سراب نگار
اردو کے ایک مشہور و معروف ماہانہ ڈائجسٹ کی مدیرہ اپنی کرسی پر بیٹھیں ایک نئے مصنف کی تحریر کا مطالعہ کر رہی تھیں کہ اچانک سامنے میز پر پڑے سرخ رنگ کے نفیس سے فون کی گھنٹی بج اٹھی۔
انہوں نے خاصی ناگواری سے گھورنے کے بعد فون کو اٹھا لیا۔
’’جی مس نازیہ! ۔۔۔۔ فرمائیے۔‘‘ ان کے لہجے میں خاصی سختی تھی۔
’’سوری میم! آپ کو ڈسٹرب کرنا پڑا۔ کوئی مسز رخشندہ آپ سے ملنے پر خاصہ اصرار کر رہی ہیں۔ آپ انہیں جانتی تو نہیں ہے مگر ان کا کہنا ہے کہ انہیں کسی اشد ضروری مسئلے پر بات کرنا تھی۔‘‘ ان کی سیکریٹری کے لہجے میں ادب اور لجاہت دونوں شامل تھے۔
’’بھیج دیں‘ اور ساتھ میں ان سے پوچھ کر چائے بھی بھیج دیجئے گا۔‘‘ مدیرہ صاحبہ کی پیشانی پر سوچ و تفکر کی لکریں نمودار ہو چکی تھیں۔
ویسے تو مدیرہ صاحبہ روزانہ کتنے ہی لوگوں سے ملاقات کرتی تھی۔ لیکن ان کو ملنے والے سب جانتے تھے کہ اس وقت وہ صرف اور صرف مطالعہ کرنا ہی پسند کرتی ہیں۔
’’کون ہو سکتا ہے؟ کیا کام ہو گا؟‘‘ مدیرہ جی نے بڑبڑاتے ہوئے زیر مطالعہ ناول کے مسودے کو دور ہٹایا اسی وقت دروازے پر ہلکی سی دستک دے کر ادھیڑ عمر مسز رخشندہ اندر داخل ہوئی۔
قیمتی لباس اور رکھ رکھاؤ سے وہ کسی اچھے گھرانے کی فرد لگ رہی تھی مگر ان کی آنکھوں میں اس قدر مایوسی تھی کہ ان کی پوری شخصیت تاریکی میں ڈوبی محسوس ہوئی۔
مدیرہ صاحبہ نے اٹھ کر ان کا سلام کرتے ہوئے استقبال کیا اور بیٹھنے کی درخواست کی۔
بیٹھ جانے پر مدیرہ صاحبہ نے ہلکا سا مسکراتے ہوئے ان سے سوال کیا۔
’’جی فرمائیے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں آپ کی کیا مدد کر سکتی ہوں۔‘‘
’’مدد؟‘‘ مسز رخشندہ نے چونک کر کہا اور پھر سنبھلتے ہوئے بولی کہ’’ ہاں۔ آپ میری مدد کر سکتی ہیں؟‘‘
مدیرہ صاحبہ نے مزید متوجہ ہو کر ان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’پچھلے دنوں میری بڑی بیٹی کی منگنی ہوئی ہے۔ لڑکا بہت اچھا، شریف اور نیک ہے۔ طارق روڈ پر اس کی جوتوں کی اپنی دوکان ہے۔ لیکن اس سے منگنی کے بعد میری بیٹی ہر ہر پل اداس رہتی ہے، نہ ہی کھانا کھاتی ہے اور نہ ہی اب پہلے جیسا اپنا خیال رکھتی ہے۔ منہ سے کچھ نہیں کہتی لیکن میں اس کی ماں ہوں اور جانتی ہو ں کہ اس وقت وہ خوش نہیں ہے۔‘‘
’’جی مجھے آپ کی بیٹی کی اداسی کا سن کر بہت دکھ ہوا۔ مگر معاف فرمائیے گا‘ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ یہ آپ مجھے کیوں بتا رہی ہیں۔ یہ آپ کا گھریلو معاملہ ہے میں اس معاملے میں آپ کی کیا مدد کر سکتی ہوں؟‘‘ مدیرہ صاحبہ نے الجھے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
’’آپ، آپ ہی تو مدد کر سکتی ہیں۔ یہ دیکھیئے‘‘ مسز رخشندہ نے کہتے ہوئے ایک بڑی سی ڈائری کھول دی۔ جس میں شہر کے اسی مشہور و معروف ڈائجسٹ کے تراشے چپکائے ہوئے تھے جس کی وہ مدیرہ تھیں۔
’’انہوں نے نا سمجھنے کی حالت میں ہاتھ بڑھا کر ڈائری لی اور پڑھنے لگیں۔
’اس نے چھ فٹ سے دراز قد، صاف رنگ، مضبوط جسم رکھنے والے کمال آفندی جو این۔سی۔اے میں ماسٹرز کی ڈگری لے کر اپنے والد کی فیکٹری سنھبال رہا ہے کو اپنی طرف متوجہ پایا۔‘
’چوڑی چھاتی، کسرتی جسم، دراز قامت اور شاندار پرسنیلٹی رکھنے والا شرجیل اس وقت اسپتال کی راہ داری میں بیٹھا رو رہا تھا۔‘
’ نبیل احمد کی شخصیت کا اثر ۔ ۔ ۔۔ ۔
مجھے سمجھ نہیں آ رہی ہے کے اس کا آپ کی بیٹی کی اداسی سے کیا تعلق ہے اور یہ آپ مجھے کیوں دکھا رہی ہیں۔‘‘ مدیرہ صاحبہ اچھی خاصی الجھن میں گرفتار ہو رہی تھیں اور انہیں کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
’’اپنے ڈائجسٹ کی ساری کہانیاں آپ ہی سلیکٹ کر تی ہیں ناں؟‘‘ مسز رخشندہ نے سوال کیا۔
’’ہاں مگر۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ مسز رخشندہ نے مدیرہ جی کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا۔
’’یہ سب آپ کے رائٹرز نے ہی لکھا ہے۔ اب یہ بھی پڑھیے۔‘‘ انہوں نے اپنے پرس سے ایک تراشا نکال کر مدیرہ صاحبہ کو تھما دیا۔
’’سیاہ رنگت، میانہ قد، تنگ پیشانی اور چھوٹی چھوٹی بھینچی آنکھیں رکھنے کے باوجود اسے بیوی زہرہ جمال اور مس ورلڈ چاہیے ۔‘‘ مدیرہ جی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا اور وہ سمجھ رہی تھیں کہ مسز رخشندہ صرف ان کا وقت ضائع کر رہی ہیں ورنہ ان کے پاس کہنے کو کچھ خاص نہیں۔
’’دیکھیے۔ اس وقت مجھے آپ کی کوئی بات صحیح سے سمجھ نہیں آ رہی۔ آپ پلیز کسی اور وقت تش۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’میں اب دس منٹ سے زیادہ آپ کا وقت نہیں لوں گی۔ پلیز۔‘‘مسز رخشندہ نے تیزی سے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’اوکے پلیز جلدی سے صاف صاف کہہ دیجئے کے آپ کہنا کیا چاہتی ہیں؟‘‘ انہوں نے ڈائری اور تراشہ مسز رخشندہ کو واپس کرتے ہوئے کہا۔
’’میں نے جو تراشا آخر میں آپ کو دکھایا ہے نا۔ اور جس حلیے کا نفرت سے آپ کے رائٹر نے مزاح اڑایا ہے نا۔ وہی میرے ہونے والے داماد کا حلیہ ہے؟‘‘ مسز رخشندہ نے کہا۔
’’اوہ۔ آئی ایم سوری۔۔۔۔۔۔‘‘ مدیرہ صاحبہ نےکہنا شروع ہی کیا تھا کہ مسز رخشندہ پھر سے بول اٹھی۔
’’سوری؟
کس بات کی سوری؟
وہ ماشااللہ صحت مند ہے، جوان ہے، اچھا کاروبار ہے، نیک اور شریف ہے۔ لیکن یہ ساری خوبیاں آپ کے رائٹرز بیان نہیں کرتے۔ کیونکہ وہ تو ظاہر کے پجاری ہیں۔
اور اپنی پوچا کے امر ہونے کے لیے کم عمر، نادان بچیوں کے دماغوں کے نفرت و محبت کا معیار ظاہر کو بنا رہے ہیں۔
آپ کیسے ایسی تحاریر اپنے ڈائجسٹ میں چھاپ دیتی ہیں جو کہ کم عمر بچوں کے زہنوں میں ظاہر کے بت بنائے جاتی ہیں۔ آپ کے ڈائجسٹ نے میری بچی کی عمر بھر کی خوشی چھین لی ہے اور اس کے دل میں کسک بھر دی ہے کہ وہ کسی ’’کمتر‘‘ سے شادی کر رہی ہے۔ ظاہر کو کب تک بچیوں کے دلوں میں بنیاد بناتی رہیں گی آپ؟
کبھی آپ انہیں گناہ کی طرف مائل کرتی ہیں،
کبھی انہیں اپنے دل کے مقدس تحت پر نجاست کے بت سجانا عمومی (نارمل) قرار دیتی ہیں۔
نا محرم کے خیال کو ، نا محرم کی خواہش کے لیے معصوم دلوں کی نرم زمیں کو ہموار کرتی ہیں ۔‘‘ مسز رخشندہ کی آنکھوں میں مایوسی اور درد کی جگہ غصے نے لے لی تھی۔
جب کہ مدیرہ صاحبہ اپنی سیٹ پر کھڑی ہو کر انہیں حیرت سے دیکھے جا رہی تھیں۔
مسز رخشندہ‘ دروازے کے قریب جا کر پلٹتی ہوئی بولی۔
’’ جب دلوں پر تحریر کے زریعے کوئی رائٹر ہل چلا چلا کر میٹھے درد سے نرم زمین تیار کرتا ہے تو وہاں خود بخودخواہشیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ لیکن جب زمانہ ان خواہشوں کو اپنے قدم کی ٹھوکر لگاتا ہے تو وہ خواہشوں بھرا دل شیشے کی مانند کرچی کرچی ہو جاتا ہے۔
اور یہ کرچیاں کبھی نکلتی نہیں ہیں۔ بلکہ تا حیات دل میں چھبن کا احساس اور ازیت بن کر رہتی ہیں۔
اور اس تمام تکلیف کی زمہ دار صرف آپ ہیں مدیرہ صاحبہ۔
صرف آپ۔‘‘ مسز رخشندہ جا چکی تھیں۔
جب کہ مدیرہ صاحبہ اپنی نشست سے کھڑی ہو کر ٹکٹکی باندھے دروازے کو دیکھ رہی تھیں۔
****---------****
ختم شد
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment