھ روم چلا گیا۔

اگلے روز میں تھوڑا تاخیر سے آفس پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ارشد مسلسل شاہدہ کا دماغ کھا رہا ہے اور وہ بیچاری کام پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ اور بار بار اسے بھی کام پر توجہ دلانے کی کوشش کر رہی ہے۔

میرا کمرے میں داخل ہونے پر دونوں خاموش ہو گئے اور ایسا تاثر دینے لگے جیسے پتہ نہیں کتنی توجہ سے کام ہو رہا تھا۔ میں نے دونوں کو باری باری اپنےمیز پر بلایا تاکہ ٹاسک کے متعلقہ جامع ہدایات دے سکوں۔ ابھی میں نے ارشد سے فارغ ہو کر شاہدہ کو بلایا ہی تھا کہ دروازہ کھلا اور ابا جان کی آمد ہو گئی۔

"اوہو۔ برخوادر بہت مصروف معلوم ہوتے ہو۔ " اباجی کی آواز سن کر میں جو مگن انداز میں شاہدہ کو سمجھا رہا تھا نے اوپر دیکھا اور میرے ہاتھوں کے طوطے ہلاک ہو کر گر گئے۔
ایک مرتبہ پھر اباجی نے ہم دونوں کو اکھٹا دیکھا تھا۔ اور اس وقت ان کا سرخ چہرہ بتا رہا تھا کہ شاید آج میری زندگی کا آخری دن ہے۔ اباجی آگے بڑے اور مجھے دیکھتے ہوئے بولے "تم آج گھر آؤ گے تمہارا فیصلہ تو میں وہیں کروں گا۔ "اسی وقت شاہد اندرداخل ہو ا تھا۔

ابا جی نے ایک نظر اس پر ڈالی اور شاہدہ کی طرف رُخ کر کے بولے۔" لڑکی یہ تو بیوقوف ہے مگر کیا تمہاری عقل اور حیاء بالکل ہی ختم ہو گئی ہے کہ اس جیسے شادی شدہ آدمی سے پینگیں بڑھا رہی ہو۔"

یہ سن کر دو منٹ کے لیے تو شاہدہ ایسے ہو گئی جیسے اسے سمجھ نہ آ رہی ہو کہ اس پر کیا الزام لگایا جا رہا ہے۔اور ارشد بھی حیرت سے بالکل گنگ سا نظر آنے لگا۔
اباجی کہ کر مڑے اور دروازے سے باہر نکلنے لگے میں ٹھیک اس وقت ارشد نے آگے بڑھ کر ان کا راستہ روک لیا اور بولا۔

"پلیز! اس بات کو میرے سامنے ہی کلیئر کیا جائے۔ میں مس شاہدہ کو بہت اچھی طرح سے جان چکا ہوں۔ اور میں کبھی بھی ان کے کردار کے بارے میں ایسی بات نہیں سن سکتا۔"
"تو پھر پوچھو اس سے یہ روز کس کے ساتھ گھر جاتی ہے اور روز کس کے ساتھ کھانا کھاتی ہے۔" ابا جی نے انتہائی غضیلے لہجے میں کہا۔

"اچھا! تو یہ بات ہے۔ ہاں میں دو دن زرا جلدی چلا گیا تھا اور ان دو دنوں میں سر نے انہیں ڈراپ کیا تھا۔ وگرنہ تو جس روز سے یہ اپائنٹ ہوئیں یا شیخ صاحب نے انہیں گھر چھوڑنے کے لیے میری ڈیوٹی لگائی ہوئی ہے۔" ارشد نے کہا تو اباجی کے چہرے پر بے یقینی کے تاثرات پھیل گئے۔ انہوں نے ارشد کا بازو پکڑا اور سیدھا انہیں لے کر شیخ صاحب کے دفتر لے گئے۔ اور وہاں سے تصدیق کرنے کے بعد ایک منٹ بھی رکے بغیر چلے گئے۔

اسی وقت ارشد نے کہا کہ شاہدہ کو اول روز سے پسند کرتا ہے اور اس سے شادی کرنے کا خواہشمند ہے اور جلد ہی اسے پرپوز کرنے والا تھا۔ اس کی بات سن کر شاہدہ ہکا بکا چہرے کے ساتھ وہاں سے چلی گئی۔اور اگلے ہی دن اس نے اپنا ریزائن بھیج دیا۔ شیخ صاحب نے سیدھا اباجی کو فون کر کے ساری بات بتا دی۔

اباجی اپنی بات پر انتہائی پشیمان تھے۔ وہ فوراً میری بیگم کو ساتھ لیے شاہدہ کے گھر پہنچ گئے۔ شاہدہ نے ان کو بہت عزت سے بٹھایا۔ ابا جی نے بات شروع کرتے ہوئے کہا کہ"بیٹا مجھ سے بہت بھول ہو گئی، میں نے تمہارے بارے میں بہت الٹا سیدھا بولا۔ میں غلطی درگزر کرنے کے قابل تو نہیں ہے مگر اپنا بزرگ سمجھ کر معاف کر دو۔" اباجی نے انتہائی شرمندگی سے شاہدہ سے معافی طلب کی۔ اتنی بات سن کر شاہدہ کے آنسو نکل پڑے ۔

"میں نے اپنی زندگی میں بہت مشکلات دیکھی ہیں چھوٹی تھی تو والد صاحب کا انتقال ہو گیا ماں نے ساری عمر انتہائی محنت کی مجھے پڑھایا اور میری شادی کر دی۔ لیکن میرے نصیب کی خوشیوں کی عمر کبھی بھی زیادہ نہیں رہی۔ یہ آپ کی غلطی نہیں بلکہ یہ میری ہی قسمت کی خرابی ہے۔" شاہدہ بے اختیار رو رہی تھی اور بیگم اسے دلاسا دینے اور چپ کروانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اور میں ایک سائیڈ پر شرمندگی سے بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا۔

"یہ سب میری غلطی ہے۔ مجھے محسوس ہو گیا تھا کہ آپ لوگ مجھ پر شک کر رہے ہیں مجھے پہلے ہی اپنی صفائی دے دینا چاہیے تھی مگر میری غلطی کی وجہ سے ایک پاکباز لڑکی پر اتنا سنگین الزام لگا ہے میں آپ سب سے بہت شرمندہ ہوں۔" میں نے کہا تو ابا جی اور بیگم دونوں کی نظریں میری طرف اٹھی ابا جی کی نظروں میں میرے لییے شدید غصہ نظر آ رہا تھا۔ مگر وہ مجھ سے اس وقت کچھ نہیں بولے اور شاہدہ کی طرف منہ کر کے بولے۔

"بہن پلیز ہمیں معاف کرو دو۔ " بیگم نے اپنے ہاتھوں میں اسے کے ہاتھ لیتے ہوئے آنسوؤں سے کہا تو شاہدہ نے بے اختیار اسے گلے سے لگا لیا۔ دونوں کے آنسو نکل رہے تھے۔ "میں آپ سے بالکل خفا نہیں ہوں۔"

"بیٹا! اگر خفا نہیں ہو تو پلیز اب مزید مت رونا اور اب سے اپنے آپ کو بالکل اکیلا مت سمجھنا۔ ہم آج سے تمہارے ہیں۔" اباجی نے کہا۔ کافی دیر وہاں بیٹھ کر شاہدہ سے معزرت کرتے رہے اور پھر گھر واپس آ گئے۔ گھر واپس آ کر اباجی اور بیگم دونوں مجھ سے بات نہیں کر رہے تھے۔
میرے بات بات معزرت کرنے پر اباجی بولے۔"تمہاری وجہ سے میں نے ایک مظلوم بچی کا دل توڑا ہے میں کبھی بھی اپنے آپ کو معاف نہیں کر پاؤں گا۔ اس وقت میری نظروں سے دفع ہو جاؤ۔"

جب کہ بیگم سے معافی طلب کرنے پر اس نے کہا۔"میں نے آپ پر شک کیا، میری غلطی تھی میں اس پر شرمندہ ہوں مگر جو حرکت آپ نے کی ہے۔ وہ میں کبھی بھی درگزر نہیں کر سکتی۔"
اس دن کے بعد سے میں ساری ساری رات جاگتا رہتا اور سگریٹ پر سگریٹ پھونکتا رہتا۔ مجھے خود سے نفرت محسوس ہو رہی تھی۔ اور آفس میں جب پریشان اور بے حال سے ارشد کو دیکھتا تو میری ٹینشن اور بڑھ جاتی۔ وہ مجھ سے کچھ نہیں کہتا تھا ہاں مگر سامنا ہونے پر عجیب سے نظروں سے دیکھتا تھا اور اس کی نظریں مجھے کافی دیر تک پشیمان رکھتی۔

میں زیادہ دیر تک یہ سب برداشت نہ کر سکا۔ اور میں نے ٹھان لیا جس جس کا میری طرف سے نقصان ہوا ہے۔ میں اسے پورا کروں گا۔اس لیے میں نے ارشد اور شاہدہ کو ایک ہوٹل میں بلایا۔ اور دونوں کو یہ ہی پتہ تھا کہ میں اکیلا بلا رہا ہوں۔

ارشد کی حالت دیکھ کر شاہدہ کی کسک میں اس کے چہرے پر محسوس کر سکتا تھا۔ میں نے دونوں کو سامنے بیٹھایا اور کہا۔"میں تم دونوں کا مجرم ہوں۔ اور میں جانتا ہوں کہ تم دونوں ایک دوسرے کو بہت پسند کرتے ہو۔ اگر تم دونوں نے مجھے معاف کر دیا ہے تو پلیز اپنے آپ کو سزا دینا چھوڑو اور شادی کر لو۔"

"لیکن ارشد صاحب اس لڑکی سے شادی کر لیں گے جن پر کسی غیر مرد سے تعلقات کا الزام لگایا گیا ہو۔" شاہدہ نے کہا۔

شاہدہ کی بات سن کر ارشد کا چہرے دکھ سے برا پڑ گیا۔اور وہ وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔
مگر میں نے ہمت نہیں مانی اور آخر کار دونوں کا منا ہی لیا۔ جب یہ بات اباجی کو پتہ چلی تو شادی کا تمام خرچہ انہوں نے اپنے سر لے لیا شاید اس طرح وہ اپنی غلطی کی تلافی کرنا چاہتے تھے۔اور بیگم نے بھی میری کوششوں اور پریشانی کو دیکھتے ہوئے مجھے معاف کر دیا۔

مگر اباجی کے ناراضگی میرے ساتھ ابھی بھی ایسی ہی تھی۔
شاہدہ کی شادی پر اباجی اور بیگم نے بہت جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا۔
رخصتی کے وقت اباجی کے ساتھ لگے ہوئے شاہدہ نے کہا کہ "پلیز سر کو معاف کر دیں۔ غلطی ساری ان کی نہیں بلکہ سب کی ہے۔ لیکن سب سے زیادہ سزا انہیں مل رہی ہے۔ پلیز انہیں معاف کر دیں"

اباجی نے ایک نظر پاس کھڑے مجھ پر ڈالی اور مجھے اپنے سینے سے لگا لیا۔ اور گویا ہوئے
"چھوٹی چھوٹی غلط فہمیاں ہمیں بہت بڑے بڑے نقصانات کی طرف دھکیل دیتی ہے یہ سبق مجھے آج ملا ہے۔ کبھی کبھی اس سبق کو مت بھولنا۔"

اسی وقت ارشد آگے آ گیا، خوشیاں اس کے چہرے سے پھوٹ رہی تھیں۔ اگے بڑھ کر شوخی سے بولا۔"کیا میری بیگم کے سارے آنسو آپ ہی ختم کر دیں گے ۔ تھوڑا مجھے بھی موقع ملنا چاہیے انہیں رلانے کا۔"

"ایک دفعہ کوشش کر کے دیکھنا اسے رولانے کی پھر اپنا انجام دیکھنا۔" اباجی نے مصنوعی غصے سے کہا۔

اور ارشد نے ان کے آگے ہاتھ جوڑ دیے۔ ارشد کی اس حرکت سے سب سے چہروں پر خوشی پھیل گئی۔

اور میں اپنے رب کا شکر ادا کرنے لگا کہ جس نے ایک چھوٹے سے مزاق سے بننے والی اتنی بڑی مشکل سے مجھ نہ صرف رہائی دی بلکہ اس مقدس رشتے کے پار لگانے میں میرا بھی کرادار رکھا۔



ختم شد

No comments:

Post a Comment