سوال آنکھیں
لیلیٰ و سوہنی سی کمال آنکھیں
چمکتی دھب سی جمال آنکھیں
جوگی ھیر سناتا جائے
سُپنے خوب دکھاتا جائے
دلفریب جوت جگاتا جائے
جال اپنے میں پھنساتا جائے
وہ سرخ و سوجھی قطرہ قطرہ
پگھلی پگھلی سیال آنکھیں
حیا کی پتلی ’لیر‘ ہٹا دی
رانجھے کی تصویر سجا دی
دل کی اختیاری جاگیر گنوا دی
جندڑی اس دی عذاب بنا دی
موت کا سناٹا اور خاموشی
وہ بے نور سی پاتال آنکھیں
پور پور چھالے اگتے ہیں
روح کے پردے زخم بنتے ہیں
زرے زرے دوہائی دیتے ہیں
تنہائی میں رانجھاوھیر ملتے ہیں
درد، کرب یا حسرت زیادہ
الجھی الجھی سوال آنکھیں
قاضی کس کو ملزم ٹھرائے؟
ھیر جو دل کی جوت جگائے؟
رانجھا ہوس کی بھوک مٹائے؟
یا جوگی جو ھیر سنائے؟
Sunday, July 3, 2011
بے مہر تغیر
بے مہر تغیر
خیال کی جیب سے چوری نقشہ کریں
تصور کی دنیا کے راہی بنیں
یادوں سے تھیلا اپنا بھریں
نوری راہ گزر چنیں
تمہیں سنگ لیں
چاند پر چلیں
کوئی افسانہ ہو
نہ کوئی کہانی ہو
نہ ہی کوئی پریشانی ہو
خاموشی کا گروندہ بنا کر
ارض مردار کی سیاحت کریں
اپنے ہاتھوں سے اس کےگڑے بھریں
کمر باندھ کر اس پر جھاڑو لگائیں
سارے داغ دھبوں سے پاک کریں
چرخہ کاتتی بڑھیا سے ملیں
کبھی تھک کر زندگی
رک جائے اگر
خوب
تیل لگا کر
سرکی مالش کریں
جونیند غالب آنے لگے
اورغنودگی جب چھانے لگے
چاندنی اوڑھ لیں استراحت کریں
خیال کی جیب سے چوری نقشہ کریں
تصور کی دنیا کے راہی بنیں
یادوں سے تھیلا اپنا بھریں
نوری راہ گزر چنیں
تمہیں سنگ لیں
چاند پر چلیں
کوئی افسانہ ہو
نہ کوئی کہانی ہو
نہ ہی کوئی پریشانی ہو
خاموشی کا گروندہ بنا کر
ارض مردار کی سیاحت کریں
اپنے ہاتھوں سے اس کےگڑے بھریں
کمر باندھ کر اس پر جھاڑو لگائیں
سارے داغ دھبوں سے پاک کریں
چرخہ کاتتی بڑھیا سے ملیں
کبھی تھک کر زندگی
رک جائے اگر
خوب
تیل لگا کر
سرکی مالش کریں
جونیند غالب آنے لگے
اورغنودگی جب چھانے لگے
چاندنی اوڑھ لیں استراحت کریں
بوندوں کو برسنے دو
بوندوں کو برسنے دو
بوندوں کو برسنے دو
میرے خواب بھیگ جانے دو
مجھے افق کے پار جانا ہے
مجھے اپنے پر پھیلانے دو
بانہیں پھیلائے فضا میں دوڑیں لگاؤں
پائنچے بچا کر ستارے پھلانگوں
چاند پر رسی کا جھولا ڈالوں
مشرق سے مغرب اسے جھولاؤں
بادلوں کو اپنا تکیہ بنا لوں
تفکرات سے اپنا پیھچا چھڑا لوں
خوشیوں کا کوئی گیت گنگنا لوں
آسمانوں میں اپنا گھر میں بسا لوں
بوندوں کو برسنے دو
میرے خواب بھیگ جانے دو
مجھے افق کے پار جانا ہے
مجھے اپنے پر پھیلانے دو
ہو میرا مسکن سب سے اونچے شجر پر
ہو میرا مکتب سب سے مشکل حجر پر
ہو میرا سفینہ سب سے گہرے بحر پر
ہو میرا جینا سب سے سچے ڈگر پر
میں چاہتیں لٹا دوں گا
میں ریاضتیں بھلا دوں گا
نئی کہانیاں بنا دوں گا
میں کشتیاں جلا دوں گا
بوندوں کو برسنے دو
میرے خواب بھیگ جانے دو
مجھے افق کے پار جانا ہے
مجھے اپنے پر پھیلانے دو
راکھ بھی فصلوں کے کام آتی ہے
دھوئیں سے تصویر شکل پاتی ہے
عقل جب کبھی نکمی شئے بتاتی ہے
نظر کے سامنے تیری صورت آ جاتی ہے
اب تو باتیں بنانا چھوڑ دے
حلق پھاڑ نعرے لگانا چھوڑ دے
دقیق گمراہی پھیلانا چھوڑ دے
شیطانی نفرت بڑھانا چھوڑ دے
بوندوں کو برسنے دو
میرے خواب بھیگ جانے دو
مجھے افق کے پار جانا ہے
مجھے اپنے پر پھیلانے دو
بوندوں کو برسنے دو
میرے خواب بھیگ جانے دو
مجھے افق کے پار جانا ہے
مجھے اپنے پر پھیلانے دو
بانہیں پھیلائے فضا میں دوڑیں لگاؤں
پائنچے بچا کر ستارے پھلانگوں
چاند پر رسی کا جھولا ڈالوں
مشرق سے مغرب اسے جھولاؤں
بادلوں کو اپنا تکیہ بنا لوں
تفکرات سے اپنا پیھچا چھڑا لوں
خوشیوں کا کوئی گیت گنگنا لوں
آسمانوں میں اپنا گھر میں بسا لوں
بوندوں کو برسنے دو
میرے خواب بھیگ جانے دو
مجھے افق کے پار جانا ہے
مجھے اپنے پر پھیلانے دو
ہو میرا مسکن سب سے اونچے شجر پر
ہو میرا مکتب سب سے مشکل حجر پر
ہو میرا سفینہ سب سے گہرے بحر پر
ہو میرا جینا سب سے سچے ڈگر پر
میں چاہتیں لٹا دوں گا
میں ریاضتیں بھلا دوں گا
نئی کہانیاں بنا دوں گا
میں کشتیاں جلا دوں گا
بوندوں کو برسنے دو
میرے خواب بھیگ جانے دو
مجھے افق کے پار جانا ہے
مجھے اپنے پر پھیلانے دو
راکھ بھی فصلوں کے کام آتی ہے
دھوئیں سے تصویر شکل پاتی ہے
عقل جب کبھی نکمی شئے بتاتی ہے
نظر کے سامنے تیری صورت آ جاتی ہے
اب تو باتیں بنانا چھوڑ دے
حلق پھاڑ نعرے لگانا چھوڑ دے
دقیق گمراہی پھیلانا چھوڑ دے
شیطانی نفرت بڑھانا چھوڑ دے
بوندوں کو برسنے دو
میرے خواب بھیگ جانے دو
مجھے افق کے پار جانا ہے
مجھے اپنے پر پھیلانے دو
نفس کی زور آوری ہے
نفس کی زور آوری ہے
صبر کا بند کمزور سا
دروازے کے باہر بلائیں ہیں
اور زندگی ہے شور سا
پسند‘ کا لبادہ اوڑھ کر
نفس حاوی ہو رہا ہے
غیرت و حیا کی ریت پر
قفس حاوی ہو رہا ہے
حقیقت سے ناتہ توڑ کر
عکس حاوی ہو رہا ہے
دم میرا ہے گھٹ رہا
حبس حاوی ہو رہا ہے
نفس کی زور آوری ہے
صبر کا بند کمزور سا
دروازے کے باہر بلائیں ہیں
اور زندگی ہے شور سا
کل جس کو سراب کہتے تھے
آج ایک ٹھوس حقیقت ہے
کل تک جو راحت عام تھی
آج رائج الوقت مصیبت ہے
کل تک جو طلب چاہت تھی
آج وہ ہی سامان عزیت ہے
کل فخر زن تھا پردہ بدن
آج تن سجائی رفاقت ہے
نفس کی زور آوری ہے
صبر کا بند کمزور سا
دروازے کے باہر بلائیں ہیں
اور زندگی ہے شور سا
اظہار کے طریق کو
زنجیر کر کے دیکھ لو
دست آزاد کا سارا پانی
تبخیر کر کے دیکھ لو
ظلم کی کوئی بھی اور
تدبیر کر کے دیکھو لو
ابر رحمت برسے گی
تصویر کر کے دیکھ لو
نفس کی زور آوری ہے
صبر کا بند کمزور سا
دروازے کے باہر بلائیں ہیں
اور زندگی ہے شور سا
صبر کا بند کمزور سا
دروازے کے باہر بلائیں ہیں
اور زندگی ہے شور سا
پسند‘ کا لبادہ اوڑھ کر
نفس حاوی ہو رہا ہے
غیرت و حیا کی ریت پر
قفس حاوی ہو رہا ہے
حقیقت سے ناتہ توڑ کر
عکس حاوی ہو رہا ہے
دم میرا ہے گھٹ رہا
حبس حاوی ہو رہا ہے
نفس کی زور آوری ہے
صبر کا بند کمزور سا
دروازے کے باہر بلائیں ہیں
اور زندگی ہے شور سا
کل جس کو سراب کہتے تھے
آج ایک ٹھوس حقیقت ہے
کل تک جو راحت عام تھی
آج رائج الوقت مصیبت ہے
کل تک جو طلب چاہت تھی
آج وہ ہی سامان عزیت ہے
کل فخر زن تھا پردہ بدن
آج تن سجائی رفاقت ہے
نفس کی زور آوری ہے
صبر کا بند کمزور سا
دروازے کے باہر بلائیں ہیں
اور زندگی ہے شور سا
اظہار کے طریق کو
زنجیر کر کے دیکھ لو
دست آزاد کا سارا پانی
تبخیر کر کے دیکھ لو
ظلم کی کوئی بھی اور
تدبیر کر کے دیکھو لو
ابر رحمت برسے گی
تصویر کر کے دیکھ لو
نفس کی زور آوری ہے
صبر کا بند کمزور سا
دروازے کے باہر بلائیں ہیں
اور زندگی ہے شور سا
نفس کی زور آوری ہے
نفس کی زور آوری ہے
صبر کا بند کمزور سا
دروازے کے باہر بلائیں ہیں
اور زندگی ہے شور سا
پسند‘ کا لبادہ اوڑھ کر
نفس حاوی ہو رہا ہے
غیرت و حیا کی ریت پر
قفس حاوی ہو رہا ہے
حقیقت سے ناتہ توڑ کر
عکس حاوی ہو رہا ہے
دم میرا ہے گھٹ رہا
حبس حاوی ہو رہا ہے
نفس کی زور آوری ہے
صبر کا بند کمزور سا
دروازے کے باہر بلائیں ہیں
اور زندگی ہے شور سا
کل جس کو سراب کہتے تھے
آج ایک ٹھوس حقیقت ہے
کل تک جو راحت عام تھی
آج رائج الوقت مصیبت ہے
کل تک جو طلب چاہت تھی
آج وہ ہی سامان عزیت ہے
کل فخر زن تھا پردہ بدن
آج تن سجائی رفاقت ہے
نفس کی زور آوری ہے
صبر کا بند کمزور سا
دروازے کے باہر بلائیں ہیں
اور زندگی ہے شور سا
اظہار کے طریق کو
زنجیر کر کے دیکھ لو
دست آزاد کا سارا پانی
تبخیر کر کے دیکھ لو
ظلم کی کوئی بھی اور
تدبیر کر کے دیکھو لو
ابر رحمت برسے گی
تصویر کر کے دیکھ لو
نفس کی زور آوری ہے
صبر کا بند کمزور سا
دروازے کے باہر بلائیں ہیں
اور زندگی ہے شور سا
صبر کا بند کمزور سا
دروازے کے باہر بلائیں ہیں
اور زندگی ہے شور سا
پسند‘ کا لبادہ اوڑھ کر
نفس حاوی ہو رہا ہے
غیرت و حیا کی ریت پر
قفس حاوی ہو رہا ہے
حقیقت سے ناتہ توڑ کر
عکس حاوی ہو رہا ہے
دم میرا ہے گھٹ رہا
حبس حاوی ہو رہا ہے
نفس کی زور آوری ہے
صبر کا بند کمزور سا
دروازے کے باہر بلائیں ہیں
اور زندگی ہے شور سا
کل جس کو سراب کہتے تھے
آج ایک ٹھوس حقیقت ہے
کل تک جو راحت عام تھی
آج رائج الوقت مصیبت ہے
کل تک جو طلب چاہت تھی
آج وہ ہی سامان عزیت ہے
کل فخر زن تھا پردہ بدن
آج تن سجائی رفاقت ہے
نفس کی زور آوری ہے
صبر کا بند کمزور سا
دروازے کے باہر بلائیں ہیں
اور زندگی ہے شور سا
اظہار کے طریق کو
زنجیر کر کے دیکھ لو
دست آزاد کا سارا پانی
تبخیر کر کے دیکھ لو
ظلم کی کوئی بھی اور
تدبیر کر کے دیکھو لو
ابر رحمت برسے گی
تصویر کر کے دیکھ لو
نفس کی زور آوری ہے
صبر کا بند کمزور سا
دروازے کے باہر بلائیں ہیں
اور زندگی ہے شور سا
کچھ نرم پاء گزرتے ہیں
کچھ نرم پاء گزرتے ہیں
کچھ خار خار چلتے ہیں
سفرعمر بھر کا رہتا ہے
مسافر اجنبی ہی رہتے ہیں
روٹی، خیمہ اور لباس بدن
تلاش ہر وقت رکھتے ہیں
سراب، چمک، رنگ و بو
دھوکے ہر قدم پہ ملتے ہیں
شکنجوں میں جو پھنس گئے
تاریکیوں میں گرتے ہیں
جواللہ کے در پر جھکیں
بہترین کامیابیاں پاتے ہیں
سحر یہ حساب عجب رہا
سب تیرے گناہ نکلتے ہیں
(سحر آزاد)
کچھ خار خار چلتے ہیں
سفرعمر بھر کا رہتا ہے
مسافر اجنبی ہی رہتے ہیں
روٹی، خیمہ اور لباس بدن
تلاش ہر وقت رکھتے ہیں
سراب، چمک، رنگ و بو
دھوکے ہر قدم پہ ملتے ہیں
شکنجوں میں جو پھنس گئے
تاریکیوں میں گرتے ہیں
جواللہ کے در پر جھکیں
بہترین کامیابیاں پاتے ہیں
سحر یہ حساب عجب رہا
سب تیرے گناہ نکلتے ہیں
(سحر آزاد)
Tuesday, June 28, 2011
الفاظ لازم پلٹتے ہیں۔
یہ دنیا ہے یہاں مختلف لوگ ملتے ہیں
کچھ اپنے کچھ بیگانے سے لگتے ہیں
دشت، بیابان، سنگلاخ راہوں میں ڈھونڈا
منزل دکھانے والے ناخدا کہاں رہتے ہیں
خواب ہے حقیقت ہے عجب منظر ہے
آنکھوں پہ پٹیاں قطاروں میں چلتے ہیں
دل میں کچھ‘ زبان پہ کچھ اور رہتا ہے
بعض شخص بڑی مشکل سے کھلتے ہیں
الفاظ کا استعمال زرا احتیاط سے کرو
ہمیشہ یاد رکھنا سحر یہ لازم پلٹتے ہیں
(سحر آزاد)
کچھ اپنے کچھ بیگانے سے لگتے ہیں
دشت، بیابان، سنگلاخ راہوں میں ڈھونڈا
منزل دکھانے والے ناخدا کہاں رہتے ہیں
خواب ہے حقیقت ہے عجب منظر ہے
آنکھوں پہ پٹیاں قطاروں میں چلتے ہیں
دل میں کچھ‘ زبان پہ کچھ اور رہتا ہے
بعض شخص بڑی مشکل سے کھلتے ہیں
الفاظ کا استعمال زرا احتیاط سے کرو
ہمیشہ یاد رکھنا سحر یہ لازم پلٹتے ہیں
(سحر آزاد)
Subscribe to:
Posts (Atom)