Sunday, June 26, 2011

شور۔ سحر آزاد

زمانہ ہوا لکھنے کے لیے قلم کا استعمال کرنا چھوڑرکھا ہے اس لیے آج کل جب بھی لکھنے کا موڈ ہوتا ہے سب سے پہلے ٹی وی بند کیاجاتا ہے، پھر کمپیوٹر آن کر کے تمام لائٹیں بجھا دیجاتی ہیں۔اور پھر لکھنا شروع۔۔۔۔۔

کل رات بھی یہی ہوا ٹی وی بند کیا اور لائٹیں بھجا کر جب لکھنا شروع ہی کیا تھاکہ اچانک دروازے پر ایک شخص برآمد ہوا۔ اور آتے ہی کاندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھنے لگا۔

’’لکھنے لگے ہو؟‘‘
میں نے سر ہلا کر ہاں میں جواب دیا تو بولا۔

’’لکھو، بہت اچھا کر رہے ہو۔ پوری دنیا کوتمہاری نصیحتوں کی ضرورت ہے۔ جو بھی جانتے ہو وہ سب لکھو، تاریخ سے نصیحتوں کے گودام کھنگال ڈالو اور لکھو، ان سب کے بارے میں لکھو جو جیتے یا ہارے۔
وہ سب کچھ لکھو جس کی وجہ سے گزشتہ قومیں ہار گئی تھیں۔
اور وہ بھی لکھو جس کی وجہ سے ان قوموں نے اپنی ہار کو جیت میں بدل ڈالا۔
اللہ نے تمہیں یہ صلاحیت ایسے ہی نہیں دے ڈالی کہ تم اس کوبیکار کی باتوں میں ضائع کرتے ہوئے۔‘‘
وہ ایک لو دینے والے جوشیلے سے لہجے میں بول رہا تھا۔

’’ہونہہ۔ ۔ ۔ ۔ آپ صحیح کہتے ہیں۔ میں لکھتا ہوں۔۔۔۔‘‘ اس کے الفاظ مجھے اپنا ہمنوا بنا چکے تھے۔

’’میرا کام ختم ہوا۔ اب میں چلتا ہوں۔ اللہ حافظ‘‘ وہ شخص پلٹا اور تیز قدموں سے چلتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔

میں نے لکھنے کے لیے مائیکروسافٹ آفس کا پروگرام ’’ورڈ‘‘ کھولا۔ اور ’’کی بورڈ‘‘ کو اردو میں بدلنے کے بعد لکھنا شروع کرنے ہی لگا تھا کہ ایک اور شخص کمرے میں آ کر بولا۔

’’لکھنے لگے ہو؟‘‘
میں نے اندھیرے میں اسے پہچاننے کی کوشش کی پر پہچان نہیں پایا لیکن اس کی آواز پہلی آواز سے بالکل مختلف تھی۔ میں نے اسے بھی سر ہلا کر ہاں میں جواب دیا تو بولا۔

’’کیا لکھنے لگے ہو؟‘‘
’’معاشرے کی تلخ حقیقتوں پر سے پردہ اٹھانے لگا ہوں۔ ابھی ایک شخص مجھے کہہ کر گیا ہے۔‘‘ میں پہلے شخص کی باتوں کے اثر میں بولا۔

’’ارے۔ وہ ناصح‘‘ اس کے لہجے میں ناگوریت اور طنز تھا۔’’ارے اس کو چھوڑو، وہ تو صرف اور صرف مشکلیں اور پریشان پیدا کرنا چاہتا ہے تم محبت پر لکھو، رشتوں پر لکھو تم ان نازک جذبات پر لکھو جو کہ انسان کو حیوانوں سے علیحدہ، بلند اور ممتاز کر دیتا ہے۔
تم اس رانجھے پر لکھو جو ہیر کی چاہ میں چرواہا بن گیا تھا۔
تم اس مجنوں پر لکھو جو لیلیٰ کی چاہ میں صحرا صحرا بٹکتا رہا۔

بتاؤ، لوگوں کو کہ یہ زندگی بہت چھوٹی ہے۔ اس کو محبت سے‘ محبت کرتے ہوئے گزاریں۔ مسئلے مسائل چھوڑو، اس جذبے پر کی خوبصورت پر لکھو خوشیاں پھیلاؤ، خوشیاں پاؤ۔‘‘ میٹھے لہجے میں کہی اس کی بات سوچ کا ایک نیا ہی در وا کر گئی۔ ’’چھوٹی سی زندگی ہے اور اس کو بھی مسائل مین الجھا کر گزار دینا کہا کہ عقل مندی ہے‘‘ اور میں نے ارادہ کیا کہ اب محبت پر لکھنا ہے۔لیکن ناصح کی بات بھی کچھ غلط نہ تھی۔آخر معاشرے کے لیے بھی تو کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔
’’سنو۔‘‘ میں نے چاروں طرف دیکھتے ہوئے پکارا۔مگر اتنے میں وہ شخص جا چکا تھا۔

کی بورڈ پر انگلیاں جمائیں اور ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ سے آغاز کیا۔

اتنے میں میرے قریب ایک نرم آواز ابھری۔

’’لکھنے لگے ہو؟‘‘
’’جی کوشش کر رہا ہوں۔ کچھ لکھنے کی۔‘‘ بار بار ڈسٹرب کیے جانے پر لہجے میں خود بخود تھوڑی چڑچڑا ہٹ شامل ہو گئی تھی۔

’’کیا لکھنے لگے ہو؟‘‘ وہی نرم آواز دوبارہ ابھری تھی۔
’’محبت، میں خوشیوں پر، جزبوں پر رشتوں پر لکھنے لگا ہوں۔ میں ان نرم وگرم لمحوں کے بارے لکھنے لگا ہوں جو حسین یادوں میں بدل جاتے ہیں۔ ‘‘

’’اچھا!‘ اس سے تم کو کیا ملے گا؟‘‘اس بار آواز کے لہجے میں نرمی کے ساتھ سوالیہ انداز بھی شامل ہو چکا تھا۔
’’خوشیاں‘ خوشی بانٹوں گا تو خوشی پاؤں گا۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’اور پھر ؟‘‘ آواز میں پراسراریت شامل ہو چکی تھی۔
’’پھر کیا؟‘‘ میں نے الجھے لہجے میں سوال کیا۔

’’پھر ایک دن تم مر جاؤ گے۔ تم قبر میں جاؤ گے۔ وہاں تمہارا حساب ہو گا۔ وہاں تمہارا ایمان دیکھا جائے گا۔ تم سے پوچھا جائے گا کہ تمہارا رب کون ہے، تمہارا رسول کون ہے، وہاں تم سے نماز کے بارے سوال ہو گا۔ وہاں تم سے پوچھا جائے گا کہ تم کن لوگوں میں شامل تھے۔ بھیڑ میں۔ جو کہ ہر راستے پر آنکھیں بند چلے جاتی ہیں کہ یا تم سب سے بہترین لوگوں میں تھے جو کہ دین سیکھتے اور سکھاتے ہیں۔ کیا جواب دو گے وہاں۔
یہی کہ میں چند لمحوں کی بے وقعت خوشیاں بکھیرتا رہا۔ اور دائمی خوشی کے لیے کچھ نہیں لکھا۔

لکھنا ہے تو حقیقی کامیابی کے لیے لکھو، دائمی خوشیوں کے لیے لکھو، جنت کے لیے لکھو اور سب سے بڑھ کر اللہ اور اس کے محبوب ﷺ کے عشق میں لکھو۔‘‘ اس کے لہجے نرمی، سختی، جزبات، عقیدت، محبت سب شامل تھا۔

اور میرے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو چکے تھے۔ اور میں خوف خدا سے تھر تھر کانپ رہا تھا۔

اتنے میں میرے قریب سے سب سے پہلے والے شخص کی آواز ابھری۔’’واعظ کو چھوڑ، میری سنو۔ کہ معاشرے میں بہت مسائل ہیں۔‘‘

اب پہلے شخص کی آواز کی بازگشت معدوم نہیں ہوئی تھی کہ دوسرے شخص کی آواز سنائی دی۔’’محبت امر ہوتی ہے۔ محبت ہی حقیقت ہے اور محبت ہی خوشیاں اور سکون ہے اور تم سکون کے لیے لکھو۔ تم محبت لکھو۔‘‘

’’مذہب زندگی کی اصل اور موت کی حقیقت ہے، مذہب نجات ہے، مذہب کامیابی ہے، مذہب دائماً ہے، مذہب ہی حقیقت ہے۔ تم نجات کے لیے لکھو، تم شفاعت کے لیے لکھو، تم مذہب پر لکھو۔‘‘ تیسرے شخص کی آواز میں اس بار نرمی کم اور سختی زیادہ تھی۔
پھر ان سب آوازوں میں تکرار ہونے لگی۔ یہ آوازیں آپس میں گڈ مڈ ہو گئی۔

میں انہیں سننے کی کوشش کر رہا تھا مگر یہ کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ میں نے بہت کوشش کی اور اب بھی کوشش کر رہا ہوں لیکن کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا لکھوں اور کس پر لکھوں۔

کیا اس سلسلے میں آپ میری مدد کر سکتے ہیں؟

(سحر آزاد)

No comments:

Post a Comment