لمحہ فراق
آہنی گیٹ سے پہلا قدم باہر رکھا تو اس کے دل کی دھڑکن کی رفتار یک دم تیز، بہت تیز ہو گئی۔ شدعت غم سے اس کا سر چکرایا اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا نے لگا وہ اپنا سر پکڑ کر اپنے سینے کی جانب تھوڑا سا جھکا مگر پھر اس نے اپنے سر کو ایک جھٹکا دیا' سیدھا ہوا اور پھر سے پورے قد سے چلنے لگا' بالکل سیدھا، بنا کوئی اور حرکت کیے بس اپنے قدموں کو گھسیٹے ہوئے وہ اس عمارت سے دور جا رہا تھا۔
اس کا دل چیخ چیخ کر اسے رکنے اور اس عمارت پر ایک اور نظر ڈالنے کے لیے مجبور کر رہا تھا۔ مگر وہ گردن اکڑائے سیدھا چلا جا رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کا مڑ کر ایک بار ہی دیکھنا قیامت ہو گا۔ مگر درد تھا کہ دل میں بڑھا جا رہا تھا۔ ایک بار صرف ایک بار پھر سے دیکھنے کی طلب اسے ازیت لا متناہی میں مبتلا کر رہی تھی۔
وہ جانتا تھا کہ اگر اس نے ایک بار پیچھے مڑ کر اس عمارت کی طرف دیکھ لیا تو وہ اپنے ہی فیصلے پر قائم نہیں رہ سکے گا۔ کیا نہیں ملا تھا اسے اس عمارت سے' اور آج وہ سب کو بتا کر' سب کی اجازت لے کر اس عمارت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جا رہا تھا۔
اسے آج بھی وہ دن یاد تھا جب پہلی بار وہ اس عمارت میں آیا تھا اور اس عمارت کے سبھی مکینوں نے کھلے دل اور کھلی بانہوں سے اس کا استقبال کیا تھا۔ اسے بڑھ کر اپنے سینے سے لگایا تھا۔ یہیں پر تو اسے وہ چھوٹے چھوٹے شرارتی سے بھائی بہن ملے تھے جن کے ساتھ مل کر وہ خوب دھماکہ چوکڑی مچایا کرتاتھا اور وہ بڑی بہنیں اور بھائی بھی ملے تھے جن کے رعب میں بھی پیار جھلکتا تھا اور جنہیں وہ بلاوجہ صرف جھڑکیاں کھانے کے لیے اوٹ پٹانگ طریقے سے تنگ کیا کرتا تھا۔آج اسے سب یاد آ رہا تھا۔
اور جب اس عمارت کا کوئی بھی مکین تکلیف میں ہوتا تو کیسے سب اس کی داد رسی کے لیے آگے بڑھتے، دعائیں کی جاتیں، ہمت بندھائی جاتی، سب کو وہ غم ان کا اپنا غم لگا کرتا تھا۔
اور جب کوئی مکین کامیاب ہوتا تو سبھی کو وہ کامیابی ان کی اپنی کامیابی محسوس ہوتی تھی مٹھائیاں اڑائی جاتیں اور جشن منایا جاتا
اوراس دن جب اس نے پہلی بار قلم اُٹھا کر اپنے جزبات کوکاغذ پر ڈھالا اور اپنی پہلی تخلیق ڈرتے ڈرتے سب کو دکھائی تھی تو سب کے چہرے کیسے سچی خوشی سے دمک اٹھے تھے۔ سب نے کتنی تعریف کی تھی۔
اور آج جب اس کو اس دنیا کی رسموں سے بندھ کر کہیں اور جانا تھا تو سب نے کتنے ہی خلوص اور محبت اور دعاؤں سے اس کو الوداع کہا تھا۔
اسے پتہ تھا کہ دروازے کے اس پار' سب اسی کو جاتے ہوئے دیکھ رہے ہیں کسی کے بھی بظاہر آنسو نہیں نکل رہے مگر ان کو خود کے چہروں پرتو کوئی اختیار نہیں۔ وہ پلٹ کر ان چہروں کو نہیں دیکھ سکتا تھا، وہ تو جس گیٹ سے ابھی گزر کر آیا تھا اسے بھی دوبارہ نہیں دیکھ سکتا تھا۔
بس خود کو قدم قدم گھسیٹتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھا جا رہا تھا۔
زندگی تو پیچھے ہی رہ گئی تھی شاید
مگر وہ آگے ہی آگے بڑھ رہا تھا۔
شاید کسی نئی زندگی کی تلاش میں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment