پچھلے برس کی گرمیوں میں
وہ ایک حسین شام تھی
جو دوستوں کے نام تھی
یہ اپنی عادت عام تھی
نئی بات زیر کلام تھی
ایک ساتھی گویا ہوا
محبت سامان زندگی ہے
محب کسی کا ہو جانا
مقدر کی تابندگی ہے
محبوب کا مل جانا
تشکر مقام بندگی ہے
جس نے محبت کی نہیں
اس کے لیے شرمندگی ہے
دوست میرے تم محترم
دل کا دروازہ کھول دو
بہت گول گھما چکے ہو
اب اور نہ کوئی جھول دو
بدنام ہو جاؤ بدنام کر دو
نام دونوں تم ’رول‘ دو
جو تمہارے دل میں ہے
وہ راز ہم کو بول دو
ہم ہیں تیرے ساتھی سجن
ہم سے کوئی پردہ نہیں
محبت کرنے والا یوں
کبھی کسی سے ڈرتا نہیں
اتنے حسین چہرے ہیں
تم کو کوئی روکتا نہیں
کوئی ٹیکنکل خرابی ہے
کیوں ان پر تو مرتا نہیں
مسکرا کر ہم نے سنا
طفل جیسے بول رہا ہو
شیطان اسے بہکا چکا ہے
راز اس کا کھول رہا ہو
پیتل کے سب باٹ ترازو
سونا ان سے تول رہا ہو
کٹ چکی پتنگ کی مانند
ایمان اس کا ڈول رہا ہو
ہاتھ کندھے پر رکھا
نرم نرم بولتے گئے
تقدیر، مقدر،امر ربی
بھید سارے کھولتے گئے
نہیں سنا نہیں جانا
وہ ڈسا تھا فلم کا
نہیں مانا کیا بہنانہ
وہ ڈسا تھا قلم کا
شیطانی قلب وسوسے
وہ ڈسا تھا ’بالم‘ کا
مسجد، مدرسہ،مزار
وہ ڈسا تھا علم کا
ناراضگی میں اس نے راستہ لیا
اور جاتے ہوئے مجھ کو کہا
چھپاتے ہو بس تم کوئی مومن نہیں
آخر چھپا کر تم کو انعام کیا ملا؟
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment