Sunday, June 26, 2011

پنیری

پنیری (فالتویات)
(سحر آزاد)
بال سے باریک اور تلوار سے تیز دھار والے راستے کی مثال عموماً مولوی حضرات اسلام اور شریعت کے بارے میں دیتے پائے جاتے ہیں جو کہ سراسر ان کی کم عقلی کی دلیل ہے لیکن یہ مثال ایک اور جگہ بالکل درست فٹ ہوتی ہے اور وہ ہے منی بس کا سفر۔


ویسے تو پنجاب کے ٹرانسپورٹ سسٹم میں لگثری بسوں اور کوچز کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن ان سب کے باوجود ٹرانسپورٹ کا زیادہ تر انحصار پتلے سے ٹن کی بنی انہیں زنگ آلود بسوں پر ہے۔ جو نہ صرف جیٹ انجن کی آوازیں نکلاتی ہیں بلکہ حد رفتار میں بھی خود کو جیٹ انجن کا حامل سمجھتی ہیں اس لیے ان بسوں کے نام میں طیارہ کا لفظ لازمی استعمال کی جاتا ہے۔ لیکن اس کو پائلٹ نہیں نصیبو لال کے گانوں پر ڈرائیور ہی ’جھوماتے‘ ہیں۔ شہروں اور مرکزی سڑکوں کی تخصیص کیے بغیر یہ بسیں پنجابی فلموں کی ہیروئن کی طرح نان اسٹاپ ٹھمکے لگاتی پائی جاتی ہیں۔


’’انسان بہت ناشکرا ہے’’ اس امر کی مثال منی بس سے زائد مربوط و مضبوط اور کہیں سے پیش نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ اپنے منتظر مسافروں کو دور سے اس کی آواز یہ دعا کرنے پر مجبورکر دیتی ہے کہ بس اس کے اسٹاپ پر رک جائے۔ اس کی دعا قبول ہوتی ہے اور بس رک جاتی ہے تو اس کی یہ دعا ہے کہ بس میں اسے سوار کر لیا جائے۔ جب اس کی یہ دعا بھی قبول ہوتی ہے تو وہ مزید اللہ سے گزارش کرتا ہے کہ کاش اسے اس بس میں بیٹھنے کے لیے سیٹ بھی مل جائے۔ سیٹ کی دستیابی پر اس کی دعا ہوتی ہے کہ اس کو ونڈو سیٹ مل جائے۔ اور اگر ونڈو سیٹ مل جائے تو وہ بس کے اپنے اسٹاپ تک نان اسٹاپ پہنچنے کی دعائیں شروع کر دیتا ہے اور جب وہ بس اسے اپنے اسٹاپ پر اتار دیتی ہے تو وہ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر اس بس کی برائیاں لکھتا ہے اور اپنے دوستوں کے ساتھ شئیر کرتا ہے واقعی ’’انسان بہت ناشکرا ہے۔‘‘


ایک منی بس میں عموماً 45 کے قریب پسنجر سیٹیں ہوتی ہیں اور ان میں سے صرف دس پندہ سیٹیں ہی کھڑکیوں کے قریب بنائی جاتی ہیں۔ کسی بھی منی بس میں سب سے پہلے یہ والی سیٹ ہی فل ہوتی ہیں اور ایسا صرف اس لیے ہوتا ہے کہ کوئی بھی خود کو بس کے اندر محسوس نہیں کرنا چاہتا بلکہ بس سے باہر کے خوبصورت مناظر میں اس وقت تک کھو جانا چاہتا ہے جب کہ اس کا اسٹاپ نہ آ جائے۔ پنجاب میں آپ کسی بھی شہر کی کسی بھی سڑک سے گزر رہے ہیں آپ کو دو چیزیں ضرور نظر آئیں گی ایک کھلے میدان اور دوسرا لہلاتے ہوئے کھیت۔


سبز لہلاتے ہوئے کھیت پنجاب کی پہچان بھی ہیں اور اس کا فخر بھی ہیں۔ سینکڑوں ہزاروں میل قطعہ اراضی پر پھیلے حد نظر تک نظر آتے خوبصورت لہلاتے کھیت۔ کٹائی کا سیزن ہو تو یہ نظارا سبزے کی چادر اتار کر سنہری چادر اورٹھ لیتا ہے۔ ایک طرف سروں پر ’’ڈھاٹے‘‘ باندھے کسان اپنے بیوی، بچوں اور مزدوروں کے ساتھ ہاتھوں میں بڑی بڑی درانتیاں پکڑے اپنے جانوروں کے لیے بھوسہ ’’سکیور‘‘ کرتا نظر آتا ہے تو دوسری طرف ایک دیو پیکر مشینی جن اپنے راستے میں آنے والے تمام فصل کو نگلتے ہوئے اپنے پیٹ میں ’’سٹور‘‘ کرتے پایا جاتا ہے۔ وہ حصہ جس کو کسان سب سے پہلے سنہری چادر سے آزاد کرتا ہے اس کے کناروں کو مٹی سے بلند کر کے اس میں فصل سے حاصل پھل کا کچھ حصہ بکھیر کر اسے مناسب پانی سے سیراب کر دیتا ہے۔


کچھ ہی دنوں میں بقیہ تمام زمین کے وجود سے سنہری چادر اتار کر اسے پھر سے برہنہ کر کے اس کے سینے کو فولادی ناخنوں سے ’’کھرچ‘‘ ڈالا جاتا ہے۔ کنارے بلند کرکے قطعہ در قطعہ اس کھیت میں ٹیوب ویل چلا کر یا نہروں سے ’’موہگا‘‘ کے زریعے پانی لے کر اس میں بھرنا شروع کر دیا جاتا ہے۔


جتنے دن تک کٹائی ہونے، کھیت بنانے اور پانی بھرنے کا عمل جاری رہتا ہے اتنے دنوں میں کھیت کے ابتدائی کنارے جہاں پر کسان نے پھل بکھیر کر اسے پانی سے سیراب کیا ہوتا ہے وہاں پر زمین کا سینہ پھاڑ کر ننھی ننھی سبز کونپلیں سر نکال چکی ہوتی ہیں۔ پانی بھرنے کے بعد کیچڑ بنے کھیتوں کو ’’سوہاگے‘‘ کی مدد سے جتنی دیر میں لیول کیا جاتا ہے اتنی دیر میں یہ کونپلیں پانچ سے چھ انچ تک بڑھ چکی ہوتی ہیں۔ یعنی اس قدر تیار ہو چکی ہوتی ہیں کہ انہیں انتہائی نگہداشت کی بجائے کھلے کھیت کی سردی و گرمی میں دوسرے سے علیحدہ، دور، اکیلا رکھا جا سکتا ہے۔ تو انہیں اکھاڑ کر بڑے بڑے ’’جٹھوں‘‘ میں باندھ دیا جاتا ہے۔ اور اسے پنیری کہتے ہیں۔ پنیری سے ایک ایک پودا نکال کر ہاتھوں سے زمین میں بویا جاتا ہے جو کہ ایک بیچ کا کئی گنا پھل دیتا ہے۔


پنیری کے متعلق تمام کسان ایک بات بہت خوبی سے جانتے ہیں کہ جتنی اچھی پنیری ہو گی اتنی کم فصل پر محنت کرنا پڑے گی۔ اگر پنیری میں طفیلی (پیراسائٹ) جڑی بوٹیاں اور ان کے بیج اپنی جگہ بنا چکے ہیں تو فصل اچھی نہیں ہو گی۔اگر پنیری صاف تو فصل صاف اور کوالٹی اعلیٰ۔ اس لیےکسان اپنی پنیری کی نگہداشت بہت لگن اور محنت سے کرتا ہے اور اختتام میں اس کا پھل پاتا ہے۔


ٹھیک اسی طرح ہماری اولاد بھی اس کی زندگی کے ابتدائی سالوں میں ہماری پنیری کی طرح ہوتی ہے اور یہ ہماری زمہ داری ہوتی ہے کہ ہم ابتدائی سالوں میں ہی اس کے اندر سے لالچ، فریب، حسد، بے حیائی، بے ایمانی اور جھوٹ کے طفیلی بیجوں کو قرآن کی ’’گوڈی‘‘ سے نکال اور فرقوں (مولوی) سے دوری کی ’’کھاد‘‘ سے اس کے بیجوں کو ہی تلف کر دیں۔ اور سنت کی طاقتور دوائی سے اسے نام نہاد ادیبوں کے لکھے شر’ شاعروں کے کہے شر‘ فلم و ٹی وی کے دکھائے شر اور معاشرے میں رائج شر سے بچائے رکھے تو ہماری ایسی اولاد ہمارے لیے اچھی فصل اور صدقہ جاریہ بنے گی۔ اور معاشرے میں تن تنہا ہماری زیادہ نگہداشت کے بغیر بھی ایمان سے سروائیو کرے گی۔


اپنی پنیری اپنی اولاد کو اس دور سے بچائیے یہ آپ کا کوئی احسان نہیں آپ کی زمہ داری ہے۔

No comments:

Post a Comment