Sunday, June 26, 2011

پچھلے برس کی گرمیوں میں

پچھلے برس کی گرمیوں میں




وہ ایک حسین شام تھی


جو دوستوں کے نام تھی


یہ اپنی عادت عام تھی


نئی بات زیر کلام تھی




ایک ساتھی گویا ہوا


محبت سامان زندگی ہے


محب کسی کا ہو جانا


مقدر کی تابندگی ہے


محبوب کا مل جانا


تشکر مقام بندگی ہے


جس نے محبت کی نہیں


اس کے لیے شرمندگی ہے




دوست میرے تم محترم


دل کا دروازہ کھول دو


بہت گول گھما چکے ہو


اب اور نہ کوئی جھول دو


بدنام ہو جاؤ بدنام کر دو


نام دونوں تم ’رول‘ دو


جو تمہارے دل میں ہے


وہ راز ہم کو بول دو




ہم ہیں تیرے ساتھی سجن


ہم سے کوئی پردہ نہیں


محبت کرنے والا یوں


کبھی کسی سے ڈرتا نہیں


اتنے حسین چہرے ہیں


تم کو کوئی روکتا نہیں


کوئی ٹیکنکل خرابی ہے


کیوں ان پر تو مرتا نہیں




مسکرا کر ہم نے سنا


طفل جیسے بول رہا ہو


شیطان اسے بہکا چکا ہے


راز اس کا کھول رہا ہو


پیتل کے سب باٹ ترازو


سونا ان سے تول رہا ہو


کٹ چکی پتنگ کی مانند


ایمان اس کا ڈول رہا ہو




ہاتھ کندھے پر رکھا


نرم نرم بولتے گئے


تقدیر، مقدر،امر ربی


بھید سارے کھولتے گئے




نہیں سنا نہیں جانا


وہ ڈسا تھا فلم کا


نہیں مانا کیا بہنانہ


وہ ڈسا تھا قلم کا


شیطانی قلب وسوسے


وہ ڈسا تھا ’بالم‘ کا


مسجد، مدرسہ،مزار


وہ ڈسا تھا علم کا




ناراضگی میں اس نے راستہ لیا


اور جاتے ہوئے مجھ کو کہا


چھپاتے ہو بس تم کوئی مومن نہیں


آخر چھپا کر تم کو انعام کیا ملا؟

No comments:

Post a Comment