--------------------------------------------------------------------------------
تصور کی آنکھ سے ون اردو گوشہ خواتین
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ریاست ون اردو کے وسیع و عریض، خوبصورت عالیشان محل میں بڑے بڑے ہال کمرے ہوا کرتے تھے جہاں پر تمام بہن بھائی، ہنستے کھیلتے، شرارتیں کرتے، اور کبھی کبھی ایک دوسرے کے بال کھینچاتے پائے جاتے تھے۔ مگر یہ سب کچھ ادب اور تہیزیب کے دائرے میں رہتے ہوئے با تمیز ہو کر کیا جاتا تھا۔اور بعد میں سید جرار بھائی اپنے خوبصورت(اسمائیلی فل) انداز میں اس منظر نامے کی رپوٹنگ کیا کرتے۔ جو کہ آج بھی شاہکار کی صورت محفوظ ہیں۔
مگر حاکم وقت ٹیم بھائی کو پتہ نیں کیا سوجھی کہ ان ہالوں کے درمیان دیواریں کھینچ ڈالیں، اور محل کو چھوٹے چھوٹے گوشوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ جہاں داخل ہو نے کے اجازت نامہ درکار ہے۔ اور اجازت نامہ حاصل کرنے کے کچھ شرائط بھی عائد کر دی گئیں۔ لیکن تخلیل ایک ایسی چیز ہے کسی کی پرواز پر کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکتی اور وہ امریکہ کی طرح کہیں بھی گھس جاتا ہے۔
تو ملاحظ کیجئے کہ میرے تصور کی آنکھ نے گوشہ خواتین میں کیا کیا دیکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تخیل کے پروں پر سوار ہو کر جب میں گوشئہ خواتین میں اترا تو دیکھتا ہوں کہ اس گوشئے کی تمام دیواروں اور چھتوں کو گلابی رنگ سے پینٹ کر کے اور بڑے بڑے پھولوں سے سجایا گیا ہے۔ اور یہی رنگ گوشئے کے قالین کا بھی ہے۔
گوشئے کے ایک حصہ میں خوبصورت ایرانی قالین کے اوپر صوفے بچھا کر اور درمیان میں میز آراستہ کر کے گول کمرے ’ڈرائنگ روم‘‘ کی شکل دی گئی ہے۔ واحد نشستی صوفے پر کوثر بیگ آپاں بیٹھی ایک مذہبی کتاب کا مطالعہ کر رہی ہیں۔ اور پاس ہی بیٹھی رفعت آپاں سے اس پر تبادلہ خیال بھی کیے جاتی ہیں۔ جب کہ تہری نشست والی صوفے پر پاکیزہ دعا کمبل اوڑھے خوب خرگوش کے مزے لے رہی تھی۔ جب کہ میز کو ایک طرف سرکائے نورالعین ساحرہ آپاں کاغذوں کے پلندے میں الجھی ہالکان ہو رہی ہیں۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ان میں شاعری کون سی ہے افسانے کون سے ہیں ناولٹ کون سے ہیں اور آفس کے نوٹس کون سے ہیں۔ بیچاری حرف دعا مشکل سے اپنی مسکان دبائے اس منظر سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔
گول کمرے (ڈرائنگ روم) سے پیوستہ کمرہ تعلیم(اسٹڈی) ہے۔ جہاں پر آرام کرسی پر آمنہ آپاں آنکھیں بند کیے دراز ہیں۔ اور کمرے میں ٹینا ثانی کی آواز میں ’’دیار یار میں ’‘ چل رہا ہے۔اور ان کے عقب میں رائٹنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی کائنات آپاں تیزی سے لکھنے میں مصروف ہیں۔ اور ساتھ میں کبھی کبھی سر اٹھا کر ٹینا ثانی کو بھی داد دئیے جاتی ہیں۔ جب کہ سمارا آپاں اسٹڈی کی الماری سے اپنے پسندیدہ مشرقی و مغربی مفکریں کی کتابیں ڈھونڈنے میں اس طرح سے مصروف ہیں کہ بالکل شور نہ پیدا ہو۔
اسٹڈی کا عقبی دروازہ گوشہ خواتین کے خوبصورت باغیچے میں کھلتا ہے۔ یہاں کا منظر پہلے سے بالکل مختلف ہے سوبی اور روزبیہ نے ایک دوسرے کو بالوں سے پکڑا ہوا ہے اور بیچاری فجر ان دونوں کو چھڑانے کی کوشش میں خود مار کھائے جا رہی ہے۔ اور ساتھ میں آپاؤں کو مدد کے لیے پکار بھی رہی ہے۔ اچانک دروازے سے ہما جاوید آپاں نمودار ہوتی ہیں۔ اور وہ دونوں ایک دوسرے کے بال چھوڑ کر ہی ہی ہی کرتے ہوئے ایسا لگنے کی کوشش کرتی ہیں کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ لیکن پھر بھی تینوں کو ایک ایک زبرست چٹاخخخخخخ مل ہی جاتا ہے۔
جونہی آپاں فیملی کمرے میں موجود بڑوں کی جانب لوٹتی ہیں۔ اور لڑکیاں پھر سے شروع ہو جاتی ہے کہ میرے ’’جوڑا‘‘ زیادہ اچھا ہے اور صاف پتہ چلتا ہے کہ بات پھر وہی تک جائے گی۔
اندر فیملی روم میں تمام آپائیں براجمان ہیں۔ اور سب کے درمیان میں وش آپی کھڑی مزے مزے سے بتا رہی ہیں کہ کل انہوں نے کیسے حرم سس اور ماہم سس کے ساتھ مل کر احسان، فریدون، صبیح، اعجاز ، احمد اور دوسرے بھائیوں کا منہ کھٹا گیا۔(واہ کیا مبالغہ آمیزی کس جرات سے بیان کی جارہی تھی۔) اور دوسری بہنیں ان کے باتوں پر خوش ہو رہی ہیں۔ اور ساتھ ساتھ اس کارکردگی پر ان کی پیٹھ بھی تھپتھپا رہی ہیں۔ اس سے جھوٹ سننے سے میرے کانوں نے انکار کر دیا اور تصور مجھے اٹھا کر حقیقت کی دنیا میں لے آیا۔
(سحر آزاد)
سیرئس لوگوں سے ایک بار پھر سے معذرت
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment