جہیز
میں دعوت دوں کا رخسانہ عبد الحسن! کو' کہ وہ اسٹیج پر تشریف لائیں اور آج کے موضوع "جہیز ایک لعنت " پر ہمیں اپنے خیالات سے آگاہ کریں۔
ایک پندرہ سال کی پیاری سی لڑکی شانوں پر اپنے یونیفارم کی پٹی درست کرتے ہوئے اسٹیج پر پہنچی تو اس کے دادا جی نے اپنی سیٹ پر کھڑے ہو کر اس کے لیے تالیاں بجائیں۔
لڑکی نے اپنی استانی سے لکھوائی ہوئی تقرر والا صفحہ سب کی نظریں بچا کر ڈائس پر رکھا اور اپنی تقریر شروع کر دی۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اخبار کے اندرونی صفحات میں
اک چھوٹی سی خبر لگی ہے
چولہے میں تھی خرابی کوئی
اک نئی دلہن جھلس گئی ہے
محترم مہمان خصوصی صاحب، قابل احترام اساتذہ اکرام اور میرے ہم عصر ساتھیوں۔
السلام علیکم!
آج میں جس موضوع پر آپ کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتی ہوں وہ کوئی پوشیدہ یا ڈھکی چھپی برائی نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے، ہمارے شہر، ہمارے گلی محلوں غرض یہ کہ ہمارے گھروں تک میں موجود ہے۔
آئے دن ہم یہ سنتے ہیں کہ فلاں لڑکی کواس کے شوہر نےجہیز کی ڈیمانڈ پوری ہونے پر مارا پیٹا' یا فلاں عورت کو جہیز کی ڈیمانڈ پوری نہ کرے پر طلاق دے دی گئی۔ یہ سب باتیں ہمارے معاشرے میں ہمارے اندر' ہمارے اردگرد ہی تو ہوتی ہیں اور ستم یہ کہ معاشرے کے یہ مکروہ کردار اپنی اس وحشیانہ حوس کی خاطرکسی ماں کو اس کے بچے سے جدا کرنے میں بھی کوئی عار نہیں سمجھتے۔ کتنی ہی نوجوان لڑکیاں جہیزاکٹھا نہ ہو پانے پر شادی کی آس میں گھروں میں زندہ لاشیں بن جاتی ہیں۔ اور حد تو تب ہوتی ہے جب کسی بابل کی گڑیا کو تیل چھڑک یا گیس کھول کر آگ سے راکھ کر دیا جاتا ہے۔
رخسانہ عبد الحسن کی جوش و خروش سے کی جانے والی تقریر پچھلی قطار میں بیٹھے اس کے بوڑھے دادا کو پیچھے' بہت پیچھے' ماضی کی یادوں میں دھکیلے جا رہی تھی۔
ــــــــــــــــــــــ
پاس کھڑے ہو کر گارا بنواتےٹھیکیدار غلام حسین نےدور سے آتے اشرف کو دیکھا تو اس کے ماتھے کے بلوں میں مزید اضافہ ہو گیا۔ وہ زیر تعمیر مکان سے باہر نکل کر راستے میں کھڑا ہو گیا اور اشرف کے قریب آنے کا انتظار کرنے لگا۔
اشرف جونہی دروازے کے پاس پہنچا ٹھیکیدار غلام حسین طنزیہ لہجے میں بولا "چوہداری صاحب آپ کیوں تشریف لے آئے ہمیں حکم کرتے گھر آ کر دیہاڑی دے جاتے۔ بھلا اتنی صبح صبح گیارہ بجے آنے کی کیا ضرورت تھی۔" ٹھیکیدار نے بڑے آرام سے سوا دس بجے کو گیارہ بناتے ہوئے کہا۔
"دیر ہو گئی ٹھیکیدار صاحب۔ آنکھ زرا دیر سے کھلی تھی۔ پھر تیار ہونے ناشتہ بنانے اور کھانے میں وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔ جی آئندہ دیر نہیں ہو گی۔" اشرف نے دبے ہوئےسے لہجے میں کہا۔
"تو اس میں میرا کیا قصور ہے، پیسے کے لیے تو لائن میں سب سے آگے ہوتے ہو۔ تنگ آ گیا ہوں میں تمہاری روز روز کی تاخیر سے" ٹھیکیدار کا پارہ آسمان کو چھونے لگا تھا۔
تمام مزدور اکھٹے ہو گئے مستری اجمل بھی جو ٹھیکیدار کی چیختی آوازیں سن کر ہی وہ سمجھ گیا تھا کہ آج پھر اشرف لیٹ ہو گیا ہے' گو سے نیچے اتر کر ٹھیکیدار کے پاس پہنچا اور اسے سمجھابجھا کر ٹھنڈا کیا کہ اسکی وجہ سے کام لیٹ ہو گا اور سب مزدور فارغ کھڑے رہیں گے۔
"آئندہ اگر سات بجے سے زرا بھی لیٹ ہوئے تو تمہیں آدھی دیہاڑی ملا کرے گی۔" ٹھیکیدار غلام حسین اپنے نتھنوں سے دھواں اڑاتے ہوئے پھر سے گارا بنانے والے مزدور کی طرف چلا گیا۔
"چلو' چلو' سب کام پر لگو۔ شاباش۔ اور اشرف تم مجھ سے دوپہر میں ملنا۔" مستری اجمل تمام مزدوروں کو دوبارہ سے کام پر لگاتے ہوئے دوبارہ "گو" پر چڑھ گیا۔
ــــــــــــــــــــ
پانچ بجتے ہی اشرف سمیت تمام مزدورں نے کام چھوڑا' ہاتھ پاؤں صاف کیے اور ٹھیکیدار سے اپنی اپنی دیہاڑی لینے کے بعد گھروں کی طرف روانہ ہونے لگے تو مستری اجمل نے آواز دے کر اشرف کو اپنے پاس بلایا اور اپنی سائیکل اس کے ہاتھوں میں تھما کر پیدل ہی گھر کی طرف چلنے لگے۔
"دیکھ اشرف! ایسے روز روز لیٹ ہونے پر میں تمہیں نہیں بچا سکتا۔ تو تھوڑا پہلے کیوں نہیں اُٹھ جاتا۔ صبح صبح اس برے بندے کے منہ لگنے سے بچ جائے گا۔" چلتے چلتے مستری اجمل نے اشرف کو نصیحت کرنے والے نرم لہجے میں کہا۔
"چاچا! تم تو جانتے ہی ہو کہ 'بےبے' کہ گزر جانے کے بعد میرے گھر میں میں اکیلا ہی ہوتاہوں۔ سارے کام خود ہی کرنے پڑتے ہیں۔ اس لیے تھوڑا لیٹ ہو جاتا ہوں۔" اشرف نے اپنی صفائی دی۔
"پتر! تیرا مسئلہ میں سمجھ سکتا ہوں۔ پھر ٹھیکیدار کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔ اسے تو صرف اپنے کام سے مطلب ہے۔ تو کوشش کیا کر وقت پر کام پر پہنچو۔" مستری اجمل کہہ کر خاموش ہو گیا۔
پھرکوئی خیال آنے پرچونک کر بولا۔"تم شادی کیوں نہیں کر لیتے؟ ناں اس سے تمہاری تنہائی بھی ختم ہو جائے گی اور تم کام سے بھی نہیں نکالے جاؤ گے۔"
مستری اجمل کی بات سن کر اشرف کا ایک بلند قہقہ سا نکل گیا۔
"چاچا! تو' تو کوئی سگریٹ نشہ بھی نہیں کرتا۔ ہاں آج گرمی زیادہ تھی نا۔ اس لیے ایسی بات کر رہا ہے۔ بھلا ایسا کون آدمی ہو گا جو مجھ جیسے ان پڑھ اور بے ہنر بندے کا نکاح اپنی لڑکی کے ساتھ کرنا پسند کرے گا۔"
"دیکھ پتر! تم شریف ہے' محنتی ہے' کسی نشے کی لت میں نہیں پڑا اور سب سے بڑھ کر بستی کے لوگوں کے سامنے پلا بڑھا ہے۔ اور ویسے بھی ہماری بستی میں کون سا ساہوکار بستے ہیں۔ کسی کا بھی بوجھ ہلکا کر سکتا ہے۔ اگر تو کہتا ہے تو کسی سے بات کروں۔" مستری اجمل نے سنجیدگی سے بات کرتے ہوئے کہا۔ تو اجمل بھی کچھ سوچنے لگا۔
"چاچا! وہ بات نہ کر جو پوری نہ ہو سکے۔ مجھے خواب مت دکھا۔ بستی کی ساری لڑکیاں پڑی لکھی ہیں اور میں بستی کو کوئی اکیلا کنوارہ لڑکا بھی نہیں ہوں۔ مجھ سے بھی شریف، محنتی پڑھے اور ہنر والے بندے ہیں بستی میں۔ مجھے کون پوچھے گا۔ میں شادی کر بھی لوں تو بیوی کو کیسے رکھوں گا' گھر کو کیسے چلاؤں گا میرے گھر میں تو کوئی کام کی شئے بھی اصل حالت میں موجود نہیں ہے۔ یہاں تک کے ضروری برتن بھی نہیں ہیں۔" اشرف کے سنجیدگی سے دیے اس جواب نے مستری اجمل کو پھر سے سوچوں میں دھکیل دیا۔
اتنی دیر میں اشرف کا گھر آ گیا اور وہ مستری اجمل کو سوچوں میں ڈوبا چھوڑ کر گھر کے اندر چلا گیا۔
ـــــــــــــــــــــ
مستری اجمل دھیرے سے گھر کا دروزاہ کھول کر اپنی سائیکل کو صحن میں لے آیا۔ اس کی بیوی حاجراں صحن میں لگے ہوئے دریک کے گھنے سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھی سبزی کاٹ رہی تھی۔
سائیکل کو اسٹینڈ کر لگا کر وہ سیدھا اپنی بیوی کی طرف گیا اور اس کی چارپائی کے عین سامنے پڑی چارپائی پر جا کر بیٹھ گیا۔ ابھی بھی اس کے دماغ میں اشرف کی کہی ہوئی باتیں گھوم رہی تھیں۔
حاجراں نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا اور پھر سر پر جمے ہوئے دوپٹے کو پھر سے درست کرتے ہوئے بولی۔
"خیریت تو ہے عمران کے ابا' آج بڑے بڑے خاموش خاموش ہیں۔"
"میں نے تجھے بتایا تو تھا اشرف کے بارے میں؟ اس کی وجہ سے پریشان ہوں۔" مستری اجمل نے چونک کر جواب دیا۔
"کیا ہوا؟ کیا ٹھیکیدار نے اسے کام سے نکال دیا؟" حاجراں نے پریشانی ملے لہجے میں پوچھا۔
"نہیں' آج تو نہیں نکالا' مگر ہو سکتا ہے کہ ایک دو دن میں نکال ہی دے۔ اکیلا بندہ ہے تو اس کی دیر سویر نہیں رک سکتی" مستری اجمل نے حاجراں کے جواب میں کہا۔
"اگر آپ کہیں تو ایک بات کہوں؟" مستری اجمل کی بات سن کر حاجراں کے دماغ میں کوئی ترکیب آئی تھی جس وہ دبے دبے جوش کے ساتھ بیان کرنا چاہ رہی تھی۔
"کہو ۔ ۔ ۔ ۔!"
" وہ آپ کے مرحوم دوسر رشید کی بیوہ حمیدہ کی بڑی لڑکی نصرت سترہ (17) سال کی ہو گئی ہے۔ لڑکی شکل اور قد بت میں اچھی ہے، گھرداری میں اچھی ہونے کے ساتھ ساتھ دسویں کلاس تک پڑھائی بھی کی ہوئی ہے' بیچاری حمیدہ آج دن میں آئی تھی بیچاری آج کل اس کی شادی کے لیے بہت پریشان ہے۔" حاجراں تیز تیز لہجے میں کہتی ہوئی داد طلب نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔
"خیال تو بہت ہی اچھا ہے۔ "مغرب ویلے" میں اشرف سے پوچھوں گا اور اگر وہ راضی ہو گیا تو پھر آگے سوچیں گے۔" مستری اجمل نے بہت ہلکا پھلکا ہو کر کہا۔
"آپ' ابھی جاؤ ناں۔ یہ پاس ہی تو اشرف کا گھر ہے۔ اتنی دیر تک میں بھی تیار ہو جاتی ہوں حمیدہ کے گھر جانے کے لیے۔" حاجراں کچھ زیادہ ہی پر جوش ہو چکی تھی۔
"کیسی شیدائیوں جیسی باتیں کر رہی ہے تو۔ ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاہتی ہے۔" مستری اجمل نے اس کی بیقراری پر جھڑکتے ہوئے کہا۔ تو حاجراں منہ بنا کر پھر سے سبزی کی طرف متوجہ ہو گئی۔ اور مستری اجمل اُٹھ کر باتھ روم کی طرف روانہ ہو گیا۔ اور کپڑے بدل کر آیا تو حاجراں ابھی تک اسی موڈ میں سبزی کاٹ رہی تھی۔
"اچھا! جلدی سے کھانا بنا لو۔ میں اشرف کے گھر جا رہا ہوں ابھی وہ نکلا نہیں ہو گا۔ آج وہ بھی شاید یہاں ہی کھانا کھائے۔" مستری اجمل نےکہا تو حاجراں کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔
مستری اجمل' اشرف کے گھر پہنچا تو وہ کھانا پکانے کی تیاری کر رہا تھا اور اپلوں کی آگ جلانے کے چکر میں اپنی آنکھوں کا ستیاناس کر رہا تھا۔
صورتحال ایسی تھی کہ مستری اجمل کی بات سن کر اشرف کے چہرے پر بے اختیار احسان مندی کے احساس جھلکنے لگے۔ اور مستری اجمل نے اس کا مثبت جواب محسوس کر کے اسے سینے سے لگا لیا۔
ـ
ـــــــــــــــــــــــــ ــــــــــــــ
"حمیدہ! دیکھ تو اچھی طرح سے جانتی ہے کہ مرحوم رشید میرا کتنا اچھا دوست تھا۔ پوری بستی میں ہماری دوستی کی مثالیں مشہور تھیں۔ اگر تجھے برا لگے تو صاف کہہ دینا۔ میں برا نہیں مانوں گا۔"اگلے دن مستری اجمل' حاجراں اور اشرف کو لے کر حمیدہ کے گھر ' اس سے بات کرنے کے لیے موجود تھا۔
"بھائی اجمل! بات کیا ہے؟ بھلا میں آپ کی بات کا برا کیوں مانوں گی۔ نصرت کا ابا آپ کا کتنا زکر کیا کرتا تھا۔"
حمیدہ جو ان سب کی آمد پر تھوڑی حیرانی میں تھی' نے جواب دیا۔
"بہن یہ اشرف کا تو تمہیں پتہ ہی ہے۔ شریف اور محنتی بچہ ہے بس زرا پڑھا لکھا نہیں ہے۔ میں اس کے لیے تمہاری نصرت کا ہاتھ مانگنے آیا ہوں۔ مجھے پتہ ہے کہ ہم بغیر اطلاع کے آ گئے ہیں۔ میں اشرف کی پوری گارنٹی دینے کو تیار ہوں۔" مستری اجمل نے نرم سے لہجے میں کہا۔
یہ بات سن کر حمیدہ کی آنکھوں میں پتہ نہیں کیوں نمی سے بھر آئی اور وہ انتہائی پست سے لہجے میں بولی۔
"بھائی اجمل! تمہاری تمام باتیں درست ہیں۔ پرکیا نصرت کو رکھنے کے لیے، اس کے اخراجات پورے کرنے کے لیے، اشرف کے پاس زرائع ہیں۔ بہن فاطمہ (اشرف کی بےبے) کی وفات پر میں اشرف کے گھر جا کر دیکھ چکی ہوں۔" حمیدہ نے مستری اجمل سے کہا اور پھر اشرف کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔
"برا مت ماننا بیٹا' میں بہت غریب ضرور ہوں۔ مگر تھوڑا صبر کر کے پہلے گھر میں کچھ ساز و سامان کر لو پھر بات کرنا۔"
"نہیں "چاچی" میں تمہاری بات کا برا نہیں مانوں گا۔ تو بالکل صحیح کہہ رہی ہے۔ میں نے بھی "چاچا"اجمل کو یہی سب کہا تھا۔ پر "چاچا" اجمل نے یہ سب میری کام بچانے کےلیے کیا ہے۔" اشرف نے حمیدہ سے کہا۔
"چل "چاچا" اب چلتے ہیں۔ " اشرف نے کہا اور پھر وہ تینوں وہاں سے مایوس لوٹ آئے تھے۔
ــــــــــــــــــــ
"آج تیسرا دن ہے۔اور تم الجھے الجھے دیکھائی دے رہے ہو۔ کیا بات ہے۔ کوئی پریشانی ہے کیا؟" دوستوں کے درمیان بیٹھا حامد پہلوان اپنے لنگوٹیے یار مستری اجمل کو دیکھر کر چپ نہ رہ سکا تھا۔
"وہ یار تم اشرف کو تو جانتے ہی ہو۔" مستری اجمل نے کہا۔
"ہاں یار وہی خوشی محمد کا بیٹا" حامد پہلوان نے لقمہ دیا
"ہاں وہی یار اس کی وجہ سے تھوڑا پریشان ہوں۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے تمام ماجرا اپنے دوستون کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔"
"ہاں۔ یار کہا تو حمیدہ نے بالکل صحیح ہے۔" وہ سب حمیدہ اور اشرف کا دکھ اپنے دل میں محسوس کر رہے تھے۔
"وہی تو یار " مستری اجمل نے کہا۔"میری اپنی آمدنی بہت کم ہے ورنہ میں ہی اس کی مدد کر دیتا۔" سب نے سر ہلا کر مستری اجمل کی بات کی حمایت کردی۔
ــــــــــــــــــــ
کچھ دنوں بعد حمیدہ نے اجمل اور حاجراں کوبلاوا بھیجا۔ وہاں پہنچنے پر حمیدہ نے اشرف کے لیے اپنی بیٹی نصرت کی رضا مندی دے دی۔
"حمیدہ بہنا! یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے۔ مگر یہ ہوا کیسے۔ پہلی بار ہم آئے تھے تو تم نے انکار دیا تھا۔" مستری اجمل نے حیرت سے پوچھا۔
"میری بیٹی کے گھر کے لیے جہیز کا بندوبست ہو گیا ہے بھائی اجمل! اور یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو دنیا جہاں کی خوشیاں عطا کرے آپ نے ایک بیوہ کی مشکل آسان کی ہے۔" حمیدہ نے نم لہجے میں مستری اجمل کو دعائیں دیتے ہوئے کہا۔
"پر میں نے تو ایسا کچھ نہیں کیا۔" مستری اجمل کی حیرت بددستور قائم تھی۔
"آپ کے دوستوں نے اور سب محلے والوں نے نصرت کہ جہیز کے لیے ایک ایک کر کے سب چیزیں پوری کر دی ہیں۔ میں نے اشرف کے لیے انکار تو کر دیا تھا۔ مگر میری پریشانی بھی بہت بڑھ گئی تھی۔ آج آپ کے دوستوں کی وجہ سے' میری عزت بھی رہ گئ ہے اور بیٹی بھی اپنے گھر کی ہو جائے گی۔ میں سب کا احسان کیسے اتاروں گی۔" کہتے کہتے حمیدہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ حاجراں نے آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگا لیا۔ اس کی آنکھیں بھی نم تھیں۔
اور اجمل وہاں سے باہر نکل گیا تا کہ سب کا شکریہ ادا کر سکے۔
ـــــــــــــــــــ
تالیوں کی تیز آواز کے ساتھ ہی رخسانہ عبد الحسن کا دادا محمد اشرف حال میں واپس لوٹ آیا۔ اس کی پوتی ڈائس سے اتر کر اس کی طرف آ رہی تھی۔
اور اشرف یہ سوچ رہا تھا کہ
"اگر اس وقت جہیز کا انتظام نہ ہو سکتا۔ تو کیا اس بچی کا کوئی وجود ہوتا۔"
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment