Sunday, June 26, 2011

یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے

یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے


اس دار فانی کا حاجت رواں فقط ذات واحد ہے۔ اسی حاجت رواں کی مہربانی کی اس کائنات کی سب سے بہترین اور اشرف مخلوق انسان کو زمین پر اپنا نائب بنایا۔ عبادت گزار مگر شکی جن ابلیس انسان کے اس اعزاز پر حاسد ہوا اور اس حاجت رواں خدائے واحد و مطلق سے شکوہ کناں ہو کر اس جل اللہ جلال ہو کی حمکت پر شک کیا اور اپنے تخلیق کے مادہ پر غرور و تکبر کرتے ہوئے حکم ربی سے انکار کر دیا۔ اور زلیل و خوار ہو کر انسان کی تباہی کے لیے اس کے سامنے سے پیچھے سے دائیں سے بائیں حملہ وار ہونے کی ڈھیل لی۔

مشعیت خداوندی کے مہرے آگے بڑھے اور انسان اپنے آپ کو زمین پر پا کر بوکھلا گیا۔رحمٰن نے الفاظ استغفار عطا کیے اور وہ صابر ہو گیا۔ لیکن حسد نے آگ کو سیاہ کر دیا اور پھر نارذاد نے آدم ذاد کو کھولتے ہوئے جہنم کی جانب دھکیلنا شروع کر دیا لیکن رحمٰن نے اپنے چنے والے بندوں کو نبوت و رسالت سے نوازا اور ان ہدایت والوں نے مہکتے ہوئے گلستانِ عدن کا راستہ بتا کر انسانوں کو منزل راحت کی آسانیاں بتائیں۔ اور پھر بنی نوع انسان پر اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص کرم کرتے ہوئے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا میں منتحب راستے کے ساتھ بھیجا اور دین کو مکمل کر دیا۔ کچھ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار کیا اور حاسد کے پیچھے چل پڑے اور کچھ لوگوں نے حقیت پائی اور اس کے محبوب کے پیچھے چل پڑے اور راہ نجات کے راہی ہو گئے۔

حاسد کو یہ کہاں منظور تھا کہ کوئی سایہ رحمت میں پہنچ کر اس کی آگ کی تپش سے محفوظ رہے اس لیے اس نے اپنا عنکبوت تشکیل دیا۔ ہر پردے کے پیچھے ایک پھندہ اور پھندے کے پیچھے دوسرا پھندہ جو ایک بار اس جالے میں پھنس گیا اس کے لیے نجات کی کوئی راہ نہیں مگر جو اللہ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دامن تھام لے۔

حاسد ہر شخص کے پاس اس کے علم کے مطابق پھندہ لے کر آتا ہے ایک انجینئر کو حاسد ابلیس حسابی جمع و تفریق سے اپنے پھندے میں پھنستاتا ہے اور ایک ڈاکٹر کو جسم انسانی کے رازوں میں الجھا کر پھنسا لیتا ہے ایک عالم کو دین کی تشریحات میں الجھا لیتا ہے اور ایک صوفی کو کھوٹ کی چمک میں۔ یہ حاسد اس قدر شریر ہے کہ خود کو بطور خدا پیش کرتا ہے رحمت والے بچ جاتے ہیں علم والے پھنس جاتے ہیں۔

اس حاسد کے بہت سے نائب ہیں جو خاکیوں میں اس انداز میں گھلے ملے ہیں کہ دکھنے میں خوشبودار لگتے ہیں لیکن شجر ایمان کے ایسے دشمن ہیں کہ دوسروں کو شاخوں کی حفاظت کا کہہ کر خود رات کے اندھیرے میں اسی درخت کی جڑیں کاٹتے ہیں۔

اور ان مثل مراد بہروپیوں کی سرکوبی کے لیے وہ نور والا اپنے عاجزوں کو بھیجتا ہے جو گلی میں دودھ بیچتے ہیں اور نظروں سے ایمان بیچتے ہیں۔ جو سخت تپتی گرمی میں لوگوں اور عماراتی سامان کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور اپنی مضبوطی ایمان سے لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی کچرا گھر میں پھینک آتے ہیں۔ یہ درزی ہوتے ہیں، چرواہے ہوتے ہیں، ہاتھ میں کسی پکڑے کسان ہوتے ہیں، کسی بڑی دفتری میز کے پیچھے بیٹھے صاحب ہوتے ہیں، یہ کچھ بھی ہوتے ہیں مگر حرام خوری سے بھاگنے والے ہوتے ہیں۔

کوئی کہے حدیہ تو ہاتھ جھٹک دیتے ہیں، کوئی توقیر کے لیے ہاتھ چومے تو ان کا دل خوف خدا سے دھک سا رہ جاتا ہے آنکھوں سے اپنی عاجزی کے آنسو نکل آتے ہیں۔ کوئی کہے آپ عظیم ہیں تو یہ خاک میں بیٹھ جاتے ہیں۔ کوئی کہے یہ مسافر عظیم ہے تو رمضان کی بھری دوپہر کھانا نکال کھانے لگتے ہیں۔ یہ وہ پراسرار غازی ہوتے ہیں جو کبھی سامنے نہیں آتے مگر ہر دم ساتھ ہوتے ہیں۔ کبھی کسی مشکل میں جب اچانک سکون محسوس ہونے لگے تو پتہ چلتا ہے کہ ابھی کوئی غازی قریب سے گزرا ہے۔ یہ مسجد میں نماز تو پڑھتے ہی ہیں بازار میں بھاؤ تول بھی کرتے ہیں۔ یہ کوشش کرتے ہیں کہ ایمان کے آسمان پر چمکنے والے تاروں کی پیروی کر سکیں۔

یہ ایک قدم آگے نہیں بڑھتے یہ ایک قدم پیچھے نہیں چلتے۔ اس لیے ساری عمر کے مجاہدے کے بعد یہ غازی ہوتے ہیں۔ اور ان کے بارے میں اقبال کہتے ہیں کہ



یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے


جنہیں تو نے ہے بخشا زوق خدائی


دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا


سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی


سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی


غازیوں اور حاسدوں میں ایک ہی فرق ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ غازی شریعت سے بڑھتا نہیں ہے اور حاسد شریعت پر رہتا نہیں ہے۔ حاسدوں سے جس قدر ہو بچ کر رہیں کیونکہ شکل و ظاہر میں یہ غازیوں سے اچھے دکھتے ہیں۔ جیسے پانی حیات ہے اور زہر موت مگر زہر پانی سے زیادہ رنگدار اور خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔ جب کہ پانی کوئی رنگ نہیں رکھتا اسے دیکھیں تو اس کے آر پار نظر آ جاتا ہے۔

No comments:

Post a Comment