Sunday, June 26, 2011

کوئی تو میرا فسانہ سنے۔

سیریس لوگوں سے پیشگی معذرت کے ساتھ۔

کوئی تو میرا فسانہ سنے۔

کوئی تو میرا فسانہ سنے
میرے غموں کا ترانہ سنے

آج کل ‘ دن بیزار، شامیں اداس لگتی ہیں
ہم کو‘ بوجھل کیفیت ہی راس لگتی ہے

گھر کی ایسی حالت ہوئی ہے۔
برطرف یہاں سے راحت ہوئی ہے
چاروں طرف ایسے‘ ویرانی ہے چھائی
خوشی یہاں سے رخصت ہوئی ہے

نکلیں جو گھر سے’ انجان دیکھتے ہیں
ملیں دوستوں سے ’پریشان دیکھتے ہیں
حالت ہے ایسی مجنوں ہیں شاید
مسکراتے ہیں جب ’ مہربان دیکھتے ہیں
بال ہیں بکھرے تو لبادہ پریشان ہے
سرہاتے ہیں جب’ قدردان دیکھتے ہیں

جو ڈھیر لگا ہے وہ ناکامی ہے
جو بکھرا پڑا ہے وہ ناکامی ہے
تیری شرٹ پہ جو داغ لگا ہے
نہیں مٹ رہا ہے وہ ناکامی ہے

ادھر تو دیکھو دشمن جاں آتے ہیں
سر میں خوشی کے نغمے گنگناتے ہیں۔
چہرہ ہے روشن تو لبادہ ہے ستھرا
پتہ نہیں کہاں سے وہ انہیں دھلاتے ہیں
کچن تو ان کا ہر دم چمکتا ہے
پتہ نہیں آج کل کیا کیا کھاتے ہیں
کل تک تو الو کی طرح گھومتے تھے
شام ہوتے ہیں اب بھاگ جاتے ہیں
اچھا تو ان کی شادی ہو گئی ہے
اسی لیے یہ ہر بات پر مسکراتے ہیں

اب
سلیقے سے گھر جو سمیٹ کر
اچھی طرح سے صفائی کرے
ہمیں ایسی
ایسی گھر چمکانے والی چاہیے

سرف ایکسل سے زیادہ
سفیدی جو لائے
ہمیں ایسی
کپڑے دھونے والی چاہیے۔

مصالحوں کاحساب جانتی ہو
بریانی کے دموں کی کتاب جانتی ہو
ہمیں ایسی
مزیدار کھیر پکانے والی چاہیے

اور بس
نئے کے جیسے
شیشے سے زیادہ
برتن چمکانے والی چاہیے۔

اپنی مظلوم نظم یہ صدا لگاتی ہے
نہ کہوں تو کاموں سے جان جاتی ہے
خود ہی سمجھئے خود ہی جانیے
ہم کو تو کہنے میں شرم سی آتی ہے۔

No comments:

Post a Comment