جوں جوں جنگل میں الیکشن کے دن قریب آ رہے تھے اور تمام لیڈر جانور زیادہ تر باتھ روم میں گھسے اپنے دانتوں سے خون کے داغ صاف کرتے نظر آتے۔ اور بار بار اپنے نوکیلے دانوں کے لیے بنائے گئے سیاہ خول کو آزمایا جا رہا تھا کہ کہیں بھرے جلسے میں اتر کر لوگوں کو ان کی خوفناک شکل دکھائی نہ دے جائے۔اور دوستوں سے مشورے بھی ہو رہے تھے کہ کیسے دشمن لیڈر جانور کے دانتوں پر چڑھا خول گرا کر اس کی خوفناک صورت کو دوسرے کے سامنے لایا جاسکے۔اور اس سوچ میں غرق بھیڑیا یہ سوچ رہا تھا کہ کیسے برسر اقتدار ریچھ کے ساتھ اپنے اقتدار کا باقی وقت بھی پورا کرے۔ اور آئندہ اقتدار میں اپنا حصہ بھی بنایا جا سکے۔ وہ ریچھ کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ریچھ نے پھر صوبایت کا نعرہ لگا کر اقتدار میں ایک بڑھا حصہ حاصل کر لینا ہے اور لومڑوں نے تو اپنا اتحاد بنا کر پہلے ہی اپنے لیے اقتدار میں جگہ مخصوص کر لی تھی۔ اور بوڑھے گدھ سے بھی یہی امید تھی کہ وہ مذہب کا جھنڈا اٹھا کر پھر سے اپنی سیٹیں لے جائے گا۔ اور لگڑ بھگا تو ہمیشہ ہی ’میرے ہم زبان مظلوم‘ کا نعرہ لگا کر ہر بار کی طرح اس بار بھی اقتدار میں اپنی جگہ پکی کر لے گا تو آخر بھیڑے کے پاس کونسا تیر بچ جاتا ہے۔آخر اس کے دماغ میں ایک خیال آیا اور اسے بے اختیار خوش کر گیا۔ؔ’’مجھے ان سب لوگوں کے عذر ہی استعمال کرنے ہیں‘‘ اپنے خیال کو عملی شکل دینے کے لیے بھیڑے نے تمام جانوروں کو اکھٹا کر کے ایک جلسہ منعقد کیا جس میں تمام جانوروں کو بلایا گیا۔ ریچھ ، لومڑ، گدھ اور لگڑ بھگا بھی بھیڑے کے جلسے کی سن گن لینے وہاں خفیہ طور پر پہنچ گئے۔ بھیڑیے نے اپنی تقریر شروع کرتے ہی لگڑ بھگے کی برائیاں کرنا شروع کر دی۔ اس پر لگڑ بھگے کو غصہ آگیااور وہ بھی سامنے آ کر نا صرف بھیڑے بلکہ دوسرے لیڈر جانوروں کی برائیاں کرنے لگا۔ہجوم میں سب سے بڑا جھنڈ گدھوں کا تھا۔ توبھیڑیے کے کہنے پر سرمئی رنگ والے سارے گدھے اس کے پیچھے کھڑے ہو کر اس کی حمایت میں نعرے لگانے لگے۔ جب کہ سرمئی مائل براؤن رنگ والے بھی اپنے رنگ کی مناسبت سے ریچھ کے پیچھے جا کھڑے ہوئے۔ اپنی زبان کو بہترین سمجھے والے گدھے زبان کا نعرہ لگانے والے لگڑبھگے کے پیچھے جا کھڑے ہوئے۔جب کہ جذباتی گدھے ان ساری چیزوں سے بے نیاز مذہب کا جھنڈہ اٹھائے گدھے کی حمایت میں جا کھڑے ہوئے۔ ہجموم میں سے تمام گدھے کسی نہ کسی چال میں آ ہی گئے تھے۔ لومڑیوں نے ہمیشہ کی طرح اپنے ووٹ بیچنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ جب کہ برادری دار جانور اپنی برادر ی کے جانور کو ووٹ جانے کا سوچ چکے تھے۔
اور معصوم بھیڑوں کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا اس لیے وہ بیچاری سوچ میں ڈوبی اپنے غولوں میں لوٹ گئیں۔
۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔
یہ جنگل کا ایک تاریک کونا ہے جہاں پر ایک دائرے میں کچھ شدید زخمی گدھوں اور بھیڑوں کے ساتھ چند دوسرے زخمی جانوربھی پڑے ہوئے تھے۔ جب کہ ان کے زخموں پر کچھ درندے منہ لگائے ان کا خون پی رہے تھے۔ ایک آہٹ سی ہونے پر سب درندوں کے اپنے منہ اٹھایا ’’ارے یہ تو زخمی جانوروں کے لیڈران تھے جن کے نوکیلے دانتوں سے خول اتار چکے تھے اور اب ان کے خوفناک دانت اور منہ خون سے رنگے ہوئے تھے۔
دراصل الیکشن کے نتائج حسب توقع آئے تھے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اس بار ریچھ کی جگہ بھیڑے نے لے لی تھی۔ باقی سب کچھ معمولی سی تبدیلی کے ساتھ پہلے جیسا ہی تھا۔ جس پر بھیڑے نے سب کو شکار کی دعوت دی ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment