Sunday, July 3, 2011

سوال آنکھیں

سوال آنکھیں

لیلیٰ و سوہنی سی کمال آنکھیں
چمکتی دھب سی جمال آنکھیں

جوگی ھیر سناتا جائے
سُپنے خوب دکھاتا جائے
دلفریب جوت جگاتا جائے
جال اپنے میں پھنساتا جائے

وہ سرخ و سوجھی قطرہ قطرہ
پگھلی پگھلی سیال آنکھیں

حیا کی پتلی ’لیر‘ ہٹا دی
رانجھے کی تصویر سجا دی
دل کی اختیاری جاگیر گنوا دی
جندڑی اس دی عذاب بنا دی

موت کا سناٹا اور خاموشی
وہ بے نور سی پاتال آنکھیں

پور پور چھالے اگتے ہیں
روح کے پردے زخم بنتے ہیں
زرے زرے دوہائی دیتے ہیں
تنہائی میں رانجھاوھیر ملتے ہیں

درد، کرب یا حسرت زیادہ
الجھی الجھی سوال آنکھیں

قاضی کس کو ملزم ٹھرائے؟
ھیر جو دل کی جوت جگائے؟
رانجھا ہوس کی بھوک مٹائے؟
یا جوگی جو ھیر سنائے؟

بے مہر تغیر

بے مہر تغیر




خیال کی جیب سے چوری نقشہ کریں


تصور کی دنیا کے راہی بنیں


یادوں سے تھیلا اپنا بھریں


نوری راہ گزر چنیں


تمہیں سنگ لیں


چاند پر چلیں


کوئی افسانہ ہو


نہ کوئی کہانی ہو


نہ ہی کوئی پریشانی ہو


خاموشی کا گروندہ بنا کر


ارض مردار کی سیاحت کریں


اپنے ہاتھوں سے اس کےگڑے بھریں


کمر باندھ کر اس پر جھاڑو لگائیں


سارے داغ دھبوں سے پاک کریں


چرخہ کاتتی بڑھیا سے ملیں


کبھی تھک کر زندگی


رک جائے اگر


خوب


تیل لگا کر


سرکی مالش کریں


جونیند غالب آنے لگے


اورغنودگی جب چھانے لگے


چاندنی اوڑھ لیں استراحت کریں

بوندوں کو برسنے دو

بوندوں کو برسنے دو



بوندوں کو برسنے دو
میرے خواب بھیگ جانے دو
مجھے افق کے پار جانا ہے
مجھے اپنے پر پھیلانے دو



بانہیں پھیلائے فضا میں دوڑیں لگاؤں
پائنچے بچا کر ستارے پھلانگوں
چاند پر رسی کا جھولا ڈالوں
مشرق سے مغرب اسے جھولاؤں
بادلوں کو اپنا تکیہ بنا لوں
تفکرات سے اپنا پیھچا چھڑا لوں
خوشیوں کا کوئی گیت گنگنا لوں
آسمانوں میں اپنا گھر میں بسا لوں



بوندوں کو برسنے دو
میرے خواب بھیگ جانے دو
مجھے افق کے پار جانا ہے
مجھے اپنے پر پھیلانے دو



ہو میرا مسکن سب سے اونچے شجر پر
ہو میرا مکتب سب سے مشکل حجر پر
ہو میرا سفینہ سب سے گہرے بحر پر
ہو میرا جینا سب سے سچے ڈگر پر
میں چاہتیں لٹا دوں گا
میں ریاضتیں بھلا دوں گا
نئی کہانیاں بنا دوں گا
میں کشتیاں جلا دوں گا



بوندوں کو برسنے دو
میرے خواب بھیگ جانے دو
مجھے افق کے پار جانا ہے
مجھے اپنے پر پھیلانے دو



راکھ بھی فصلوں کے کام آتی ہے
دھوئیں سے تصویر شکل پاتی ہے
عقل جب کبھی نکمی شئے بتاتی ہے
نظر کے سامنے تیری صورت آ جاتی ہے
اب تو باتیں بنانا چھوڑ دے
حلق پھاڑ نعرے لگانا چھوڑ دے
دقیق گمراہی پھیلانا چھوڑ دے
شیطانی نفرت بڑھانا چھوڑ دے



بوندوں کو برسنے دو
میرے خواب بھیگ جانے دو
مجھے افق کے پار جانا ہے
مجھے اپنے پر پھیلانے دو

نفس کی زور آوری ہے

نفس کی زور آوری ہے
صبر کا بند کمزور سا
دروازے کے باہر بلائیں ہیں
اور زندگی ہے شور سا
پسند‘ کا لبادہ اوڑھ کر
نفس حاوی ہو رہا ہے
غیرت و حیا کی ریت پر
قفس حاوی ہو رہا ہے
حقیقت سے ناتہ توڑ کر
عکس حاوی ہو رہا ہے
دم میرا ہے گھٹ رہا
حبس حاوی ہو رہا ہے
نفس کی زور آوری ہے
صبر کا بند کمزور سا
دروازے کے باہر بلائیں ہیں
اور زندگی ہے شور سا
کل جس کو سراب کہتے تھے
آج ایک ٹھوس حقیقت ہے
کل تک جو راحت عام تھی
آج رائج الوقت مصیبت ہے
کل تک جو طلب چاہت تھی
آج وہ ہی سامان عزیت ہے
کل فخر زن تھا پردہ بدن
آج تن سجائی رفاقت ہے
نفس کی زور آوری ہے
صبر کا بند کمزور سا
دروازے کے باہر بلائیں ہیں
اور زندگی ہے شور سا
اظہار کے طریق کو
زنجیر کر کے دیکھ لو
دست آزاد کا سارا پانی
تبخیر کر کے دیکھ لو
ظلم کی کوئی بھی اور
تدبیر کر کے دیکھو لو
ابر رحمت برسے گی
تصویر کر کے دیکھ لو
نفس کی زور آوری ہے
صبر کا بند کمزور سا
دروازے کے باہر بلائیں ہیں
اور زندگی ہے شور سا

نفس کی زور آوری ہے

نفس کی زور آوری ہے
صبر کا بند کمزور سا
دروازے کے باہر بلائیں ہیں
اور زندگی ہے شور سا
پسند‘ کا لبادہ اوڑھ کر
نفس حاوی ہو رہا ہے
غیرت و حیا کی ریت پر
قفس حاوی ہو رہا ہے
حقیقت سے ناتہ توڑ کر
عکس حاوی ہو رہا ہے
دم میرا ہے گھٹ رہا
حبس حاوی ہو رہا ہے
نفس کی زور آوری ہے
صبر کا بند کمزور سا
دروازے کے باہر بلائیں ہیں
اور زندگی ہے شور سا
کل جس کو سراب کہتے تھے
آج ایک ٹھوس حقیقت ہے
کل تک جو راحت عام تھی
آج رائج الوقت مصیبت ہے
کل تک جو طلب چاہت تھی
آج وہ ہی سامان عزیت ہے
کل فخر زن تھا پردہ بدن
آج تن سجائی رفاقت ہے
نفس کی زور آوری ہے
صبر کا بند کمزور سا
دروازے کے باہر بلائیں ہیں
اور زندگی ہے شور سا
اظہار کے طریق کو
زنجیر کر کے دیکھ لو
دست آزاد کا سارا پانی
تبخیر کر کے دیکھ لو
ظلم کی کوئی بھی اور
تدبیر کر کے دیکھو لو
ابر رحمت برسے گی
تصویر کر کے دیکھ لو
نفس کی زور آوری ہے
صبر کا بند کمزور سا
دروازے کے باہر بلائیں ہیں
اور زندگی ہے شور سا

کچھ نرم پاء گزرتے ہیں

کچھ نرم پاء گزرتے ہیں
کچھ خار خار چلتے ہیں



سفرعمر بھر کا رہتا ہے
مسافر اجنبی ہی رہتے ہیں


روٹی، خیمہ اور لباس بدن
تلاش ہر وقت رکھتے ہیں


سراب، چمک، رنگ و بو
دھوکے ہر قدم پہ ملتے ہیں


شکنجوں میں جو پھنس گئے
تاریکیوں میں گرتے ہیں


جواللہ کے در پر جھکیں
بہترین کامیابیاں پاتے ہیں


سحر یہ حساب عجب رہا
سب تیرے گناہ نکلتے ہیں


(سحر آزاد)

Tuesday, June 28, 2011

الفاظ لازم پلٹتے ہیں۔

یہ دنیا ہے یہاں مختلف لوگ ملتے ہیں
کچھ اپنے کچھ بیگانے سے لگتے ہیں


دشت، بیابان، سنگلاخ راہوں میں ڈھونڈا
منزل دکھانے والے ناخدا کہاں رہتے ہیں


خواب ہے حقیقت ہے عجب منظر ہے
آنکھوں پہ پٹیاں قطاروں میں چلتے ہیں


دل میں کچھ‘ زبان پہ کچھ اور رہتا ہے
بعض شخص بڑی مشکل سے کھلتے ہیں


الفاظ کا استعمال زرا احتیاط سے کرو
ہمیشہ یاد رکھنا سحر یہ لازم پلٹتے ہیں

(سحر آزاد)

الفاظ لازم پلٹتے ہیں۔

یہ دنیا ہے یہاں مختلف لوگ ملتے ہیں
کچھ اپنے کچھ بیگانے سے لگتے ہیں


دشت، بیابان، سنگلاخ راہوں میں ڈھونڈا
منزل دکھانے والے ناخدا کہاں رہتے ہیں


خواب ہے حقیقت ہے عجب منظر ہے
آنکھوں پہ پٹیاں قطاروں میں چلتے ہیں


دل میں کچھ‘ زبان پہ کچھ اور رہتا ہے
بعض شخص بڑی مشکل سے کھلتے ہیں


الفاظ کا استعمال زرا احتیاط سے کرو
ہمیشہ یاد رکھنا سحر یہ لازم پلٹتے ہیں

(سحر آزاد)

Sunday, June 26, 2011

الفاظ کو چھوڑ صورت کو جانتا ہے

الفاظ کو چھوڑ صورت کو جانتا ہے
پھر یہ خود کو مسلمان بھی مانتا ہے

پھول اپنی مہکت کا اعلان نہیں کرتا
وہ معطر ہے یہ سارا جہاں جانتا ہے

تریاق کے دھوکے میں ہےکاروبار زہر
زیر لعن طعن ہے جو اس سے روکتا ہے

محمدﷺنہیں کر تے اپنے دین میں تفریق
ہر’وہ‘ غیرہے جو مسلمانوں کو بانٹتا ہے

چھوڑ سحر پھر سے چالو ہو گئے
یہاں کون ہے جو محمدﷺ کو مانتا ہے

اقبال تیری سوچ کے خریدار کدھر گئے؟

اقبال تیری سوچ کے خریدار کدھر گئے؟
گرگس یہاں موجود ہیں خوددار کدھر گئے؟

شیر کی سرزشت ہے شکار کر کے کھانا
شیر کی سی شان والے سردار کدھر گئے؟

مومن کی شان ہے فقیری میں بھی خودار
یہاں سب منگتے ہیں وہ خوددارکدھر گئے؟

یہ دھرتی ہے تیرے حبیبوں کی یا خدا
تیرے ولی وہ زاہد شب بیدار کدھر گئے؟

سحرتیری تلاش کی سمت غلط ہےشاید
اگرسارے بے عقل ہیں سمجھدار کدھر گئے؟

آزمائش میں استقامت ہمیں پسند نہیں ہے

آزمائش میں استقامت ہمیں پسند نہیں ہے
بےشرم ہیں ندامت ہمیں پسند نہیں ہے

مشقت سے کوئی خاص شغف نہیں رہا
نیت سے محنت ہمیں پسند نہیں ہے

مجبور کو آسرا تو دینے کو تیار رہتے ہیں
مجبور سے محبت ہمیں پسند نہیں ہے

ہر مشکل میں خوب شور مچاسکتے ہیں
بچنے کی مشقت ہمیں پسند نہیں ہے

انگلی ہے تو اٹھاتے ہیں خدا کی طرف بھی
رواج سے بغاوت ہمیں پسند نہیں ہے

محمدﷺ ہیں شفیع تو کیسایہ ڈر ہے سحر
شایدمحمدﷺ کی شفاعت ہمیں پسند نہیں ہے

مشکل راہ کا انجام دشوار ہوجاتا ہے

مشکل راہ کا انجام دشوار ہوجاتا ہے
جب کوئی سچا بے اعتبار ہو جاتا ہے

نئے عنوان پر جرح خوب ہوتی ہے
سب حاصل محنت بیکار ہو جاتا ہے

ریل کے انجن کو دجال بنا دیتے ہیں
دیوانہ ابو موسیٰ* زیر تلوار ہو جاتا ہے

ہمیں معلوم نہیں تو سب جھوٹ ہے
سچ جاننے سے پہلے انکار ہو جاتا ہے

ایسی چال چلتے ہیں مال مفت آتا رہے
ان کا منکر یہاں مکار ہو جاتا ہے

تیری سوچوں کا کوئی علاج نہیں سحر
طبیب بن کے آتا ہے بیمار ہو جاتا ہے
(سحر آزاد)


* ابو موسیٰ وہ شخص تھا۔ جس نے امام مسجد کے روپ میں عیسائی راہبوں کا مسلمانوں کو بہکانے کا منصوبہ سن کر سلطان صلاح الدین ایوبی کو اطلاع دی تھی اور سب نے اس کا مزاح اڑایا تھا۔ حوالے کے لیے دیکھیے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی

مجھے پوری بات کی عادت نہیں رہی

مجھے پوری بات کی عادت نہیں رہی
جذبہ موجود ہے شدت نہیں رہی

اہل عرب کا رعب و دبدبہ کدھر گیا
امارت موجود ہے عظمت نہیں رہی

عشرت سے دوستی ہے اکثریت گنوارہے
ان کی علم سے محبت نہیں رہی

تصدیق کرنا فرض ہے اگر کوئی سمجھے
زمانے میں قائم شرافت نہیں رہی

دین و دنیا کے درمیان ملا جی دیواربنے رہو
اب آپ سےسحر کی عداوت نہیں رہی

اور کتنے معصوم تیری چال پر مرنے دیں گے

اور کتنے معصوم تیری چال پر مرنے دیں گے
تیری عزت کریں گے نہ کسی کو کرنے دیں گے

بے نقاب تیرے مکروہ چہرے کا ہر رخ کرنا ہے
کچرا نسیاں میں پھینک کرتیری لاش کو سڑنے دیں گے

شیطان کا ساتھی ہے تو نفرت سے بنا تیرا خمیر
تجھ کو تیری لگائی آگ میں ہی جلنے دیں گے

ہر بچے کو اسکول میں تعلم مفت ملے گئی
اوزار چھڑائیں گے اور ان کو پڑھنے دیں گے

اس شہر میں روشنی کبھی کم نہ پڑئے سحر
یوں سینچ کرمحبت کے افکار کو پلنے دیں گے

نیا ضابطہ اخلاق۔ آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔

اصول و ضوابط کا خوف ہے خدا کی فکر نہیں
ہم اتنے سمجھدار ہوں اپنی عمر نہیں

آؤ موقع دیتے ہیں سوال کا ایک بار
پھر بدل دیں ناصحوں کو جن کا اثر نہیں

ہمیں ہی اپنے ملک کا احساس کرنا ہے
رہبر جہاں سے اُگ جائیں ایسا شجر نہیں

آنکھ، کان بند کر کے ہم ’ان‘ کی مانتے ہیں
ہم جیسا دنیا میں کوئی ایک شہر نہیں

اپنے فرائض دوسروں پر ڈال دیں گے سحر
آنکھوں کو بند کرلینا کوئی عام ہنر نہیں

وہ محبت نہیں ہوتی

جس میں عزت نہ ہو وہ محبت نہیں ہوتی
فقط صورت سے کبھی چاہت نہیں ہوتی

دین سے نکل کر جو دیکھیں نا محرم کو
ان کی قبر میں کبھی راحت نہیں ہوتی

یہ ایسا جال ہے کہ مردود کر دےمومن کو
شیطانی جال پھیلتےکوئی آہٹ نہیں ہوتی

دل کی دھرتی ہے محرم کے لیے مختص
اس سے بڑھ کر کوئی امانت نہیں ہوتی

بلا جھجک کہو سحر تیری زمہ داری آگاہی ہے
آسان تو کوئی بھی بیاں صداقت نہیں ہوتی

جو معلم خر ہے اور رہبر خنزیر

جو معلم خر ہے اور رہبر خنزیر
کچھ تو مکبر ہے اپنی تقصیر

روشنی گل ہے اندھیر چار سو
حقانیت کی بس رہ گئی تصویر

دولت ہے ضامن شرف نسل کی
ایمان کی اہمیت ہے بس حقیر

چہرے پر سجائے ملمع کے نور
صورت کےاعلیٰ سیرت کے فقیر

سحر تیری بات رائیگاں جائے گی
سمجھ نہ جاتے جو ہوتی تاثیر

غصہ ہر صورت حرام ہوا

ہر تحریر کا عنوان الگ ہے
چہرہ الگ انسان الگ ہے

کبھی جو تھا کوچہ اسلام
وہ ملگ الگ مکاں الگ ہے

غصہ ہر صورت حرام ہوا
نا مانے جو شیطان الگ ہے

محبت آپ(ص) سے اور ہم زلف زمانہ
مقیم الگ مہمان الگ ہے

دین کے گاہک آج خوار ہیں
ملاء کی دوکان الگ ہے

نفرت سے منزل نہیں ملتی
گھر الگ مکان الگ ہے

سحرکو کون سا روگ لگا ہے
دکھی الگ پریشان الگ ہے

اے دل تیرا، وے خدا دا ویڑا

اے دل تیرا، وے خدا دا ویڑا
دھک دھک سینے کردا جیڑا
یہ جو تمہارے سینے کے اندر دھک دھکر کرتا ہوں دل ہے یہ تمہارے اللہ کا گھر ہے۔

اس ویڑے کنوں واڑ لیتا ای
دنیا نوں کیوں مہمان کیتا ادی
اس دل میں خدا کے علاوہ دوسری خواہشات کو جگہ دے کر تم ن ے بہت برا کیا ہے۔

دنیا وچوں تو کی کھٹ لیں گا
کیویں،قبر داامتحان تو دیں گا
یہ دنیاوی خواہشات کبھی بھی کوئی بھی فائدہ نہیں دیتیں۔صرف امحتان قبر کے سوالات کی لسٹ ہی لمبی ہوتی ہے۔

گھر اودے نوں دوکاں بنا کہ
شیطان نوں دینی مہمان بنا کہ
اللہ تعالیٰ کے نام پر اپنے کاروبار چمکانے والو، شیطان کے ہتھکنڈے دین کا نام لے کر استعمال کرنے والو۔

کی کھٹ لیتا۔ کی کھٹ لیں گا
کنی دیر تک توں اولے ریں گا
آخر تم کتنی دیر تک اپنی مکروہ صورتیں چھپا سکوں گے۔ اور اختتام میں تمہیں اس کا کچھ فائدہ نہیں ہو گا۔

جان تیری جد خلق نوں آندی
آہ نکلدی نا ساں وے جاندی
اور جب زندگی تمام ہو نے والی ہوتی ہے، تب ان کے گلوں میں سانسیں اٹک جاتی ہے۔

ترلے اودوں دے کم نہ آنے
دل کی گلاں او سب جانے
اس وقت کوئی فریب کام نہیں آتا۔ وہ تو نیتوں کا حال جانے والا ہے۔

کیویں تو اس تو سب لوکائیں گا
رنگے ہاتھوں پھڑیا جائیں گا
اپنی کرتوتیں اس سے کیسے چھپاؤ گے۔سب کے پاس تو سب ثواب، سب گواہ موجود ہیں۔

ہن وی وقت اے منگ لے معافی
سمیٹ کے نفرت۔ کر لئے تلافی
ابھی بھی دیر نہیں ہوئی۔ معافی کا آپشن کھلا ہے۔ معاشرے میں پھیلائی ہوئی اپنی نفرت سمیٹ کر اپنے کیے نقصان کی تلافی کر کے فلاح پاجاؤ۔

چھڈ دے دنیا، نام لے اودا
جیڑا دلاں دے اندر رہندا
اپنے سارے غلط دھندھے چھوڑ کر اس اللہ کا نام لو جو تم سے سب سے زیادہ محبت کرنے والا ہے۔

نام پاک اودا فیر کرم کریندا
شئہ رنگ تو جو نیڑے ریندا
پھر دیکھنااس کا کرم کیسے تمہیں دنیا اور دولت دونوں سے ملا مال کر دیتا ہے۔ اپنی عقل پر بھروسہ تو کرتے ہو۔ ایک بار اس پر بھی بھروسہ کر کے دیکھو جو تم سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہے۔

(سحر آزاد)

عاجزانہ سوال۔

سیرئس لوگوں سے پیشگی معذرت کے ساتھ۔

جوآپ سے پاؤں دبواتی ہے
اور کھانا بھی پکواتی ہے

خرچے کا تقاضہ کر کے
آپ کا دماغ روز کھاتی ہے

شاپنگ کا جھانسا دے کر
جیب کا وزن کم کرواتی ہے

فون پر لمبی کالیں کر کے
آپ کو قرض دار بنواتی ہے

وہ آفت ہے ، مصیبت ہے
پر بیوی کیوں کہلاتی ہے؟

ہم

ہم آزاد خیال ہوں یا بنیاد پرست
جنونی ہوں یا امن پسند
لبرل ہوں یا شدت پسند

ہم سب کے اندر
ہاں، ہم سب کے اندر
ایک ملا چھپ کر رہتا ہے
جو اکثر قاضی بھی بن جاتا ہے
مذہب، گھر کی کھیتی لگنے لگتا ہے
اورفتوی سازی ہنر اپنا کہلاتا ہے
فروغ نفرت شغل بن جاتا ہے
حبس دھوئیں سے گھٹ کر
دل مر جاتا ہے

صرف انا باقی رہتی ہے
اورنفس باقی رہتا ہے

اور شیطان مسکراتا ہے
خوب قہقہے لگاتا ہے
جب ایک انسان
کے ہاتھوں
دوسرا انسان
قتل ہو جاتا ہے
پھر شیطان مسکراتا ہے

ظلمت سمیٹ کر رات چلی جاتی ہے

ظلمت سمیٹ کر رات چلی جاتی ہے
روشنی اوڑھ کر صبح مسکراتی ہے

نام خدا لے کر پرندے چہچہاتے ہیں
محمدﷺ کی محبت کے نغمے گنگناتے ہیں

ساری رات جو درخت آلودگی ہٹاتے ہیں
صبح ہوتے ہی نسیم سحر چلاتے ہیں

صبح خیز جب صبح کی سیر کو جاتا ہے
مسرتوں اور مسکراہٹوں والا دن پاتا ہے

سحر تم بھی صبح کو اٹھ کر سیر کو نکلا کرو
دیکھ کر اس کی نشانیاں تصبیحات پڑھا کرو

جو تیری چاہت ہو!

تمام شاعروں سے دلی معذرت کے ساتھ
جو تیری چاہت ہو!



بڑی زور آور ہے

یہ عمر ارتقاء پیارے
زمانے سے جہاں چھپ کر
نازک سہانے جذبوں کے
کئی خواب بنتے ہیں


تب
ہلکی سی چوٹ بھی
غموں کی رات لگتی ہے
تھوڑی سی مسرت دل کو
خوشی کی برسات لگتی ہے
جو کوئی روٹھ جائے تو
زندگی سراب لگتی ہے
نا معلوم غم جنم لیتے ہیں
روشنی خواب لگتی ہے


تو
تم خود کو
زرا سمیٹ کر رکھنا
بہت قیمتی ہو تم
بکھر مت جانا
مشکل جو آئے تو
کھل کرمسکراناتم


کہ
ایسے دور میں تم پر
موڑ ایسے بھی آئیں گے
تم کسی سے ملو گے
نظارے مسکرائیں گے
خوشیاں آندھی کی مانند
ہاتھ تم تک بڑھائیں گی


اس وقت
اتنا سوچنا دل سے
کسی کی دولہن بن کر تمہیں
گھر کا چاند بننا ہے
یا
گرل فرینڈ ہو کر
ٹائم پاس بننا ہے۔

مشکل

سردیوں کی میٹھی دھوپ
گرمیوں کی تھنڈی ہوا
بہار کی پہلی بارش
تمہارے بنا
کیوں
خزاں سی اداس لگتی ہے
(سحر آزاد)

الفاظ کی بولی پر دل نیلام نہیں کرتے

الفاظ کی بولی پر دل نیلام نہیں کرتے
خاص جذبات کو کبھی عام نہیں کرتے

مال وحسن سے ہمیں نہ آزماؤ دوستوں
دل اپنا ہم کسی کے نام نہیں کرتے

سودا وفا میں عزت کے بدلے عزت ملےاگر
اس سے کھرا ہم کوئی دام نہیں کرتے

جب سے ملے ہیں وہ زندگی الجھ گئی ہے
آغاز ’شغل‘ کرتے ہیں پر تمام نہیں کرتے

خیالوں میں بھی وقت کا خیال کیا کرو
آپ جب یاد آتے ہو ہم کام نہیں کرتے

ریشمی جال میں کیوں جھکڑے گئے سحر
کہنے کو تم کسی کو بدنام نہیں کرتے
(سحر آزاد)

کہاایک گمنام نے اس سے

کہاایک گمنام نے اس سے

میری نگاہوں میں عزت ہے
میرے دل میں شرافت ہے
میری آنکھوں سے جھلکتا
ہر جذبہ حقیقت ہے

میرے دل پر جوتم
ہاتھ اپنا کبھی رکھ دو
میری ہر دھڑکن کو پاؤ گے
فقط اس ورد میں غلطاں
مجھے تم سے محبت ہے
مجھے تم سے محبت ہے

یہ یقین ہے مجھ کو
جورخ تابناک سے تم
نقاب اپنا الٹ ڈالو
ماہتاب کا سارا نور
گہنا جائے گا
آفتاب کی ساری تابناکی
منہ چھپائے گا
ان گئیسوں کی ظلمت پہ
بادل بھی رنگ اترائے گی
قسمت مسکرائے گی
جنت زمین پہ آ کر
یہ شہادت سنائے گئی
مجھے تم سے محبت ہے
مجھے تم سے محبت ہے

اتنا سننا تھا کہ اس نے
اپنے دل میں زرا جھانکا
گردن سیدھی اٹھا کر
ایسے ہوئی گویا

شیطانی جال تان کر تم بدبخت
کیوں مجھے گناہگار کرتے ہو
لالچ چند خوشیوں کا دے کر
میری آخرت کیوں برباد کرتے ہو

جسے تم محبت کہتے ہو
وہ ہوس ہے نجاست ہے
جسے تم جنت کہتے ہو
تاریکی ہے، غلاظت ہے
تخت سراء میں گرا ڈالے
یہ ایسی ایک مصیبت ہے

کیا تم جانتے ہو
یہ میرا نقاب میرا پردہ
جو ہٹانے کو کہتے ہو
میرے بھائی کی غیرت ہے۔
میرے بابا کی عزت ہے۔
میرے آنکھیں یہ گیسؤ،
میرے دل کا ہر ایک جذبہ
میرے مجازی خدا کی امانت ہے

شر اپنا مجھ سے زرا دور ہی رکھنا
اپنی گندی آنکھوں سے کہیں اور ہی تکنا
پیشانی چوم کر ماں نے
بارہا جو مجھ پر پھونکا تھا
میری زات کو ہر دم
اس قرآن کی حفاظت ہے
(سحرآزاد)

تمہیں کیوں نہ خبر ہوئی۔

تمہیں کیوں نہ خبر ہوئی۔

پالا تھا نازوں سے
محبتوں سے تراشا تھا
تھام کر انگلیاں
چلنا بھی سکھایا تھا
غیرت و عزت کی امین کو
شرم وحیا سے سجا کر
مومنہ بنایا تھا۔

مومنہ بنا کر
حالات سے ملایا تھا
رنگِ زندگی دکھایا تھا
اس کی ہر اک جیت پہ
تیرا دل مسکرایا تھا
اس کی ہر ہار نے
تم کو تڑپایا تھا

پھر
ایک دن
دنیا کے بازار میں
عفلتوں کی راہ گزر
تیری آنکھیں کندہ کر گئی
اور
پتھر کا شیطان ایک
جواہر و زر کا ڈھیر لیے
شہزادے کا بھیس بنا کر
تیری حویلی نقب لگا گیا
تیری شہزادی کو چرا کر
جہیز کے مطالبوں کے
گنبد میں بند کر دیا

پھر بھی تم خاموش رہے
اسے نہ اپنے گھر لائے
نا کوئی دلاسا دیا
جب وہ گھر چھوڑ آئی
پھر اسی کے ساتھ بھیج دیا
اور ہوس کے شیطان نے
تیری مومنہ کو جلا دیا
(سحر آزاد)

خیال منظر

--------------------------------------------------------------------------------

خیال منظر

اؤدی رنگ نحیف سا
سرخی مائل خفیف سا
سنہری حاشیہ رقیق سا
ڈھلتے سورج کے قریب سا
وہ جو منظر ہے حسین سا

پردہ بصارت پر
عکس ابھار لاتا ہے
کسی کی یاد دلا‘ دلا کر
یہ کمینہ دل مسکراتا ہے
مجسم ہو کر اک خیال
کئی شورشیں مچاتا ہے
اور
اک سوال اٹھاتا ہے

افق کے پار۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم ہو؟

(سحر آزاد)

کوئی تو میرا فسانہ سنے۔

سیریس لوگوں سے پیشگی معذرت کے ساتھ۔

کوئی تو میرا فسانہ سنے۔

کوئی تو میرا فسانہ سنے
میرے غموں کا ترانہ سنے

آج کل ‘ دن بیزار، شامیں اداس لگتی ہیں
ہم کو‘ بوجھل کیفیت ہی راس لگتی ہے

گھر کی ایسی حالت ہوئی ہے۔
برطرف یہاں سے راحت ہوئی ہے
چاروں طرف ایسے‘ ویرانی ہے چھائی
خوشی یہاں سے رخصت ہوئی ہے

نکلیں جو گھر سے’ انجان دیکھتے ہیں
ملیں دوستوں سے ’پریشان دیکھتے ہیں
حالت ہے ایسی مجنوں ہیں شاید
مسکراتے ہیں جب ’ مہربان دیکھتے ہیں
بال ہیں بکھرے تو لبادہ پریشان ہے
سرہاتے ہیں جب’ قدردان دیکھتے ہیں

جو ڈھیر لگا ہے وہ ناکامی ہے
جو بکھرا پڑا ہے وہ ناکامی ہے
تیری شرٹ پہ جو داغ لگا ہے
نہیں مٹ رہا ہے وہ ناکامی ہے

ادھر تو دیکھو دشمن جاں آتے ہیں
سر میں خوشی کے نغمے گنگناتے ہیں۔
چہرہ ہے روشن تو لبادہ ہے ستھرا
پتہ نہیں کہاں سے وہ انہیں دھلاتے ہیں
کچن تو ان کا ہر دم چمکتا ہے
پتہ نہیں آج کل کیا کیا کھاتے ہیں
کل تک تو الو کی طرح گھومتے تھے
شام ہوتے ہیں اب بھاگ جاتے ہیں
اچھا تو ان کی شادی ہو گئی ہے
اسی لیے یہ ہر بات پر مسکراتے ہیں

اب
سلیقے سے گھر جو سمیٹ کر
اچھی طرح سے صفائی کرے
ہمیں ایسی
ایسی گھر چمکانے والی چاہیے

سرف ایکسل سے زیادہ
سفیدی جو لائے
ہمیں ایسی
کپڑے دھونے والی چاہیے۔

مصالحوں کاحساب جانتی ہو
بریانی کے دموں کی کتاب جانتی ہو
ہمیں ایسی
مزیدار کھیر پکانے والی چاہیے

اور بس
نئے کے جیسے
شیشے سے زیادہ
برتن چمکانے والی چاہیے۔

اپنی مظلوم نظم یہ صدا لگاتی ہے
نہ کہوں تو کاموں سے جان جاتی ہے
خود ہی سمجھئے خود ہی جانیے
ہم کو تو کہنے میں شرم سی آتی ہے۔

کبھی تعلقات بڑھانے کو دل چاہتا ہے

کبھی اور پھر یہاں پر اضافی ہیں۔ انہیں پڑھنے ضروری نہیں۔





کبھی تعلقات بڑھانے کو دل چاہتا ہے
پھر دنیا سے اوجھل ہونے کو دل چاہتا ہے





کبھی ہجوم میں منزل کا تعین کرتا ہوں
پھر ویران جنگل میں کھونے کو دل چاہتا ہے





کبھی کیچڑ سے خوب گندھ مچاؤں
پھر زرہ زرہ دھونے کو دل چاہتا ہے





کبھی دور تک انجان راستوں پر چلتا رہوں
پھر لمبی تان کر سونے کو دل چاہتا ہے





کبھی گلا پھاڑ پھاڑ کے قہقہے خوب لگاؤں
پھر دھاڑیں مار کے رونے کو دل چاہتا ہے





کبھی منبر پر چڑھ کر خوب شور مچاؤں
پھردیر تک خاموش رہنے کو دل چاہتا ہے





کبھی تقلید کے دسیوں سال گزاروں
پھر ملا مار کے مرنے کو دل چاہتا ہے





کبھی ساری رونقیں کم پڑ جاتی ہیں
پھر سحر تنہا کونے کو دل چاہتا ہے





(سحر آزاد)

لبوں کا قفل کھولو

لبوں کا قفل کھولو
لفظوں کو آزاد کرو
کرو خواہش عیاں کوئی
رشتوں پر اعتبار کرو
خواب قید نہیں رکھتے
منظر کو زبان دے دو
کرو تصور منزل پیدا
پھر حقیقت بنتا دیکھو
حال دل لکھ گیا سحر
دل کو نظر بناؤ‘ پڑھو
(سحر آزاد)

بے وجہ مسکرانا بھی ایک بات ہے

بے وجہ مسکرانا بھی ایک بات ہے
بے وجہ منہ پھیلانا بھی ایک بات ہے





ساری حیاتی کی خدمت کے بعد
صاحب روٹھ جانا بھی ایک بات ہے





زندگی ہے کہ ہے سفر اذیت نا تمام
مسکرا کہ چلنا بھی ایک بات ہے





بہت ہی عجیب ہے یہ تخلیق کاری
مگر چپ رہنا بھی ایک بات ہے





ہر رکاوٹ ہٹادینا ہے عمل مومن
حد سے نہ بڑھنا بھی ایک بات ہے





ہم نے کہا جناب کوئی ’’شغل فرمائیے‘‘
بولے‘ مفتے کا کھانا بھی ایک بات ہے





سحر کیوں کار بیکار سے ہو لپٹے جاتے
پتھر سے سر ٹکرانا بھی ایک بات ہے


(سحر آزاد)

دشت مردار ہوں اور بحر آباد بھی ہوں

دشت مردار ہوں اور بحر آباد بھی ہوں
میں قاضی ہوں اور دست فریاد بھی ہوں



میرے ہاتھ میں میرا ہی گربیان ہے
میں جوابدہ ہوں اور طالب داد بھی ہوں




مشکل بہت ہے مجھے دل سے لگانا
میں ناقص ہوں اور مراد بھی ہوں




میں الجھ گیا تاریخ کے صفحات میں
میں ہی تھا پہلے اور میں بعد بھی ہوں




کمزور نہ جانو اہل ستم دشمنوں
میں واحد بھی ہوں اور تعداد بھی ہوں




میرے ہم عصر مجھے ’مولوی‘ کہتے ہیں
میں فتنہ بھی ہوں اور جہاد بھی ہوں




مجھے روکنا تیرے بس میں نہیں سحر
میں غیر ہوں اور تیرا ہم زاد بھی ہوں

پچھلے برس کی گرمیوں میں

پچھلے برس کی گرمیوں میں




وہ ایک حسین شام تھی


جو دوستوں کے نام تھی


یہ اپنی عادت عام تھی


نئی بات زیر کلام تھی




ایک ساتھی گویا ہوا


محبت سامان زندگی ہے


محب کسی کا ہو جانا


مقدر کی تابندگی ہے


محبوب کا مل جانا


تشکر مقام بندگی ہے


جس نے محبت کی نہیں


اس کے لیے شرمندگی ہے




دوست میرے تم محترم


دل کا دروازہ کھول دو


بہت گول گھما چکے ہو


اب اور نہ کوئی جھول دو


بدنام ہو جاؤ بدنام کر دو


نام دونوں تم ’رول‘ دو


جو تمہارے دل میں ہے


وہ راز ہم کو بول دو




ہم ہیں تیرے ساتھی سجن


ہم سے کوئی پردہ نہیں


محبت کرنے والا یوں


کبھی کسی سے ڈرتا نہیں


اتنے حسین چہرے ہیں


تم کو کوئی روکتا نہیں


کوئی ٹیکنکل خرابی ہے


کیوں ان پر تو مرتا نہیں




مسکرا کر ہم نے سنا


طفل جیسے بول رہا ہو


شیطان اسے بہکا چکا ہے


راز اس کا کھول رہا ہو


پیتل کے سب باٹ ترازو


سونا ان سے تول رہا ہو


کٹ چکی پتنگ کی مانند


ایمان اس کا ڈول رہا ہو




ہاتھ کندھے پر رکھا


نرم نرم بولتے گئے


تقدیر، مقدر،امر ربی


بھید سارے کھولتے گئے




نہیں سنا نہیں جانا


وہ ڈسا تھا فلم کا


نہیں مانا کیا بہنانہ


وہ ڈسا تھا قلم کا


شیطانی قلب وسوسے


وہ ڈسا تھا ’بالم‘ کا


مسجد، مدرسہ،مزار


وہ ڈسا تھا علم کا




ناراضگی میں اس نے راستہ لیا


اور جاتے ہوئے مجھ کو کہا


چھپاتے ہو بس تم کوئی مومن نہیں


آخر چھپا کر تم کو انعام کیا ملا؟

خود جتاتا ہے خدا وہ احسان تم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ہو

خود جتاتا ہے خدا وہ احسان تم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ہو
گناہ گاروں کی بخشش کا سامان تم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ہو




پتھر کھا کر بھی ہونٹوں پر دعا لانے والا
دنیا زرہ زرہ ظلمت ہے امان تم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ہو




تاریخ میں افکار کے فنکار بہت ہیں
میری امید کے ہر پہلو کا جہان تم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ہو




میدان حشر کی گرمی جلا ڈالے گی
پناہ ملے جائے جدھر وہ مکان تم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ہو



سحر آزاد

خود جتاتا ہے خدا وہ احسان تم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ہو

خود جتاتا ہے خدا وہ احسان تم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ہو
گناہ گاروں کی بخشش کا سامان تم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ہو




پتھر کھا کر بھی ہونٹوں پر دعا لانے والا
دنیا زرہ زرہ ظلمت ہے امان تم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ہو




تاریخ میں افکار کے فنکار بہت ہیں
میری امید کے ہر پہلو کا جہان تم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ہو




میدان حشر کی گرمی جلا ڈالے گی
پناہ ملے جائے جدھر وہ مکان تم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ہو



سحر آزاد

رائٹر، ادیب، شاعر کا شر

رائٹر، ادیب، شاعر کا شر




’’اور جب تم حیا نہ کرو تو جو مرضی کرو‘‘ حدیث رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)



کاروبار غلاظت کے جو تاجر ہیں
مسلمان کہلواتے ہیں مگر فاجر ہیں




جمع پونجی میں سجائے گندگی فقط
رہنما افکار ان کے مغربی کافر ہیں




مسلم کی سوچ کو یکسر بدل ڈالا
چالاکی میں شیاطین ان کے چاکر ہیں




عشق کہتے، محبت گنتے ، پیار پکاریں
گناہ کبیرہ کے نام بدلنے کے ماہر ہیں




زمہ داریوں سے پہلو تہی کرتے ہیں
یہ جو کہلاتے رائٹر ادیب شاعر ہیں

عبد السلام کی شادی کیوں نہیں ہوئی۔

عبد السلام کی شادی کیوں نہیں ہوئی۔




شام کے سات بجتے ہی میں حسب معمول طبق پہنچا کاونر پر کھانے کا آرڈر دے کر اپنی مخصوص میز پر بیٹھ کر کھانے کا انتظار کرنے لگا۔


تب میں نے اسے پہلی مرتبہ دیکھا۔ سر کا کافی حصہ خالی ہو چکا تھا۔ چہرے پر شیو نہ کرنے کی وجہ سے سفید اور سیاہ کانٹے سے اگھے ہوئے لگ رہے تھے۔ کھلے گھیرے کی بوسیدہ سی شلوار قیمض پہن رکھی تھی۔ سارا دن دھوپ میں رہنے کی وجہ سے چہرے کی جلد کا رنگ جھلس گیا تھا اور آنکھوں پر بہت موٹے شیشوں کی عینک لگی ہوئی تھی۔


اور مرے مرے قدموں سے چلتا ہوا میز کے پاس آیا اور السلام علیکم کہہ کر میرے پاس بیٹھ گیا۔


میں نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ اس کے سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھا۔


"کیا حال ہے بھائی جان؟"


"الحمد اللہ! بہت کرم ہے اللہ کا۔ جس بھی حال میں رکھے۔" اس کی چال کی طرح اس کی آواز بھی بہت مری مری سی تھی۔
اتنی دیر میں میرا کھانا آ گیا۔


میں نے اسے بھی کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ مگراس نے شکریہ کہہ کر انکار کر دیا۔

چونکہ مجھے اس کے سامنے اکیلے کھاتے ہوئے اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ اس لیے میں کھانا سامنے رکھے اس کا کھانا کا انتظا ر کرنے لگا۔


اس نے جب یہ دیکھا تو بولا۔ "آپ کھانا شروع کریں۔ ابھی دو منٹ میں میرا بھی کھانا آ جائے گا۔"


"دو منٹ کی تو بات ہے میں صبر کر لیتا ہوں۔ " میرے کہنے پر وہ مسکرا دیا۔


"برا نہ مناؤ تو ایک بات پوچھوں؟" اس نے تھوڑا سا جھجھکتے ہوئے سوال کیا۔


"جی ضرور! میں خواہ مخواہ برا نہیں مانتا۔" میں نے جواب دیا۔


تو اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔"کیا آپ کی شادی ہو چکی ہے؟"


"اس طرح کے سوال پر کون برا مناتا ہے بھائی جان۔ بہرحال میری ابھی شادی نہیں ہوئی۔ ابھی میں صرف ۲۶ سال کا ہوں۔ آپ سنائیے آپ کی شادی کب ہوئی تھی اور آپ کے کتنے بچے ہیں۔" میرے جوابی سوال سے اس کے چہرے پر جیسے ایک تاریک سایہ سا چھا گیا۔


"میری ابھی تک شادی نہیں ہوئی۔" اس نے جیسے شرمندہ شرمندہ سے لہجے میں کہا۔


"کیوں؟" حیرت کی شدت سے میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا


"لمبی بات ہے دوست۔ یہ کرو گے میری یہ داستان سن کر؟" اس نے ایک غمزدہ سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ اتنی دیر میں اس کا کھانا بھی آ گیا تھا۔


ہم دونوں نے بالکل خاموشی سے کھانا کھایا۔ نا وہ میری طرف دیکھ رہا تھا اور نہ میں ہی اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ بس دونوں نظریں جھکائے کھانا کھا رہے تھے۔


کھانے کے بعد چائے بھی آ گئی مگر ہم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف نہیں دیکھا۔


ابھی بھی ہم دونوں کے درمیاں ایک عجیب سا سکوت طاری تھا۔
اچانک اس کی آواز نے سکوت توڑا۔


"تم ناراض تو نہیں ہو گئے۔" اس نے پوچھا۔


"نہیں بھائی۔ آئی ایم سوری۔ اگر میری وجہ سے آپ کو دکھ پہنچا ہو تو۔" میں نے جواب دیا۔
" نہیں' نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ٹھیک ہے میں بتاتا ہوں کہ آخر ایسا کیوں ہوا۔" اس نے کہا


"میرا نام عبد السلام ہے۔ میرا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ میں چوبیس سال کا تھا جب میں کویت آ گیا تھا۔ میں ایک غریب خاندان کا پہلا فرد تھا جو کویت آیا تھا۔ میرا پورا گاؤں اور خاص طور پر میرا محلہ بہت غریب تھا۔ میں جب یہاں آیا تو پہلے چھ مہینے تو بہت ہی مشکل سے گزرے۔ اس کے بعد مجھے ایک آئل کمپنی میں پائپ صاف کرنے کا کام مل گیا۔ مہینے میں 26دن کام کرنا ہوتا تھا۔ روزانہ کے چار دینار مل جاتے تھے۔ کھانا اور رہائش بھی کمپنی کی طرف سے تھی۔ اس لیے میں بہت خوش تھا۔ میں ہر مہینے گھر والوں کو پیسے بھیجتا تھا۔


جو کہ ہمارے گھر والوں کے لیے ایک بڑی رقم ہوتی تھی۔ جوں جوں ہمارے گھر والوں کے پاس پیسے آتے گئے۔ انہوں نے پہلے محلے والوں سے ملنا جلنا ختم کر دیا اور پھر رشتہ داروں سے۔ ان کو تمام لوگ لالچی اور ان کے پیسوں پر نظر رکھنے والے لگنے لگے۔


لیکن پھر بھی انہوں نے ڈھونڈ ڈھانڈ کر اپنی مرضی کے مطابق میرے لیے ایک لڑکی پسند کر ہی لی۔ لیکن میں اس وقت جوان تھا اور دوسرے ساتھی لڑکوں کی طرح آزاد رہنا چاہتا تھا۔ اس لیے میں نے گھر والوں کو دو ٹوک الفاظ میں منع کر دیا کہ پانچ سال تک میری شادی کے متعلق سوچا بھی نہ جائے ورنہ میں ناراض ہو جاؤں گا اور کبھی بھی واپس نہیں آؤں گا۔


گھر میں سے کوئی بھی اپنی نئی شان و شوکت نہیں کھونا چاہتا تھا۔ گھر سے فوراً میری ہر بات ماننے کے پہلے خط اور بعد میں ٹیلی فون پر ٹیلی فون آنے لگے۔ میں اپنی اس جیت پر بہت خوش ہو گیا۔اور ہر معاملے میں اپنی مرضی کرنے لگا۔


دو سال بعد میں نے اپنے چھوٹے بھائی کو بھی یہاں بلا کر اسے سیٹ کروا دیا۔ چھوٹا چونکہ پائپ فٹنگ کا کام سیکھ کر آیا تھا۔ اس لیے آتے ہی اسے ایک اچھی تنخواہ والی نوکری مل گئی۔ اور اس نے بھی گھر والوں کو پیسے بھیجنے شروع کر دیے۔


اس کے گھر پیسے بھیجنے سے میری وہ اہمیت نہیں رہی جو کہ پہلے تھی۔ میں بہت حیران تھا کہ اب گھر والے میری بات اتنی توجہ سے کیوں نہیں سنتے۔


اب میری عمر 28 سال ہو گئی تھی اور چھوٹے کی عمر 27 سال ہو گئی تھی اس نے گھروالوں سے اپنی شادی پر اصرار کرنا شروع کردیا کہ اسکی شادی کر دیں۔ اگر بھائی نے لیٹ شادی کرنی ہے تو اس کی بعد میں کر دیجیے گا۔ میں نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی اور اس کی شادی کے لیے اپنے ماں باپ کو پریشرائز کرنا شروع کردیا۔ اور آخری حل کے طور پر میں نے پیسے بھجوانے بند کر دیے اور چھوٹے کو بھی پیسے بھجوانے سے روک دیا۔


آخر کار گھر والےمیرں ضد کے سامنے ہار گئے اور چھوٹے کی شادی اس کی پسند کی جگہ پر بہت دھوم دھام سے شادی کر دی گئی۔ سارے گاؤں والے اور رشتہ دار طرح طرح کی باتیں بنا رہے تھے کہ بڑے کے ہوتے چھوٹے کی شادی کیوں کر دی۔


چھوٹے نے چونکہ چاہ مہینے کی چھٹی لی تھی اور میں نے صرف ایک ماہ کی اس لیے میں اسے چھوڑ کر واپس آگیا۔ مجھے یہاں پہنچے تقریباً دو مہینے ہی ہوتے تھے کہ گھر میں کسی بات پر جھگڑا ہوا اور چھوٹا اپنی بیوی کو لے کر الگ ہو گیا۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ گھر پر پھر سے میری حکومت قائم ہو جائے گی اور میں پھر سے اپنی مرضی کیا کروں گا۔


چھوٹے نے علیحدہ ہونے کی وجہ سے اپنی چھٹیوں سے پہلے ہی پہنچ کر رپورٹ کر دی اور اب وہ مجھ سے کھنچا کھنچا رہنے لگا تھا۔ اور آخر کار مجھ سے الگ ہو کر کسی اور ساتھ رہنے لگا۔


مزید ایک سال بعد میری مہلت کے پانچ سال ختم ہوگئے۔ گھر والوں نے کہا کہ پیسے بھیجو تاکہ تمہاری اور تمہارے ساتھ تمہاری اکلوتی بہن کی بھی شادی کر دی جائے۔ پیسوں کے لیے گھر والوں نے چھوٹے کو خط لکھا۔ جس نے ایک سال میں ایک لاکھ روپیہ کر کے دینے کی حامی بھر لی اور میری شادی مزید ایک سال کے لیے تاخیر کا شکار ہو گئی۔


ابھی چھ مہینے ہی گزرے تھے کہ لڑکے والی نے چھوٹی کی شادی کے اصرار کرنا شروع کر دیا اور ابھی میرے پاس اتنی رقم اکٹھی نہیں ہوئی تھی۔ کہ ہم دونوں کی شادی ہو سکتی تو میں نے مشورہ دیا کہ یا تو ان کو انتطار کے لیے کہیں یا پھر یہ رشتہ توڑ دیں۔ اور یہی حال چھوٹے کا تھا۔ لیکن یہ بہن اس کی بہت لاڈلی تھی اور رشتہ بھی بہت اچھا تھا۔ اس لیے اس نے رشتہ توڑنے سے انکار کرتے ہوئے قرض لے کر شادی کے لیے مناسب رقم دینے کا انتظام کر ہی لیا۔


میں جو ہمیشہ اپنی واہ واہ ہی سنا کرتا تھا اس بارخود سے زیادہ کسی کی بڑھائی کیسے سن سکتا تھا۔ اس لیے میں نے بھی تمام جمع شدہ رقم گھر بھجوا دی۔ بہن کی شادی بھی بہت دھوم دھام سے کر دی گئی۔


اب نہ ہی گھر والوں کے پاس میری شادی کے پیسے تھے اور نہ میرے پاس۔ الٹا چھوٹے کو ہرانے کےلیے میں نے کافی قرض بھی اٹھا لیا تھا۔ اس لیے فل الحال شادی کا کوئی امکان نہیں تھا۔ شادی کے بعد میں پھر سے واپس آ کر کام میں جھٹ گیا۔


اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ میں یہاں بیمار ہو گیا۔ اور چھ مہینے تک الصباح ہسپتال میں داخل رہا۔ علاج کا خرچہ تو حکومت برداشت کرتی رہی مگر اس عرصے میں میری نوکری بھی چھٹ گئی اور قرض بھی مزید بڑھ گیا۔ اس دوران چھوٹے نے میرا خیال رکھنا شروع کر دیا۔ مگر اس کی بھی نئی نئی فیملی اور خرچے تھے اس لیے وہ کہاں تھا دو گھر سنھبال سکتا تھا۔


صحت یاب ہونے کے بعد بھی میں اس قابل نہیں تھا کہ محنت کا کوئی کام کر سکتا۔ ایک کویتی ڈاکٹر نے مجھ پر ترس کھا کر اپنے گھر میں خادم رکھ لیا۔ اور تم جانتے ہی ہو کہ خادم کی تنخواہ کتنی ہوتی ہے۔ رفتہ رفتہ پانچ سال گزر گئے اور انہیں پانچ سالوں میں' میں نے کم کھا کر اور کم اچھا پہن کر اپنا سارا قرضہ اتار دیا ہے۔


اب میں 35 سال کا ہو گیا تھا اور جلد از جلد شادی کرنا چاہتا تھا۔ مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا یک بعد دیگرے ایک ہی سال میں میرے ماں باپ اس دنیا سے گزر گئے۔ ماں باپ کے گزرنے کے بعد چھوٹے نے گھر بیچ کر جو قرض میرے بیماری کی وجہ سے گھر والوں نے لیا تھا وہ ادا کیا اور اس کے بعد جو تھوڑی سی رقم بچ گئی مولوی صاحب سے اس کے ہم تینوں کے لیے حصے کروا دیے۔


اب میں 40 سال کا ہو چکا ہوں۔ ماں باپ کے مرنے کے بعد اب کوئی میرا پرسان حال نہیں ہے سب اپنی اپنی زندگیوں میں مست ہیں اور کوئی پوچھتا بھی نہیں ہے کہ میاں کس حال میں ہو زندہ ہو یا مر گئے۔" اس کی آنکھوں میں نمی صاف محسوس کی جاسکتی تھی اور میں چاہنے کے باوجود بھی اسے ایک لفظ تسلی کا نہیں کہہ سکا۔


وہ دو منٹ خاموشی سے میری طرف دیکھتا رہا اور پھر خاموشی سے اٹھ کر طبق کے دروازے سے باہر نکل گیا۔


ختم شد

چھوٹی سی غلط فہمی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ہمارے زندگی میں اکثر اوقات ایسا وقت آتا ہے جب وقت بالکل ٹھہرا سا لگتا ہے۔ ایک ہی جیسی روٹین، صبح اٹھنا، ناشتہ کرنا آفس جانا واپس آ کر کھانا تیار کرکے کھانا اور نیوز دیکھ کر کوئی کتاب پڑھنے کے بعد سو جانا اور اگلے دن پھر سے وہی روٹین ۔ ۔ ۔ ۔

تو بالکل ایسا ہی ان دنوں میرے ساتھ ہو رہا تھا۔ میر ا قیام وطن سے ہزاروں میل دور "صحرا کے تاج" دبئی میں تھا۔ جب کہ پاکستان میں موجود اکثر دوستوں کا خیال تھا کہ دبئی جیسے جدید، بیدار اور زندگی سے بھر پور ملک میں بوریت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔وہ ان کو اندازہ ہو بھی کیسے سکتا تھا اورپہلے مجھے بھی نہیں پتہ تھا کہ کہ اس باہر سے رنگین نظر آنے والی زندگی کی دلکشی کا عکس بہت جلد دھندلا ہو جاتا ہے اور پھر ہر خوبصورت بالکل ایک پوسٹر کی طرح لگنے لگتی ہے اور تب اندازہ ہوتا ہے کہ گھر کا آرام اور سکون کتنا انمول تھا۔

"اگر لکھ چکے ہو تو تو زرا منے کو دیکھ لو۔ کب سے رو رہا ہے۔" کچن سےآتی بیگم کی آواز نے لکھنے کے موڈ کا پھر سے ستیاناس ہو گیا۔ اور میں جو پچھلے کافی عرصے سے کوشش کر رہا تھا کہ کم از کم پوری زندگی میں ایک تحریر ہی لکھ لوں۔ دل میں اپنی شادی کے وقت کو کوستا ہوا اپنے صاحبزادے کے پاس آ کر اسے گھورنے لگا۔

اور وہ محترم جو پچھلے کافی دیر سے رُو رُو کر اپنا سُر سدھارنے کی کوشش کر رہے تھے۔ گھورنے جانے پر ایک لمحے کے لیے تیوری چڑھائی اور پھر جیسے میری بے بسی دیکھ کر مسکرا دئیے۔ اس وقت اتنا غصہ مجھے اس کی ماں پر نہیں آ رہا تھا جتنا اس محترم پر آیا۔
"خیر بچو تھوڑا بڑھا ہو جاؤ پھر دیکھو گا تمہیں۔ " یہ کہا نہیں صرف دماغ میں ہی سوچا۔ اس لیے کہ ان محترمہ کے کان بہت بڑے اور تیز ہیں۔ جن کے مجازی خدا ہونے کا مجھ کو شرف حاصل ہے۔ اور اپنے لاڈلے کے بارے میں ایسے خیالات جان کر میرا شام کا کھانا بھی بند کیا جا سکتا تھا۔ اس لیے فل الحال خود ہی سوچ سوچ کر خوش ہوا جا رہا تھا۔

لیکن منے کو شاید میری خوشی کچھ زیادہ پسند نہیں آئی تھی۔ اس لیے مجھ کو گیلا کرتے ہوئے' پھر سے لاؤڈ اسپیکر آن کر دیا۔

"تم سے ایک چھوٹا سا بچہ بھی سنبھالا جاتا اور دعویٰ کرتے ہو کہ 500کارکنان کو روز سنبھالتا ہوں۔قسم سے بہت ہی نکمے انسان ہو تم۔" بیگم نے کچن سے نکل کرجلدی سے ٹیبل سجاتے ہوئے حسب معمول مجھے "نکما" قرار دیا۔اور آ کر اپنے لعل کو لے کر اس کو نیپی کرنے کے بعد اس کے جھولے میں لٹا دیا۔

اس دوران میں نے ٹی وی آن کر لیا تھا۔ اور جیو نیوز پر خبریں سن رہا تھا۔ کیپٹل ٹاک میں حامد میر سیاستدانوں کا دنگل کروا رہا تھا۔ اور گفتگو ایسے موڑ کی طرف جا رہی تھی کہ میں دنیا و جہاں سے غافل ہو کر اسے سن رہا تھا۔ کہ پھر سے بیگم نے طنزیہ انداز میں حکم نامہ جاری کیا۔
"ابھی میں ٹی وی میں جا کر اعلان نہیں کرنے والی کہ کھانا ہونے پر دوبارہ گرم کر کے نہیں دوں گی۔ شرافت اسی میں ہے کہ آ کر کھانا کھا لو۔ ورنہ" اور اس ورنہ کی حقیقت میں بہت اچھی طرح جانتا تھا اس لیے حامد میر پر ایک ترستی نظر ڈال کر میں کھانے کی طرف متوجہ ہو گیا۔

میز پر پہنچ کر پہلے لقمے کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا۔ کہ میرا ہاتھ پر ایک بھاری سا ہاتھ پڑا۔ "برخودار کھانے سےپہلے بس گھر والوں کا میز پر موجود ہونا ضروری ہوتا شادی کے بعد سے تم اخلاق بھولتے جا رہے ہو اور بیٹی تم بھی اس کو نہیں سیکھاتی۔" میز پر ابھی ابھی آ کر بیٹھے ابا جان نے اپنا فرض پورا کیا (یعنی مجھے ڈانٹا اور اپنی پیاری بہو۔ جو خیر سے ان کی بھانجی بھی ہے کہ طرف متوجہ ہوئے۔

"جی ابا جی میں تو بتاتی ہی رہتی ہوں مگر یہ پتا نہیں آج کل کن خیالوں میں گم رہتے ہیں۔" محترمہ نے ایسے انداز میں کہا جیسے ابا جی نے مسئلہ اسرائیل وفلسطین کے بارے رپورٹ طلب کی ہو۔

خیر آج کل میری یہی روٹین تھی یعنی سارا دن دفتر میں شیخ صاحب اور مزدروں کے ہاتھ میں فٹبال بن کر دن کو سیاہ کرتا اورگھر آکر ابا جی اور بیگم کے ہاتھوں میں لڑکھتا رہتا۔
لیکن اسی دوران میری زندگی میں ایک ایسا موڑ آیا کہ جس نے میری زندگی بدل کر رکھ دی۔

مس شاہدہ ایک نیولی بیوہ نے ہماری کمپنی میں پروڈکشن انچارج کی خالی ویکینسی کے لیے اپنی درخواست جمع کروائی خوبصورت گورا رنگ، اسٹائلش لباس اور بولنے کا انداز انتہائی مہذب تھا۔ عمر اس کی 32سال تھی مگر بمشکل 24،25کی لگتی تھی۔ میں نے ان کی سی۔وی شارٹ لسٹ کر کے پروڈکشن مینجر کو بجھوائی تو محترم جو ہر وقت مصروف رہنے کا رونا رہتے تھے نے فوراً (شاید صرف تصویر) دیکھ کر ہی۔ میرے آفس میں مس شاہدہ کو ملاقات کا شرف بخشنے کا فیصلہ کیا اور ٹھیک پانچ منٹ بعد وہ میرے آفس میں موجود تھے۔ وہ حسب توقع صرف دس منٹ کے انٹرویو کے بعد مس شاہدہ کا تقرر کر لیا گیا۔

اب یہ تقرر میری زندگی پر کیسے اثر انداز ہوا۔ ہوا یوں کہ ایک روز مس شاہدہ آفس سے لیٹ ہو گئیں۔ اور میں جو اپنی مرضی سے آدھا گھنٹہ بغیر کام، آرام کر کے ہی گھر جایا کرتا تھا۔ تو میں نے ان کے گھر تک ان کو لفٹ دے دی۔ قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ ابا جی بھی اپنی گاڑی میری زوجہ محترمہ کو ماہانہ شاپنگ کروا کے لا رہے تھے۔انہوں نے مجھے دیکھ لیا۔


میں جو پورا سارا مس شاہدہ کی خوبصورت خوبصورت باتوں کو انجوائے کرکے اب خوشی خوشی گھر میں داخل ہوا تو کیا دیکھا۔ اباجی اور بیگم دونوں کا چہرہ ناراضی سے تھوڑا پھولا پھولا لگ رہا تھا۔ لیکن میں نے دونوں کو زیادہ توجہ نہیں دی۔ اور بہت اچھے موڈ کے ساتھ جا کر منے کو کاٹ سے اٹھایا اور اس کے ساتھ کھیلنے لگا۔ یہ دیکھ کر تو ان دونوں کی حالت اور بھی سوا ہوگی۔
"آؤ کھانا کھا لو۔" ابا جی نے بہت سرد آواز میں پکارا۔

"مجھے بھوک نہیں ہے آپ کھا لیں میں نے دوپہر میں تھوڑا زیادہ کھا لیا تھا۔"

"ہاں میاں! اب تمہیں گھر کا کھانا برا لگنے لگا ہے۔ اب تو تم باہر ہی کھایا کرو گے۔"
ابا جی کے اس انداز میں کہنے کے باوجود میں نے کوئی خاص توجہ نہیں دی اور میں تھک گیا ہوں کہتا ہوا اپنے روم میں جا کر سو گیا۔

صبح اٹھ کر دیکھا تو نا ہی کپڑے اپنی جگہ پر پڑے تھے اور نہ ہو چائے میز پر موجود تھی۔ لیکن بہت عرصہ صرف ابا جی کے ساتھ رہنے کی وجہ سے اپنے کپڑے وغیرے کی جگہ کو صرف بیس منٹ ڈھونڈ کر کل والے کپڑے نکالے اور باتھ روم میں گھس گیا۔ نہانے کے بعد ٹیبل پر ناشتہ بھی نادارد تھا مگر میں کچھ بھی کہے بغیر آفس کے لیے نکل گیا۔اور وہاں پر کریم الدین کے ہاتھوں بنے ہوئے لنج منج سے رول کھا کر اللہ کا شکر ادا کیا۔

سوئے اتفاق آج پھر مس شاہدہ لیٹ ہو گئی تھیں۔ اور آج تو لفٹ کی آفر بھی مجھے نہیں کرنا پڑی بس نکلنے سے چند منٹ پہلے ہی انہوں نے انتہائی مہذب انداز میں لفٹ کی درخواست کی تھی۔

مس شاہدہ کو اس کے گھر کے گیٹ پر ڈراپ کیا تو اس نے اصرار کرنا شروع کر دیا کہ میں کم از کم اس کے گھر سے چائے ضرور پی کر جاؤں مگر میں نے اسے گھریلو مصروفیات کا بتا کر ایسا کرنے سے روک دیا۔ اور سیدھا گھر آیا۔

گھر پہنچا تو سب کچھ معمول کے مطابق لگ رہا تھا۔(جو کہ خاصی حیرت کی بات ھی۔)بس ابا جی اور بیگم مجھے عجیب سے نظروں سے گھور رہے تھے۔

"آج پھر بھوک نہیں ہو گی تمہیں۔ اس لیے میں نے بیٹی سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ تمہارے لیے کچھ نا بنائے۔" ابا جی نے بہت ہی چھبتے اور طنزیہ انداز میں کہا۔

تو میں ٹھٹک گیا کہ ضرور کوئی بات ہوئی خیر میں سوچتے ہوئے اپنے کمرے میں آ گیا۔ کہ آخر ہوا کیا ہے کل سے ویسے بھی کوئی بات میرے تحت الشعور پر بری طرح سے ہٹ کر رہی تھی کہ اچانک ہی مجھے یاد آیا کہ شاہدہ کو لفٹ دیتے ہوئے جو گاڑی میرے ساتھ اشارے پر رکی تھی وہ ابا جان کی ہی گاڑی تھی۔ لیکن اس وقت میں مس شاہدہ کے ساتھ باتوں میں ایسا مصروف تھا کہ میں نے زیادہ توجہ نہیں دی تھی۔

"اچھا تو مجھ پر شک کیا جا رہا ہے۔" میں نے بڑبڑاتے ہوئے کہا اور دل ہی دل میں ان لوگوں کی غلط فہمی ہر ہنستا ہوا انہیں مزید تنگ کرنے کا منصوبہ بنانے لگا۔

اب میں نے جان بوجھ کر تاخیر سے گھر آنا شروع کر دیا۔ بیگم نے اب مجھ سے بات کرنا بند کر دیا اور میرے گھر پہنچتے ہی اباجان منے کو اٹھا لیا کرتے تھے۔ دونوں میں سے کوئی بھی میرے ساتھ بات نہیں کرتا تھا۔ اور کھانا پینا تو آجکل میں نے ویسے ہی باہر کر لیا تھا۔ میں ان دوںوں کے چہرے دیکھتا تو مجھے بہت مزا آتا دل چاہتا تھا کہ ان کو تھوڑا اور ستاؤں آخر میری زندگی بھی تو انہوں نے وبال بنائی ہوئی تھی اب خود ہی اپنی ہی پیدا کردا پریشانی کو بھگت رہے ہیں۔
مگر جو دی آیکشن ان کی طرف سے آیا میں کم از کم اس کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ ہوایوں کے میں نے گھر کے گیٹ پر پہنچ کر حسب معمول بیل دی مگر گیٹ نہیں کھلا۔ میں گاڑی سے نیچے اترا اور دروازے کی بیل بجا دی۔ منور خان اپنی بڑی بڑی مونچھوں کے ساتھ نمودار ہو کر مجھے دیکھنے لگا۔

"خان صاحب۔ کیا آپ سونے کا شغل فرما رہے تھے۔ کہ ہارن دینے پر بھی دروازہ نہیں کھولا۔" میں نے انتہائی فدوینا انداز میں پوچھا۔ کیونکہ یہ خان صاحب بھی والد صاحب کی پسندیدہ ہستیوں میں شامل تھے۔

"بڑے صاحب نے کہا کہ آج سے آپ اس گھر میں نہیں گھس سکتے۔" خان صاحب نے بالکل ایسی نظر مجھ پر ڈالی جیسے وہ آرمی میں رہ کر ہندوستانی فوجیوں پر ڈالا کرتے تھے۔
"مگر کیوں۔ ۔ ۔ ۔ ؟"

میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
"میں نہیں جانتا صاحب۔ اب یہاں سے جاؤ مجھے بڑے صاحب کو جا کر بتانا بھی ہے کہ آپ آئے تھے۔" خانصاب نے نا صرف کہا بلکہ جلدی سے اندر گھس کر چھوٹا دروازہ بھی بند کر لیا۔ اور میرا ہی پینٹ کردہ گیٹ میرا منہ چڑھا رہا تھا۔

میں گاڑی میں بیٹھا اور سیدھا اپنے سدا بہار کنوارے دوست مستنصر مہنگا مسیح کےفلیٹ پر پہنچ گیا۔ اس کے دروازہ کھولتے ہی میں سیدھا اس کے کچن میں گھسا اور جو بھی ملا اٹھا کر میز پر لے آیا اور کھانے لگا۔ مستنصر میرے سامنے میز پر بیٹھا میرا منہ دیکھ رہا تھا۔ جب میں نے کھانا کھا لیا تو وہ میرے لیے پانی لے آیا۔
اور بولا "ہاں بتاؤ کس بات پر گھر سے لڑ کر آئے ہو۔"

"تمہارا اندازہ غلط ہے میں لڑ کر نہیں آیا بلکہ مجھے گھر سے نکال دیا گیا ہے" میں نے کہا اور اس کے ساتھ اسے اپنی پوری روئیداد سنا ڈالی۔

"جتنا میں تمہارے ابا جی کو جانتا ہوں۔ اب اپنے آپ کو بے گھر ہی سمجھو۔" پوری بات سن کر مستنصر ختمی لہجے میں بولا۔

"یار تم ان سے بات کرو کہ اور بتاؤ میں تو صرف مزاق کر رہا تھا۔" میں نے اپنی لہجے میں انتہائی لجاہت سمو کر کہا۔

اور وہ میری بات سے ایسے اچھل پڑا جیسے میں نے اسے شیر میں منہ میں ہاتھ ڈالنے کے لیے کہہ دیا ہو۔

"جتنی دیر یہاں رہنا ہے رہ سکتےہیں، کھانا، کپڑے میری ہر شئے استعمال کر سکتے ہو۔ مگر آج کے بعد دوبارہ تم مجھے یہ بات نہیں کہو گے۔ ورنہ ابھی اٹھو اور چلتے پھرتے نظر آؤ۔" مستنصر نے تیز تیز لہجے میں اپنی بات مکمل کی اور انگلی اٹھا کر دروازے کی طرح اشارہ بھی کر دیا۔
"اوکے۔میرے بھائی اوکے۔ نہیں کہوں گا۔ اب آرام سے بیٹھو۔ اور کوئی ترکیب بتاؤ کہ کیا کریں۔" میں نے کھڑے ہو کر اسے بازو سے پکڑ کر اپنے پاس بٹھاتے ہوئے کہا۔

"فون کرو، نہیں وہ تمہارا فون سنیں گے ہی نہیں، ایسا کرو، انہیں میسج کر دو۔" مستنصر نے کہنے پر میں نے اپنا موبائیل اٹھایا اور بیگم کے نمبر پر یہ لکھ کر میسج کر دیا کہ "کہ یہ کیا ہے۔ ابا جی نے مجھے گھر میں کیوں گھسنے نہیں دیا۔" ٹھیک پانچ منٹ بعد ابا جی کا فون آ گیا۔
"کیوں برخودار، جہاں سے کھانا کھا کر آتے ہو۔ وہاں رہنے کو جگہ نہیں ملی۔" اباجی نے بہت طنزیہ انداز میں کہا۔

"پر ابا جی اپنے گھر کے ہوتے میں ہوٹل میں کیوں رہوں۔" میں نے جواب دیا۔تو آگے سے پھنکارتی ہوئی آواز میں کہا گیا کہ
"میں جانتا ہوں جس ہوٹل سے تم روز کھانا کھا کر آتے تھے۔ بہت معصوم بن رہے ہو۔ مجھے اس لڑکی کا نام اور گھر کا پتہ بھی معلوم ہو گیا ہے۔ اور سنو کل سے آفس جانے کی زحمت بھی مت کرنا۔ وہاں سے تمہیں نکال دیا گیا ہے۔ "

"کس لڑکی کی بات کر رہے ہیں آپ۔ کیوں مجھ پر جھوٹے الزام لگائے جا رہے ہیں۔" میرا کہنا ہی تھا کہ دوسری طرف سے شعلے اگلے گئے۔"ہاں۔ اب اس لڑکی کے لیے باپ کو جھوٹا بھی کہو گے۔ "
"نہیں میرا کہنے کا یہ مقصد ہر گز نہیں تھا میں تو کہہ رہا تھا کہ اب کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔" میرا لہجہ بلکل ممنانے والا ہو گیا تھا۔


"واہ، واہ۔ جھوٹا تو کہہ دیا تھا اب بیوقوف بھی بنا دیا۔ وہ بیٹا ہو تو تم جیسا۔" کہنے کے ساتھ ہی سلسلہ منقطع ہو گیا۔ اور مستنصر جو ساتھ بیٹھا ساری بات سن رہا تھا نے بڑے ہی مغموم انداز میں میری طرف دیکھ کر کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگا میاں۔ میں تمہارے لیے صرف دعا ہی کر سکتا ہوں۔

کچھ ویسے ہی میری جان پر بن آئی تھی اوپر سے مستنصر کی بات سن کر بے اختیار کھڑکی کھول کر باہر کودنےکو جی چاہا۔ مگر میں کنڑول کر گیا اور سوچنے لگا کہ اگر اپنے اباجی کی بات ہوتی تو خیر کسی نہ کسی طریقے منا ہی لیتا مگر اب بات اپنی بیوی کے سگے سسر صاحب کو منانے کی ہے ۔ اور میرے اباجی کو تو اپنی بہو کے علاوہ اور کوئی نظر بھی نہیں آتا۔
آخر بہت سوچنے کے بعد یہی حال سامنے آیا کہ امریکن پالیسی آزمائی جائے اور اپنی بات منوانے کے لیے سعودی عرب یعنی اباجی کے قریبی دوست کرنل احمد صاحب سے مدد مانگی جائے۔اس خیال کے ساتھ جان میں جان آ گئی کیوں کہ محترم کرنل صاحب کی نظر میں' میں کافی شریف آدمی تھا۔اور وہ مجھے جینٹل مین کہہ کر پکارتے تھے۔

اگلے ہی روز میں سیدھا کرنل صاحب کے گھر پہنچا مگر میرے ستارے شاید سٹرایک پرتھے۔ کرنل صاحب کچھ دنوں کے لیے رہنے اپنی بیٹی کے پاس دوسرے شہر گئے ہوئے تھے۔ وہاں سے مایوس ہوکر واپس مستنصر کےفلیٹ پر ابھی پہنچا ہی تھا کہ آفس سے فون آ گیا کہ فوراً پہنچوں۔
آفس پہنچتے ہی جی۔ایم صاحب کے پاس حاضری کا آرڈر ہو گیا۔

"کل رات کو شیخ صاحب کے پاس تمہارے والد صاحب کا فون آیا تھا وہ کہہ رہے تھے کہ تمہیں نوکری سے فارغ کر دیا جائے۔ مگر میں نے شیخ صاحب کو اگلے آڈٹ کی توجیہہ دے کر تمہاری ٹرمینیشن فل الحال رکوا دی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ تمہارے کیا گھریلو مسائل ہیں۔ مگر مجھے دو ہفتے بعد ہونے والا آڈٹ میں ہر حال میں کامیاب چاہیے۔ اس لیے میں نے تمہارے ورکرز کی تعداد بھی بڑھا دی ہے۔ کل سے پروڈکشن ڈیپارٹمنٹ کے لیے نئے اپوائنٹ ہونے والے مسٹر ارشد اور مس شاہدہ تمہارے ساتھ کام کریں گئی۔ وہ نئے ہیں اس لیے ابھی تم ان دونوں کو آسانی سے ٹرینڈ کر سکتے ہو۔"

جی ایم صاحب کی ترش لہجے میں کی گئی یہ بات سن پر بے اختیار میرے چہرے پر مسکراہٹ اور میری مسکراہٹ کو دیکھ کر جی ایم صاحب کے ماتھے پر شکنیں آگئیں۔اور وہ سخت لہجے میں بولے۔

"کیا میں آپ کو جوک سنا رہا ہوں۔"

"سوری سر! انشااللہ میں آ پ کو مایوس نہیں کروں گا اور دو نئے اسسٹنٹ دینے کے لیے بہت بہت شکریہ۔" میں نے بمشکل قسمت کی اس ستم ظریفی کو ہضم کیا اور سنجیدہ چہرہ بنا کر جی۔ایم صاحب سے وداع لی اور اپنے آفس میں آ گیا۔

آفس میں آ کر دیکھا تو اپنےمیز کے بالکل سامنے لگے دو اور اکھٹے لگے ہوئے میز دیکھ کر اسکول کی یاد آ گئی۔ پیون سے پوچھنے پر یہ دماغ کس نے لڑایا ہے تو جواب ملا۔ "سر! میں نے تو بالکل عمومی طریقے سے میز سیٹ کیے تھے۔ مگر ارشد صاحب کا کہنا ہے کہ یہ بالکل ان پروفیشنل لگتا تھا اس لیے انہوں نے اپنی مرضی سے میز سیٹ کروائے ہیں۔"

"اچھا لیکن محترم اب کہاں ہیں۔اور مس شاہدہ بھی کیوں موجود نہیں ہیں۔"
"ارشد صاحب انہیں لے کر کارکنان سے ملانے لے کر گئے ہیں۔"پیون نے منہ بناتے ہوئے جواب دیا۔
"اچھا۔ ان دونوں کو بولو کے فوراً دفتر میں پہنچیں۔ اور شام کو جانے سے پہلے پھر سے سیٹنگ صحیح کر دینا۔" میں نے پیون کو کہا تواس کے چہرے پر خوشی چھا گئی۔ شاید ارشد اس کی سیٹنگ کو چلینج کر کے اس کی نظر میں برا آدمی بن چکا تھا۔

پیون کے جانے کے بعد میں اپنی سیٹ پر بیٹھااور سامنے پڑی فائل دیکھنے لگا۔ تقریبا دس منٹ بعد ارشد اور شاہدہ کی واپسی ہوئی۔ میں نے دونوں کو بیھٹنے کے لیے کہا۔ اور مختصر انداز میں ان دونوں کی جاب ڈیوٹیز بتائی اور تمام کارکنان کی فائل اسٹڈی کرنے کا مشورہ دیا۔

ان دونوں کے جانے کے بعد میں نے بیگم کے نمبر پر ایک اور مسیج کر دیا کہ "کم ازکم وجہ اس رویے کی وجہ تو بتائیں۔" فوراً ہی جواب آیا کہ"میں تمہاری کوئی بات نہیں سننا چاہتی اب جو بھی کریں گے ابا جی ہی کریں گے۔ لہذا اگر تمہیں کوئی بات کرنی ہے تو ان سے ہی کرو۔"

مسیج پڑھ کر میں نے سامنے دیکھا تو شاہدہ فائل کھول کر پڑھ رہی تھی۔ اور ارشد عجیب و غریب منہ بنائے فائل کے صفحات پلٹ رہا تھا۔ ہراک صفحہ پلٹنے کے بعد وہ ایک نظر شاہدہ کو ضرور دیکھتا تھا۔ میں چند منٹ تو یہ دیکھتا رہا پھر میں وہاں سے اٹھا جی۔ایم کو بتا کر سیدھا مستنصر کے فلیٹ پر آ گیا۔

یہاں پر عجیب ہی منظر نظر آ رہا تھا۔ مستنصر لاؤنج میں ایک صندوق کھولے پتہ نہیں کیا تلاش کر رہا تھا۔ میرے کمرے میں داخل ہونے پر اس نے ایک نظر دیکھ کر اپنی توجہ پھر صندوق کی طرف کر لی۔

"کیا کوئی خزانہ ڈھونڈ رہے ہو۔" میں نے پوچھا۔
تو جواب میں اس نے صوفے پر پڑا آئینہ اٹھا کر مجھے پکڑا دیا اور بولا۔ "اس کو غور سے دیکھو۔ " میں نے آئینہ ہاتھ میں لے کر کہا "کیا دیکھوں یار۔ بہت اچھا لگتا ہوں۔ تم جانتے ہی ہو۔" میں نے نا سمجھ آنے والے انداز میں کہا۔

"اندھے بھائی۔ اگر تم اپنے کپڑے نہیں دیکھ سکتے تو کم از کم منہ تو دیکھ لو۔ ایک دم فٹے منہ معلوم ہو رہا ہے۔" مستنصر نے بھنائے ہوئے انداز میں کہا۔

"مگر اس بات کا صندوق سے کیا تعلق۔" میں نے حیران ہو کر کہا۔

"دو سال پرانی شیونگ کٹ ڈھونڈ رہا تھا صندوق میں کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ شیخ صاحب کی کمپنی میں کام کر کر کے اب نائی کو شیو کے لیے پیسے دینا "گناہ" قرار دے چکے ہو۔" مستنصر کا لہجہ ہنوز بھنایا ہوا تھا۔

"دیکھو یار! جب اللہ نے ہاتھ پاؤں پورے دیے ہیں تو اپنا کام اگر خود کر کے پیسے بچا لیے جائیں تو ہرج ہے۔" میں نے صفائی دینے والے انداز میں کہا۔

"پتا ہے پاتا ہے۔ رہنے دو' یہ لو مل گئی کٹ جاؤ شیو بناؤ اور نہا بھی لینا۔ اور اپنا والٹ ادھر کرو۔ تمہارے آنے تک تمہارے لیے کپڑے بھی لے آتا ہوں۔ شکر ہے کہ میں کپڑے کا سائز تم سے مخلتف ہے۔" مستنصر نے نا صرف کہا بلکہ آگے بڑھ کر خود پرس نکالا اور بازار چلا گیا۔
اور میں سیدھا باتھ روم چلا گیا۔

اگلے روز میں تھوڑا تاخیر سے آفس پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ارشد مسلسل شاہدہ کا دماغ کھا رہا ہے اور وہ بیچاری کام پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ اور بار بار اسے بھی کام پر توجہ دلانے کی کوشش کر رہی ہے۔

میرا کمرے میں داخل ہونے پر دونوں خاموش ہو گئے اور ایسا تاثر دینے لگے جیسے پتہ نہیں کتنی توجہ سے کام ہو رہا تھا۔ میں نے دونوں کو باری باری اپنےمیز پر بلایا تاکہ ٹاسک کے متعلقہ جامع ہدایات دے سکوں۔ ابھی میں نے ارشد سے فارغ ہو کر شاہدہ کو بلایا ہی تھا کہ دروازہ کھلا اور ابا جان کی آمد ہو گئی۔

"اوہو۔ برخوادر بہت مصروف معلوم ہوتے ہو۔ " اباجی کی آواز سن کر میں جو مگن انداز میں شاہدہ کو سمجھا رہا تھا نے اوپر دیکھا اور میرے ہاتھوں کے طوطے ہلاک ہو کر گر گئے۔
ایک مرتبہ پھر اباجی نے ہم دونوں کو اکھٹا دیکھا تھا۔ اور اس وقت ان کا سرخ چہرہ بتا رہا تھا کہ شاید آج میری زندگی کا آخری دن ہے۔ اباجی آگے بڑے اور مجھے دیکھتے ہوئے بولے "تم آج گھر آؤ گے تمہارا فیصلہ تو میں وہیں کروں گا۔ "اسی وقت شاہد اندرداخل ہو ا تھا۔

ابا جی نے ایک نظر اس پر ڈالی اور شاہدہ کی طرف رُخ کر کے بولے۔" لڑکی یہ تو بیوقوف ہے مگر کیا تمہاری عقل اور حیاء بالکل ہی ختم ہو گئی ہے کہ اس جیسے شادی شدہ آدمی سے پینگیں بڑھا رہی ہو۔"

یہ سن کر دو منٹ کے لیے تو شاہدہ ایسے ہو گئی جیسے اسے سمجھ نہ آ رہی ہو کہ اس پر کیا الزام لگایا جا رہا ہے۔اور ارشد بھی حیرت سے بالکل گنگ سا نظر آنے لگا۔
اباجی کہ کر مڑے اور دروازے سے باہر نکلنے لگے میں ٹھیک اس وقت ارشد نے آگے بڑھ کر ان کا راستہ روک لیا اور بولا۔

"پلیز! اس بات کو میرے سامنے ہی کلیئر کیا جائے۔ میں مس شاہدہ کو بہت اچھی طرح سے جان چکا ہوں۔ اور میں کبھی بھی ان کے کردار کے بارے میں ایسی بات نہیں سن سکتا۔"
"تو پھر پوچھو اس سے یہ روز کس کے ساتھ گھر جاتی ہے اور روز کس کے ساتھ کھانا کھاتی ہے۔" ابا جی نے انتہائی غضیلے لہجے میں کہا۔

"اچھا! تو یہ بات ہے۔ ہاں میں دو دن زرا جلدی چلا گیا تھا اور ان دو دنوں میں سر نے انہیں ڈراپ کیا تھا۔ وگرنہ تو جس روز سے یہ اپائنٹ ہوئیں یا شیخ صاحب نے انہیں گھر چھوڑنے کے لیے میری ڈیوٹی لگائی ہوئی ہے۔" ارشد نے کہا تو اباجی کے چہرے پر بے یقینی کے تاثرات پھیل گئے۔ انہوں نے ارشد کا بازو پکڑا اور سیدھا انہیں لے کر شیخ صاحب کے دفتر لے گئے۔ اور وہاں سے تصدیق کرنے کے بعد ایک منٹ بھی رکے بغیر چلے گئے۔

اسی وقت ارشد نے کہا کہ شاہدہ کو اول روز سے پسند کرتا ہے اور اس سے شادی کرنے کا خواہشمند ہے اور جلد ہی اسے پرپوز کرنے والا تھا۔ اس کی بات سن کر شاہدہ ہکا بکا چہرے کے ساتھ وہاں سے چلی گئی۔اور اگلے ہی دن اس نے اپنا ریزائن بھیج دیا۔ شیخ صاحب نے سیدھا اباجی کو فون کر کے ساری بات بتا دی۔

اباجی اپنی بات پر انتہائی پشیمان تھے۔ وہ فوراً میری بیگم کو ساتھ لیے شاہدہ کے گھر پہنچ گئے۔ شاہدہ نے ان کو بہت عزت سے بٹھایا۔ ابا جی نے بات شروع کرتے ہوئے کہا کہ"بیٹا مجھ سے بہت بھول ہو گئی، میں نے تمہارے بارے میں بہت الٹا سیدھا بولا۔ میں غلطی درگزر کرنے کے قابل تو نہیں ہے مگر اپنا بزرگ سمجھ کر معاف کر دو۔" اباجی نے انتہائی شرمندگی سے شاہدہ سے معافی طلب کی۔ اتنی بات سن کر شاہدہ کے آنسو نکل پڑے ۔

"میں نے اپنی زندگی میں بہت مشکلات دیکھی ہیں چھوٹی تھی تو والد صاحب کا انتقال ہو گیا ماں نے ساری عمر انتہائی محنت کی مجھے پڑھایا اور میری شادی کر دی۔ لیکن میرے نصیب کی خوشیوں کی عمر کبھی بھی زیادہ نہیں رہی۔ یہ آپ کی غلطی نہیں بلکہ یہ میری ہی قسمت کی خرابی ہے۔" شاہدہ بے اختیار رو رہی تھی اور بیگم اسے دلاسا دینے اور چپ کروانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اور میں ایک سائیڈ پر شرمندگی سے بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا۔

"یہ سب میری غلطی ہے۔ مجھے محسوس ہو گیا تھا کہ آپ لوگ مجھ پر شک کر رہے ہیں مجھے پہلے ہی اپنی صفائی دے دینا چاہیے تھی مگر میری غلطی کی وجہ سے ایک پاکباز لڑکی پر اتنا سنگین الزام لگا ہے میں آپ سب سے بہت شرمندہ ہوں۔" میں نے کہا تو ابا جی اور بیگم دونوں کی نظریں میری طرف اٹھی ابا جی کی نظروں میں میرے لییے شدید غصہ نظر آ رہا تھا۔ مگر وہ مجھ سے اس وقت کچھ نہیں بولے اور شاہدہ کی طرف منہ کر کے بولے۔

"بہن پلیز ہمیں معاف کرو دو۔ " بیگم نے اپنے ہاتھوں میں اسے کے ہاتھ لیتے ہوئے آنسوؤں سے کہا تو شاہدہ نے بے اختیار اسے گلے سے لگا لیا۔ دونوں کے آنسو نکل رہے تھے۔ "میں آپ سے بالکل خفا نہیں ہوں۔"

"بیٹا! اگر خفا نہیں ہو تو پلیز اب مزید مت رونا اور اب سے اپنے آپ کو بالکل اکیلا مت سمجھنا۔ ہم آج سے تمہارے ہیں۔" اباجی نے کہا۔ کافی دیر وہاں بیٹھ کر شاہدہ سے معزرت کرتے رہے اور پھر گھر واپس آ گئے۔ گھر واپس آ کر اباجی اور بیگم دونوں مجھ سے بات نہیں کر رہے تھے۔
میرے بات بات معزرت کرنے پر اباجی بولے۔"تمہاری وجہ سے میں نے ایک مظلوم بچی کا دل توڑا ہے میں کبھی بھی اپنے آپ کو معاف نہیں کر پاؤں گا۔ اس وقت میری نظروں سے دفع ہو جاؤ۔"

جب کہ بیگم سے معافی طلب کرنے پر اس نے کہا۔"میں نے آپ پر شک کیا، میری غلطی تھی میں اس پر شرمندہ ہوں مگر جو حرکت آپ نے کی ہے۔ وہ میں کبھی بھی درگزر نہیں کر سکتی۔"
اس دن کے بعد سے میں ساری ساری رات جاگتا رہتا اور سگریٹ پر سگریٹ پھونکتا رہتا۔ مجھے خود سے نفرت محسوس ہو رہی تھی۔ اور آفس میں جب پریشان اور بے حال سے ارشد کو دیکھتا تو میری ٹینشن اور بڑھ جاتی۔ وہ مجھ سے کچھ نہیں کہتا تھا ہاں مگر سامنا ہونے پر عجیب سے نظروں سے دیکھتا تھا اور اس کی نظریں مجھے کافی دیر تک پشیمان رکھتی۔

میں زیادہ دیر تک یہ سب برداشت نہ کر سکا۔ اور میں نے ٹھان لیا جس جس کا میری طرف سے نقصان ہوا ہے۔ میں اسے پورا کروں گا۔اس لیے میں نے ارشد اور شاہدہ کو ایک ہوٹل میں بلایا۔ اور دونوں کو یہ ہی پتہ تھا کہ میں اکیلا بلا رہا ہوں۔

ارشد کی حالت دیکھ کر شاہدہ کی کسک میں اس کے چہرے پر محسوس کر سکتا تھا۔ میں نے دونوں کو سامنے بیٹھایا اور کہا۔"میں تم دونوں کا مجرم ہوں۔ اور میں جانتا ہوں کہ تم دونوں ایک دوسرے کو بہت پسند کرتے ہو۔ اگر تم دونوں نے مجھے معاف کر دیا ہے تو پلیز اپنے آپ کو سزا دینا چھوڑو اور شادی کر لو۔"

"لیکن ارشد صاحب اس لڑکی سے شادی کر لیں گے جن پر کسی غیر مرد سے تعلقات کا الزام لگایا گیا ہو۔" شاہدہ نے کہا۔

شاہدہ کی بات سن کر ارشد کا چہرے دکھ سے برا پڑ گیا۔اور وہ وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔
مگر میں نے ہمت نہیں مانی اور آخر کار دونوں کا منا ہی لیا۔ جب یہ بات اباجی کو پتہ چلی تو شادی کا تمام خرچہ انہوں نے اپنے سر لے لیا شاید اس طرح وہ اپنی غلطی کی تلافی کرنا چاہتے تھے۔اور بیگم نے بھی میری کوششوں اور پریشانی کو دیکھتے ہوئے مجھے معاف کر دیا۔

مگر اباجی کے ناراضگی میرے ساتھ ابھی بھی ایسی ہی تھی۔
شاہدہ کی شادی پر اباجی اور بیگم نے بہت جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا۔
رخصتی کے وقت اباجی کے ساتھ لگے ہوئے شاہدہ نے کہا کہ "پلیز سر کو معاف کر دیں۔ غلطی ساری ان کی نہیں بلکہ سب کی ہے۔ لیکن سب سے زیادہ سزا انہیں مل رہی ہے۔ پلیز انہیں معاف کر دیں"

اباجی نے ایک نظر پاس کھڑے مجھ پر ڈالی اور مجھے اپنے سینے سے لگا لیا۔ اور گویا ہوئے
"چھوٹی چھوٹی غلط فہمیاں ہمیں بہت بڑے بڑے نقصانات کی طرف دھکیل دیتی ہے یہ سبق مجھے آج ملا ہے۔ کبھی کبھی اس سبق کو مت بھولنا۔"

اسی وقت ارشد آگے آ گیا، خوشیاں اس کے چہرے سے پھوٹ رہی تھیں۔ اگے بڑھ کر شوخی سے بولا۔"کیا میری بیگم کے سارے آنسو آپ ہی ختم کر دیں گے ۔ تھوڑا مجھے بھی موقع ملنا چاہیے انہیں رلانے کا۔"

"ایک دفعہ کوشش کر کے دیکھنا اسے رولانے کی پھر اپنا انجام دیکھنا۔" اباجی نے مصنوعی غصے سے کہا۔

اور ارشد نے ان کے آگے ہاتھ جوڑ دیے۔ ارشد کی اس حرکت سے سب سے چہروں پر خوشی پھیل گئی۔

اور میں اپنے رب کا شکر ادا کرنے لگا کہ جس نے ایک چھوٹے سے مزاق سے بننے والی اتنی بڑی مشکل سے مجھ نہ صرف رہائی دی بلکہ اس مقدس رشتے کے پار لگانے میں میرا بھی کرادار رکھا۔



ختم شد

جہیز

جہیز


میں دعوت دوں کا رخسانہ عبد الحسن! کو' کہ وہ اسٹیج پر تشریف لائیں اور آج کے موضوع "جہیز ایک لعنت " پر ہمیں اپنے خیالات سے آگاہ کریں۔

ایک پندرہ سال کی پیاری سی لڑکی شانوں پر اپنے یونیفارم کی پٹی درست کرتے ہوئے اسٹیج پر پہنچی تو اس کے دادا جی نے اپنی سیٹ پر کھڑے ہو کر اس کے لیے تالیاں بجائیں۔

لڑکی نے اپنی استانی سے لکھوائی ہوئی تقرر والا صفحہ سب کی نظریں بچا کر ڈائس پر رکھا اور اپنی تقریر شروع کر دی۔



بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اخبار کے اندرونی صفحات میں
اک چھوٹی سی خبر لگی ہے

چولہے میں تھی خرابی کوئی
اک نئی دلہن جھلس گئی ہے

محترم مہمان خصوصی صاحب، قابل احترام اساتذہ اکرام اور میرے ہم عصر ساتھیوں۔

السلام علیکم!

آج میں جس موضوع پر آپ کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتی ہوں وہ کوئی پوشیدہ یا ڈھکی چھپی برائی نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے، ہمارے شہر، ہمارے گلی محلوں غرض یہ کہ ہمارے گھروں تک میں موجود ہے۔

آئے دن ہم یہ سنتے ہیں کہ فلاں لڑکی کواس کے شوہر نےجہیز کی ڈیمانڈ پوری ہونے پر مارا پیٹا' یا فلاں عورت کو جہیز کی ڈیمانڈ پوری نہ کرے پر طلاق دے دی گئی۔ یہ سب باتیں ہمارے معاشرے میں ہمارے اندر' ہمارے اردگرد ہی تو ہوتی ہیں اور ستم یہ کہ معاشرے کے یہ مکروہ کردار اپنی اس وحشیانہ حوس کی خاطرکسی ماں کو اس کے بچے سے جدا کرنے میں بھی کوئی عار نہیں سمجھتے۔ کتنی ہی نوجوان لڑکیاں جہیزاکٹھا نہ ہو پانے پر شادی کی آس میں گھروں میں زندہ لاشیں بن جاتی ہیں۔ اور حد تو تب ہوتی ہے جب کسی بابل کی گڑیا کو تیل چھڑک یا گیس کھول کر آگ سے راکھ کر دیا جاتا ہے۔

رخسانہ عبد الحسن کی جوش و خروش سے کی جانے والی تقریر پچھلی قطار میں بیٹھے اس کے بوڑھے دادا کو پیچھے' بہت پیچھے' ماضی کی یادوں میں دھکیلے جا رہی تھی۔


ــــــــــــــــــــــ

پاس کھڑے ہو کر گارا بنواتےٹھیکیدار غلام حسین نےدور سے آتے اشرف کو دیکھا تو اس کے ماتھے کے بلوں میں مزید اضافہ ہو گیا۔ وہ زیر تعمیر مکان سے باہر نکل کر راستے میں کھڑا ہو گیا اور اشرف کے قریب آنے کا انتظار کرنے لگا۔

اشرف جونہی دروازے کے پاس پہنچا ٹھیکیدار غلام حسین طنزیہ لہجے میں بولا "چوہداری صاحب آپ کیوں تشریف لے آئے ہمیں حکم کرتے گھر آ کر دیہاڑی دے جاتے۔ بھلا اتنی صبح صبح گیارہ بجے آنے کی کیا ضرورت تھی۔" ٹھیکیدار نے بڑے آرام سے سوا دس بجے کو گیارہ بناتے ہوئے کہا۔

"دیر ہو گئی ٹھیکیدار صاحب۔ آنکھ زرا دیر سے کھلی تھی۔ پھر تیار ہونے ناشتہ بنانے اور کھانے میں وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔ جی آئندہ دیر نہیں ہو گی۔" اشرف نے دبے ہوئےسے لہجے میں کہا۔

"تو اس میں میرا کیا قصور ہے، پیسے کے لیے تو لائن میں سب سے آگے ہوتے ہو۔ تنگ آ گیا ہوں میں تمہاری روز روز کی تاخیر سے" ٹھیکیدار کا پارہ آسمان کو چھونے لگا تھا۔

تمام مزدور اکھٹے ہو گئے مستری اجمل بھی جو ٹھیکیدار کی چیختی آوازیں سن کر ہی وہ سمجھ گیا تھا کہ آج پھر اشرف لیٹ ہو گیا ہے' گو سے نیچے اتر کر ٹھیکیدار کے پاس پہنچا اور اسے سمجھابجھا کر ٹھنڈا کیا کہ اسکی وجہ سے کام لیٹ ہو گا اور سب مزدور فارغ کھڑے رہیں گے۔

"آئندہ اگر سات بجے سے زرا بھی لیٹ ہوئے تو تمہیں آدھی دیہاڑی ملا کرے گی۔" ٹھیکیدار غلام حسین اپنے نتھنوں سے دھواں اڑاتے ہوئے پھر سے گارا بنانے والے مزدور کی طرف چلا گیا۔

"چلو' چلو' سب کام پر لگو۔ شاباش۔ اور اشرف تم مجھ سے دوپہر میں ملنا۔" مستری اجمل تمام مزدوروں کو دوبارہ سے کام پر لگاتے ہوئے دوبارہ "گو" پر چڑھ گیا۔


ــــــــــــــــــــ

پانچ بجتے ہی اشرف سمیت تمام مزدورں نے کام چھوڑا' ہاتھ پاؤں صاف کیے اور ٹھیکیدار سے اپنی اپنی دیہاڑی لینے کے بعد گھروں کی طرف روانہ ہونے لگے تو مستری اجمل نے آواز دے کر اشرف کو اپنے پاس بلایا اور اپنی سائیکل اس کے ہاتھوں میں تھما کر پیدل ہی گھر کی طرف چلنے لگے۔

"دیکھ اشرف! ایسے روز روز لیٹ ہونے پر میں تمہیں نہیں بچا سکتا۔ تو تھوڑا پہلے کیوں نہیں اُٹھ جاتا۔ صبح صبح اس برے بندے کے منہ لگنے سے بچ جائے گا۔" چلتے چلتے مستری اجمل نے اشرف کو نصیحت کرنے والے نرم لہجے میں کہا۔

"چاچا! تم تو جانتے ہی ہو کہ 'بےبے' کہ گزر جانے کے بعد میرے گھر میں میں اکیلا ہی ہوتاہوں۔ سارے کام خود ہی کرنے پڑتے ہیں۔ اس لیے تھوڑا لیٹ ہو جاتا ہوں۔" اشرف نے اپنی صفائی دی۔

"پتر! تیرا مسئلہ میں سمجھ سکتا ہوں۔ پھر ٹھیکیدار کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔ اسے تو صرف اپنے کام سے مطلب ہے۔ تو کوشش کیا کر وقت پر کام پر پہنچو۔" مستری اجمل کہہ کر خاموش ہو گیا۔

پھرکوئی خیال آنے پرچونک کر بولا۔"تم شادی کیوں نہیں کر لیتے؟ ناں اس سے تمہاری تنہائی بھی ختم ہو جائے گی اور تم کام سے بھی نہیں نکالے جاؤ گے۔"

مستری اجمل کی بات سن کر اشرف کا ایک بلند قہقہ سا نکل گیا۔

"چاچا! تو' تو کوئی سگریٹ نشہ بھی نہیں کرتا۔ ہاں آج گرمی زیادہ تھی نا۔ اس لیے ایسی بات کر رہا ہے۔ بھلا ایسا کون آدمی ہو گا جو مجھ جیسے ان پڑھ اور بے ہنر بندے کا نکاح اپنی لڑکی کے ساتھ کرنا پسند کرے گا۔"

"دیکھ پتر! تم شریف ہے' محنتی ہے' کسی نشے کی لت میں نہیں پڑا اور سب سے بڑھ کر بستی کے لوگوں کے سامنے پلا بڑھا ہے۔ اور ویسے بھی ہماری بستی میں کون سا ساہوکار بستے ہیں۔ کسی کا بھی بوجھ ہلکا کر سکتا ہے۔ اگر تو کہتا ہے تو کسی سے بات کروں۔" مستری اجمل نے سنجیدگی سے بات کرتے ہوئے کہا۔ تو اجمل بھی کچھ سوچنے لگا۔

"چاچا! وہ بات نہ کر جو پوری نہ ہو سکے۔ مجھے خواب مت دکھا۔ بستی کی ساری لڑکیاں پڑی لکھی ہیں اور میں بستی کو کوئی اکیلا کنوارہ لڑکا بھی نہیں ہوں۔ مجھ سے بھی شریف، محنتی پڑھے اور ہنر والے بندے ہیں بستی میں۔ مجھے کون پوچھے گا۔ میں شادی کر بھی لوں تو بیوی کو کیسے رکھوں گا' گھر کو کیسے چلاؤں گا میرے گھر میں تو کوئی کام کی شئے بھی اصل حالت میں موجود نہیں ہے۔ یہاں تک کے ضروری برتن بھی نہیں ہیں۔" اشرف کے سنجیدگی سے دیے اس جواب نے مستری اجمل کو پھر سے سوچوں میں دھکیل دیا۔

اتنی دیر میں اشرف کا گھر آ گیا اور وہ مستری اجمل کو سوچوں میں ڈوبا چھوڑ کر گھر کے اندر چلا گیا۔


ـــــــــــــــــــــ

مستری اجمل دھیرے سے گھر کا دروزاہ کھول کر اپنی سائیکل کو صحن میں لے آیا۔ اس کی بیوی حاجراں صحن میں لگے ہوئے دریک کے گھنے سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھی سبزی کاٹ رہی تھی۔

سائیکل کو اسٹینڈ کر لگا کر وہ سیدھا اپنی بیوی کی طرف گیا اور اس کی چارپائی کے عین سامنے پڑی چارپائی پر جا کر بیٹھ گیا۔ ابھی بھی اس کے دماغ میں اشرف کی کہی ہوئی باتیں گھوم رہی تھیں۔

حاجراں نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا اور پھر سر پر جمے ہوئے دوپٹے کو پھر سے درست کرتے ہوئے بولی۔

"خیریت تو ہے عمران کے ابا' آج بڑے بڑے خاموش خاموش ہیں۔"

"میں نے تجھے بتایا تو تھا اشرف کے بارے میں؟ اس کی وجہ سے پریشان ہوں۔" مستری اجمل نے چونک کر جواب دیا۔

"کیا ہوا؟ کیا ٹھیکیدار نے اسے کام سے نکال دیا؟" حاجراں نے پریشانی ملے لہجے میں پوچھا۔

"نہیں' آج تو نہیں نکالا' مگر ہو سکتا ہے کہ ایک دو دن میں نکال ہی دے۔ اکیلا بندہ ہے تو اس کی دیر سویر نہیں رک سکتی" مستری اجمل نے حاجراں کے جواب میں کہا۔

"اگر آپ کہیں تو ایک بات کہوں؟" مستری اجمل کی بات سن کر حاجراں کے دماغ میں کوئی ترکیب آئی تھی جس وہ دبے دبے جوش کے ساتھ بیان کرنا چاہ رہی تھی۔

"کہو ۔ ۔ ۔ ۔!"

" وہ آپ کے مرحوم دوسر رشید کی بیوہ حمیدہ کی بڑی لڑکی نصرت سترہ (17) سال کی ہو گئی ہے۔ لڑکی شکل اور قد بت میں اچھی ہے، گھرداری میں اچھی ہونے کے ساتھ ساتھ دسویں کلاس تک پڑھائی بھی کی ہوئی ہے' بیچاری حمیدہ آج دن میں آئی تھی بیچاری آج کل اس کی شادی کے لیے بہت پریشان ہے۔" حاجراں تیز تیز لہجے میں کہتی ہوئی داد طلب نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔

"خیال تو بہت ہی اچھا ہے۔ "مغرب ویلے" میں اشرف سے پوچھوں گا اور اگر وہ راضی ہو گیا تو پھر آگے سوچیں گے۔" مستری اجمل نے بہت ہلکا پھلکا ہو کر کہا۔

"آپ' ابھی جاؤ ناں۔ یہ پاس ہی تو اشرف کا گھر ہے۔ اتنی دیر تک میں بھی تیار ہو جاتی ہوں حمیدہ کے گھر جانے کے لیے۔" حاجراں کچھ زیادہ ہی پر جوش ہو چکی تھی۔

"کیسی شیدائیوں جیسی باتیں کر رہی ہے تو۔ ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاہتی ہے۔" مستری اجمل نے اس کی بیقراری پر جھڑکتے ہوئے کہا۔ تو حاجراں منہ بنا کر پھر سے سبزی کی طرف متوجہ ہو گئی۔ اور مستری اجمل اُٹھ کر باتھ روم کی طرف روانہ ہو گیا۔ اور کپڑے بدل کر آیا تو حاجراں ابھی تک اسی موڈ میں سبزی کاٹ رہی تھی۔

"اچھا! جلدی سے کھانا بنا لو۔ میں اشرف کے گھر جا رہا ہوں ابھی وہ نکلا نہیں ہو گا۔ آج وہ بھی شاید یہاں ہی کھانا کھائے۔" مستری اجمل نےکہا تو حاجراں کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔
مستری اجمل' اشرف کے گھر پہنچا تو وہ کھانا پکانے کی تیاری کر رہا تھا اور اپلوں کی آگ جلانے کے چکر میں اپنی آنکھوں کا ستیاناس کر رہا تھا۔

صورتحال ایسی تھی کہ مستری اجمل کی بات سن کر اشرف کے چہرے پر بے اختیار احسان مندی کے احساس جھلکنے لگے۔ اور مستری اجمل نے اس کا مثبت جواب محسوس کر کے اسے سینے سے لگا لیا۔


ـ
ـــــــــــــــــــــــــ ــــــــــــــ



"حمیدہ! دیکھ تو اچھی طرح سے جانتی ہے کہ مرحوم رشید میرا کتنا اچھا دوست تھا۔ پوری بستی میں ہماری دوستی کی مثالیں مشہور تھیں۔ اگر تجھے برا لگے تو صاف کہہ دینا۔ میں برا نہیں مانوں گا۔"اگلے دن مستری اجمل' حاجراں اور اشرف کو لے کر حمیدہ کے گھر ' اس سے بات کرنے کے لیے موجود تھا۔

"بھائی اجمل! بات کیا ہے؟ بھلا میں آپ کی بات کا برا کیوں مانوں گی۔ نصرت کا ابا آپ کا کتنا زکر کیا کرتا تھا۔"
حمیدہ جو ان سب کی آمد پر تھوڑی حیرانی میں تھی' نے جواب دیا۔

"بہن یہ اشرف کا تو تمہیں پتہ ہی ہے۔ شریف اور محنتی بچہ ہے بس زرا پڑھا لکھا نہیں ہے۔ میں اس کے لیے تمہاری نصرت کا ہاتھ مانگنے آیا ہوں۔ مجھے پتہ ہے کہ ہم بغیر اطلاع کے آ گئے ہیں۔ میں اشرف کی پوری گارنٹی دینے کو تیار ہوں۔" مستری اجمل نے نرم سے لہجے میں کہا۔

یہ بات سن کر حمیدہ کی آنکھوں میں پتہ نہیں کیوں نمی سے بھر آئی اور وہ انتہائی پست سے لہجے میں بولی۔

"بھائی اجمل! تمہاری تمام باتیں درست ہیں۔ پرکیا نصرت کو رکھنے کے لیے، اس کے اخراجات پورے کرنے کے لیے، اشرف کے پاس زرائع ہیں۔ بہن فاطمہ (اشرف کی بےبے) کی وفات پر میں اشرف کے گھر جا کر دیکھ چکی ہوں۔" حمیدہ نے مستری اجمل سے کہا اور پھر اشرف کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔

"برا مت ماننا بیٹا' میں بہت غریب ضرور ہوں۔ مگر تھوڑا صبر کر کے پہلے گھر میں کچھ ساز و سامان کر لو پھر بات کرنا۔"

"نہیں "چاچی" میں تمہاری بات کا برا نہیں مانوں گا۔ تو بالکل صحیح کہہ رہی ہے۔ میں نے بھی "چاچا"اجمل کو یہی سب کہا تھا۔ پر "چاچا" اجمل نے یہ سب میری کام بچانے کےلیے کیا ہے۔" اشرف نے حمیدہ سے کہا۔

"چل "چاچا" اب چلتے ہیں۔ " اشرف نے کہا اور پھر وہ تینوں وہاں سے مایوس لوٹ آئے تھے۔

ــــــــــــــــــــ
"آج تیسرا دن ہے۔اور تم الجھے الجھے دیکھائی دے رہے ہو۔ کیا بات ہے۔ کوئی پریشانی ہے کیا؟" دوستوں کے درمیان بیٹھا حامد پہلوان اپنے لنگوٹیے یار مستری اجمل کو دیکھر کر چپ نہ رہ سکا تھا۔

"وہ یار تم اشرف کو تو جانتے ہی ہو۔" مستری اجمل نے کہا۔

"ہاں یار وہی خوشی محمد کا بیٹا" حامد پہلوان نے لقمہ دیا

"ہاں وہی یار اس کی وجہ سے تھوڑا پریشان ہوں۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے تمام ماجرا اپنے دوستون کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔"

"ہاں۔ یار کہا تو حمیدہ نے بالکل صحیح ہے۔" وہ سب حمیدہ اور اشرف کا دکھ اپنے دل میں محسوس کر رہے تھے۔

"وہی تو یار " مستری اجمل نے کہا۔"میری اپنی آمدنی بہت کم ہے ورنہ میں ہی اس کی مدد کر دیتا۔" سب نے سر ہلا کر مستری اجمل کی بات کی حمایت کردی۔


ــــــــــــــــــــ
کچھ دنوں بعد حمیدہ نے اجمل اور حاجراں کوبلاوا بھیجا۔ وہاں پہنچنے پر حمیدہ نے اشرف کے لیے اپنی بیٹی نصرت کی رضا مندی دے دی۔

"حمیدہ بہنا! یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے۔ مگر یہ ہوا کیسے۔ پہلی بار ہم آئے تھے تو تم نے انکار دیا تھا۔" مستری اجمل نے حیرت سے پوچھا۔

"میری بیٹی کے گھر کے لیے جہیز کا بندوبست ہو گیا ہے بھائی اجمل! اور یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو دنیا جہاں کی خوشیاں عطا کرے آپ نے ایک بیوہ کی مشکل آسان کی ہے۔" حمیدہ نے نم لہجے میں مستری اجمل کو دعائیں دیتے ہوئے کہا۔

"پر میں نے تو ایسا کچھ نہیں کیا۔" مستری اجمل کی حیرت بددستور قائم تھی۔

"آپ کے دوستوں نے اور سب محلے والوں نے نصرت کہ جہیز کے لیے ایک ایک کر کے سب چیزیں پوری کر دی ہیں۔ میں نے اشرف کے لیے انکار تو کر دیا تھا۔ مگر میری پریشانی بھی بہت بڑھ گئی تھی۔ آج آپ کے دوستوں کی وجہ سے' میری عزت بھی رہ گئ ہے اور بیٹی بھی اپنے گھر کی ہو جائے گی۔ میں سب کا احسان کیسے اتاروں گی۔" کہتے کہتے حمیدہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ حاجراں نے آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگا لیا۔ اس کی آنکھیں بھی نم تھیں۔

اور اجمل وہاں سے باہر نکل گیا تا کہ سب کا شکریہ ادا کر سکے۔

ـــــــــــــــــــ
تالیوں کی تیز آواز کے ساتھ ہی رخسانہ عبد الحسن کا دادا محمد اشرف حال میں واپس لوٹ آیا۔ اس کی پوتی ڈائس سے اتر کر اس کی طرف آ رہی تھی۔

اور اشرف یہ سوچ رہا تھا کہ
"اگر اس وقت جہیز کا انتظام نہ ہو سکتا۔ تو کیا اس بچی کا کوئی وجود ہوتا۔"

خطرناک بھوت

رات کا دو بجے کا عمل ہو گا جب اچانک ہی اس کی آنکھ ایک عجیب سی آواز سے کھل گئی۔ اس کا پورا جسم پسینے سے شرابور تھا۔ چہرے کا رنگ بالکل زرد پڑ گیا تھا۔ سانس بہت تیز تیز چل رہی تھی۔
"کیا بات ہےاکرم! کیا آج پھر وہی آوازیں سنائی دی؟" اس کے ساتھ بستر پر موجود بیوی نے اٹھ کر پریشانی سے پوچھا۔
"ہاں فاطمہ، مجھے بچا لو فاطمہ۔ یہ روح میری جان لیے بغیر میرا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔ آج پھر ایسا محسوس ہوا۔ جیسے کہیں دور انتہائی گہرائی سے پانی کے بلبلے پھوٹ رہے ہوں۔" اس نے اپنی بیوی کے ہاتھوں کو سختی سے گرفت میں لیتے ہوئے کہا۔
اکرم کا جسم خوف سے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ پوری فضاء پر خوفناک تاریکی سی چھائی محسوس ہو رہی تھی۔ دونوں میاں بیوی نے وہ رات جاگ کر گزاری۔ یہ عمل پچھلے چار روز سے چل رہا تھا۔
صبح ہوتے ہی اکرم گھر سے نکلا اور سیدھا امام صاحب کے پاس پہنچا۔ اور انہیں سارا مسئلہ بتایا۔ امام صاحب نے اسے تلقین کی کہ رات کو معوز تین پڑھ کر اپنے اور اپنی بیوی کے اوپر پھونک کر سو جانا۔ انشاء اللہ' اللہ ہر آسیبی بلاء سے محفوظ رکھے گا مگر نیت اور یقین شرط ہے۔
امام صاحب نے اسے حضورﷺ پر جادو ہونے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا توڑ بتائے جانے کے بارے میں بھی بتایا۔ اور اکرم وہاں سے جب اٹھا تو اس کا حوصلہ کافی مضبوط ہو چکا تھا۔
رات کو جیسے امام صاحب نے بتایا تھا بالکل اسی طریقے سے معوز تین پڑھ کر خود پر اور اپنی بیوی پر پھونک کر سو گیا۔ لیکن رات کے پچھلے پہر اچانک اُسی آواز سے اس کی آنکھ کھل گئی۔
"فاطمہ، فاطمہ! مجھے پھر وہی آواز سنائی دے رہی ہے۔ وہ بدبخت ابھی بھی ہمارے اردگرد ہے لگتا ہے وہ میری جان لیے بغیر مجھے چھوڑنے والی نہیں۔ مجھے بچا لو فاطمہ مجھے بچا لو۔ تمہیں اللہ کا واسطہ مجھے بچا لو۔"
اکرم نے فاطمہ کو جھجھوڑ کر روتے ہوئے اٹھایا۔اس کے چہرے پر وحشت برس رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ابھی خوف سے اس کا ہارٹ فیل ہو جائے گا۔ فاطمہ نے اس کا سر پکڑ کر اپنی گود میں رکھا۔ اور قرآن کریم کی آیات پڑھ پڑھ کر اس کے ماتھے پر پھونکنے لگی۔ تھوڑی ہی دیر میں اکرم سو چکا تھا۔ فاطمہ نے اس کا سر اپنی گود سے نکال کر آرام سے سرہانے پر رکھ دیا لیکن تمام رات پریشانی کی وجہ سے اس کی آنکھ نہ لگ سکی۔ صبح اکرم کے جاگتے ہی فاطمہ نے اس کے لیے کھانا تیار کیا۔ اور اس کے ساتھ ہی امام صاحب کے گھر کی طرف چل دی۔
دروازے پر دستک دینے کے بعد دروازہ امام صاحب کے زوجہ نے کھولا۔
"اکرم اور فاطمہ! تم دونوں اتنی صبح صبح سب خیر، خیریت تو ہے ناں۔" امام صاحب کی زوجہ نےان دونوں کو اندر آنے کا راستہ دیتے ہوئے اور ان کے پریشان چہروں کو دیکھتے ہوئےپوچھا۔
"السلام علیکم! خالہ جی۔ امام صاحب کدھر ہیں ہم بہت مشکل میں ہیں۔ مہربانی کر کے زرا ان سے ملاوا دیں۔" فاطمہ نے بڑے پریشان سے لہجے میں امام صاحب کی زوجہ کو کہا تو انہیں بیٹھک میں بٹھا کر تیزی سے اندر کی جانب چلی گئ۔
تھوڑی سے دیر کے بعد اسی دروازے سے امام صاحب کا چہرہ نظر آیا۔
"السلام علیکم! کیا ہوا۔ کہ پھر سے وہی آوازیں سنائی دی۔" امام صاحب نے پوچھا۔
"وعلیکم السلام! امام صاحب مجھ بچا لیں۔ اگر میں دو چار روز تک مزید وہ آوازیں سنتا رہا تو میں مر جاؤں گا۔" اکرم اپنی جگہ سے اٹھ کر مولوی صاحب کے قدموں میں بیٹھتا ہوا بولا۔
"اٹھو، اٹھو، اکرم تم کیا کر رہے ہو۔ بندے کو صرف اور صرف اپنے معبود حقیقی کے سامنے جکنا چاہیے۔" امام صاحب نے ہڑبڑا کر اس کو اپنے قدموں سے اٹھاتے ہوئے کہا۔
پھر اپنی تھوڑی دیر تک اپنی ڈھاڑئی میں ہاتھ ڈالے کچھ سوچتے رہے اور کہا کہ "میں تمہیں اپنے پیر صاحب کے پاس بھیجتا ہوں مگر اس شرط پر کہ تم ان کا نام و پتہ کسی اور کو نہیں بتاؤ گے۔ وہ کسی سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتے۔"
"میں اپنی جان کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں کسی کو کچھ بھی نہیں بتاؤں گا۔ آپ مجھے ان کا پتہ بتا دیں۔" اکرم نے تقریباً روتے ہوئے لہجے میں کہتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ دیے۔
پھر امام صاحب نے اکرم کے کان میں پیر صاحب کا تفصیلی پتہ بتا دیا۔ اور یہ بھی بتہ دیا کہ وہ سوائے جمعرات اور ہفتہ کے کسی اور روز ہرگز نہیں ملتے۔
اکرم اور فاطمہ نے امام صاحب کا شکریہ ادا کیا اور کی طرف چلے گئے۔
"پیر صاحب تو صرف جمعرات اور ہفتہ کو ملتے ہیں جبکہ آج تو منگل ہے اگر اتنے دنوں میں کچھ ہو گیا تو،" فاطمہ کے کہنے پر اکرم کے چہرے پر بھی خوف نظر آنے لگا۔
"مگر جمعرات تک کو انتظار کرنا ہی پڑے گا۔" اکرم نے خوفزدہ سے لہجے میں کہا۔
"آپ بس اسٹینڈ والے بنگالی بابا کے پاس کیوں نہیں جاتے۔ شاہدہ کہہ رہی تھی کہ بہت پہچنے ہوئے بابا ہے۔ اگر کوئی فائدہ نہ بھی ہوا تو آپ تو ہفتہ کو پیر صاحب کے پاس جائیں ہی جائیں گے۔ لیکن اگر شاہدہ سچی ہوئی تو پیر صاحب کے پاس نہیں جائیں گے۔"فاطمہ نے کہا
فاطمہ کی بات سن کر اکرم نے سر اثبات میں ہلا دیا۔
"ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ ۔ تم گھر جاؤ!۔ میں وہاں سے ہو کر آتا ہوں۔"
اکرم نے کہا تو فاطمہ نے خوفزدہ ہو کر انکار میں سر ہلا دیا۔
"میں شاہدہ کے گھر جا رہی ہوں۔ جب آپ آئیں تو مجھے بھی ساتھ لے جائیے گا مجھے گھر میں اکیلے رہتے ڈر لگتا ہے۔"
"اچھا! ٹھیک ہے۔"
اکرم نے فاطمہ کو اپنی ہمسائی شاہدہ کے گھر تک چھوڑا اور خود بس اسٹینڈ کی طرف بنگالی بابا کے ڈیرے پر جانے کے لیے چل پڑا۔
ڈیرے پر پہنچتے لائنیں لگی دیکھ کر اس کے چہرے پر بابا کے لیے مرعوبیت چھا گئی۔ اور دیوار پر لگے باباکی طرف سے دئیے ہوئے اشتہار پر یقین سا آنے لگا۔
خداخدا کرکے دو گھنٹے بعد اس کی باری آئی تو اس وقت بھی لائن کی لمبائی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ میرے پچھلے اتنے ہی سائل اور آ چکے تھے جتنے کے پہلے فارغ ہو چکے تھے۔
کمرے کے اندر پہنچتے ہی وہاں کا ماحول دیکھ کر بے اختیار اکرم سہم سا گیا۔ کمرے کی دیواروں کا رنگ انتہائی سیاہ تھا۔ایک چھوٹی سی میز کے پیچھے آلتی پالتی مارے ایک پختہ عمر کا عجیب سا موٹا تازہ آدمی بیٹھا ہوا تھا۔اپنے ڈیل ڈول اور قد کاٹھ کسی بھی صورت سے وہ ہرگز بنگالی نہیں لگ رہا تھا۔
"ہمم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بوری روحوں کا چکر ہے۔؟"
بنگالی بابا نے اکرم کی طرف دیکھتے ہی بڑے گھمبیر اور غراتے ہوئے لہجے میں کہا۔
یہ سن کر اکرم کچھ شک کم تو ہوا مگر پریشانی ہنوز باقی تھی۔
"پریشان مت ہو۔ حل ہو جائے گا۔ کل آنا ۵۰۰۰ روپے ساتھ لے کر، سامان کے لیے، جلا کر رکھ دوں، تمہاری زندگی سے اکھیڑ دوں گا۔ باہر ۲۰۰ روپے جمع کروا کر کل کے لیے وقت لے لینا اور اب جو تمہاری توفیق ہو اس گلے میں ہدیہ کر جاؤ۔"
اکرم نے آگے بڑھ کر عقیدتے سے گلے میں ۱۰۰ روپیہ ڈالا اور باہر سے اگلے دن دس بجے کے وقت کی پرچی اور ۲۰۰ روپے جمع کروا کر واپس آ گیا۔ اب اس کے چہرے پرآج کی رات کے لیے خوف ہی خوف نظر آ رہا تھا بابا نے تو کوئی بات کرنے ہی نہیں دی تھے۔
واپسی کے راستے میں ایک ڈاکٹر کی دوکان دیکھ کر اس نے سوچا کہ کیوں نہ نیند کی دوائی لے لی جائے تاکہ بیچاری فاطمہ جو کئی راتوں سے اس کے ساتھ جاگ رہی ہےوہ تھوڑا آرام کر سکے پچھلے کتنے ہی دنوں سے اسے بھی ساتھ ساتھ تنگ کر رہا ہوں۔ حالانکہ وہ آواز اسے تنگ نہیں کرتی۔ یہ سوچ کر وہ سیدھا ڈاکٹر صاحب کےکلینک میں داخل ہو گیا۔
اپنی باری آنے پر وہ ڈاکٹر صاحب کے کیبن میں داخل ہوا۔
ڈاکٹر صاحب نے اسے دیکھتے ہی بیٹھے کے لیے کہا۔ اور پوچھا۔ "جی فرمائیے کیا مسئلہ ہے۔"
"ڈاکٹر صاحب میں اور میری بیوی پچھلے کئی راتوں سے پریشانی کی وجہ سے سو نہیں سکے۔ برائے مہربانی مجھے کچھ نیند کی دوائی لکھ دیں۔ تاکہ میں جنرل سٹور سے وہ خرید سکوں۔ "
"دیکھیے! بلاوجہ نیند کی دوائی لینا بہت نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ آپ بتائیے ماجرا کیا ہے ہو سکتا ہے میں آپ کی مدد کر سکوں۔"
ڈاکٹر صاحب نے سنجیدگی سے مخاطب ہوئے۔
"ڈاکٹر صاحب! آپ میری مدد نہیں کر سکتے۔ میرا مسئلہ صرف اور صرف کوئی روحانی ڈاکٹر یعنی عالم ہی حل کر سکتے ہیں۔ آپ پلیز مجھے نیند کی کوئی دوائی لکھ دیں۔" اکرم نے سنجیدگی سے کہتے کہتے آخر میں لمتجیانہ لہجہ اختیار کر لیا۔
"مجھے تھوڑی تفصیل تو بتائیں۔ ہو سکتا ہے میں آپ کی کچھ مدد کرسکوں۔" ڈاکٹر صاحب نے اصرار کرتے ہوئے کہا۔
اکرم نے ڈاکٹر صاحب کے چہرے پر موجود خط شدہ داڑھی دیکھی تو دل میں خیال آیا کہ شاید اللہ تعالیٰ اس طریفے سے ہی میری مدد کرنا چاہتے ہیں۔تو اس نے پوری تفصیل ڈاکٹر صاحب کو بتا دی۔
"اچھا رات کو جب آپ کو آواز سنائی دیتی ہے تو اس کے علاوہ کیا محسوس ہوتا ہے۔" پوری تفصیل سن کر ڈاکٹر صاحب نے مزید پوچھا۔
"بہت گھٹن محسوس ہوتی ہے ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی میرے دل کو زور زور سے دبا رہا ہو۔" تفصیل بتاتے ہوئے اکرم کے چہرے پر پسینہ آ گیا۔
یہ بات سن کر ڈاکٹر صاحب کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی۔
"اچھا! اور کیا اس کے ساتھ ساتھ آںکھوں سے حرارت پھوٹتی ہوئی بھی محسوس ہوتی ہے؟" ڈاکٹر صاحب نے پوچھا ان کے چہرے پر مسکراہٹ ابھی بھی قائم تھی۔
"جی ڈاکٹر صاحب! مگر آپ کو کیسے معلوم ہوا ۔ ۔ ۔ ۔ کہیں آپ ۔ ۔ ۔ ۔آپ کو صاحب کشف معلوم ہوتے ہیں۔؟" اکرم نے ڈاکٹر صاحب کا ہاتھ پکڑ کر چومتے ہوتے کہا۔ تو ڈاکٹر صاحب کھل کر ہنس دیے۔
"اچھا! تو اب میں جو کچھ پوچھوں۔ سچ سچ بتانا۔" ڈاکٹر صاحب نے مسکراہٹ پر قابو پاتے ہوئے پوچھا۔"کچھ دن پہلے تم کسی شادی پر تو نہیں گئے؟"
"جج ۔ ۔ ۔ ۔ جی ۔ ۔ ۔۔ مم ۔ ۔۔۔مگر ۔ ۔ ۔ ۔آپ کو کیسے معلوم ہوا۔"
اکرم کی آنکھیں حیرت سے بگڑ کر کانوں سے جا لگی۔
"میں تمہارا مسئلہ سمجھ گیا ہوں۔ اور میں تمہارے لیے ایک خاص چیز لے کر آتا ہوں جیسے میں بتاؤں بالکل ویسا کرنا۔ انشاء اللہ تمہارا مسئلہ بالکل حل ہو جائے گا۔" ڈاکٹر صاحب نے اٹھ کر اندرونی کمرے کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
جب ڈاکٹر صاحب واپس آئے تو ان کے ہاتھوں میں ایک پلاسٹک کا شاپنگ بیگ تھا۔ جس کو انہوں نے بالکل اُوپر سے پکڑ رکھا تھا۔
"باوضو ہو کر اس میں سے دو چمچ ایک گلاس پانی میں ڈال کر دن میں دو وقت پینا ہے اور دو روز تک یہ عمل جاری رکھناہے۔ پھر جو بھی ہو مجھے آ کر بتانا۔انشاللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔"
اکرم نے پہلے جا کر وضو کیا پھر ڈاکٹر کے ہاتھوں سے وہ پیکٹ لے کر گھر آ گیا اور جیسا ڈاکٹر صاحب نے کہا تھا بالکل ویسے ہی اس پاوڈر کا استعمال کیا۔ پہلی ہی رات کو وہ بہت سکون سے سویا اور اگلے ہی دن صبح صبح ڈاکٹر صاحب کے کلینک پر پہنچ کر ان کے ہاتھ چومنے لگا۔
"ڈاکٹر صاحب! آپ ولی ہو۔ آپ نے ایک ہی دن میں میری اجڑتی زندگی کو کنارہ دے دیا۔" اکرم کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔
"اوہ، اوہ۔ چھوڑو یار کیا کر رہے ہو۔ میں کوئی ولی نہیں ہو۔ بس تم جسمانی طور پر تھوڑے بیمار ہو گئے تھے۔ اور میں نے تمہارا علاج کر دیا۔ اور اس کی میں نے فیس بھی لی ہے۔" ڈاکٹر صاحب نے جلدی جلدی کہا۔
"نہیں نہیں۔ مگر وہ آواز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟" اکرم نے حیرت اور بے یقنی سے پوچھا۔
"یار تمہیں بد لحاظی سے کھانے کی وجہ سے گیس ہوگئی تھی۔ میں نے اس دن تمہیں (اینو) دیا تھا۔" ڈاکٹر صاحب نے کہا۔
"مم ۔ ۔۔ ۔مگر۔ ۔ ۔۔ ۔ وہ آپ نے وضو کر کے ۔۔۔۔۔۔؟" اکرم نے کہا
"وہ اس لیے کہ اگرمیں سیدھا سیدھا تمہیں کہتا تو کبھی بھی میری بات نہ مانتے" ڈاکٹر صاحب نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا اور اس کے ساتھ ہی قہقہ لگا کر ہنس پڑے۔
"تو اکرم کے چہرے پر خفت سی چھا گئی۔
اس نے ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کیا اور لوٹتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ جب گھر جا کر میں فاطمہ کو اس "خطرناک بھوت"کی حقیقت بتاؤں گا وہ تو وہ بیچاری ہنس ہنس کر پاگل ہو جائے گی۔ مگر بابا والی بات اس کو ہرگز نہیں بتاؤں گا ورنہ ساری زندگی مجھے کھینچتی رہے گی۔ اس کے ساتھ ہی اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیل گئی۔

چوتھا درویش

چوتھا درویش



جی یہ قصہ چوتھے درویش کا ہے ۔ ۔ ۔ ۔! نہیں نہیں بھائی یہ قصہ داستان امیر حمزہ کے چوتھے درویش کا نہیں ہے بلکہ یہ قصہ ہے لاہور کے انارکلی بازار کے چوتھے درویش کا ہے۔


وہ یوں ہے ناں کہ! اس بازار میں اتنے درویش گھومتے ہیں کہ نشانیوں سے یاد رکھنا آسان نہیں اس لیے ہم نے ان کو نمبر دے رکھے تھے۔ حبیب جلیبیوں والے کی دوکان کے پاس کھڑا "پہلادرویش"۔ گلی نمبر ۳۳ کی اسٹریٹ لائٹ کے نیچے کھڑا "دوسرا درویش"۔ گول چوک میں ہر کسی کو ڈرانے والا "تیسرا درویش" اور میرے کمپیوٹر سنٹر کے باہر کھڑا میرا دوست اور "چوتھا درویش"


ان درویشوں کا کوئی مخصوص کام اس کے علاوہ نہیں تھا کہ وہ گرلزکالج اور گرلزاسکول کے مخصوص وقت میں اپنے مخصوص مقام پر کھڑے ہو کر تانک جھانک کیا کرتے تھے۔


تو جی یہ قصہ مذکورہ چوتھے درویش کا ہے۔


تو قصہ شروع کرنے سے پہلے آپ کو جوتھے درویش محترم کا طول عرض بتانا بہت ضروری ہے۔ تو شروع کرتے ہیں ان کی طول کے ساتھ' ماشاء اللہ میری دوکان کے شیڈ کے ساتھ لگتا ہے یعنی ساڑھے چھ فٹ سے کم نہیں ہے اور عرض کی کیا بات کروں اتنا سمجھ لیں کہ ایک دس بائے بارہ کی دوکان میں ان کو مشکل سے "رکھ" سکتے ہیں وہ بھی پھنس پھنسا کہ۔


ویسے تو چوتھے درویش محترم کا ایک عدد نام بھی ہے "پر سانوں کی" ہم تو اسے چوتھے درویش کے نام سے ہی پکاریں گے۔ تو ہوا یوں کہ گوالمنڈی میں کھانے کے مشہوار مقابلے "کھاپے خلاص" کا اعلان کر دیا گیا۔ اعلان سن کر ہمارے زہن میں پیسے بنانے کی ایک اچھی سی ترکیب آ گئی کہ اپنا "چوتھا درویش "آخر کس کام آئے گا۔ اس کا مقابلہ کروا کر رقم جیتتے ہیں۔


بڑی مشکلوں سے اسے راضی کر کے اس کا نام ('اپنی جیب سے ۲۰۰ روپے انٹری فیس جمع کروا کر') مقابلے میں لکھوایا۔ اور اپنے درویشں کو مقابلےکے تیار کرنا شروع کر دیا۔ یعنی ہم اس کو سارا دن کچھ نہ کھانے دیتے اور شام کو اس کو خوب ٹھونس ٹھونس کر کھلاتے جس میں سارا فنانس میرا ہی استعمال ہوتا تھا۔


آخر اللہ اللہ کرکے مقابلے کا دن آ پہنچا۔ ہمیں اپنے درویش کی کامیابی کا پورا پورا یقین تھا۔ یقیناً یہ مقابلہ ہم ہی جیتنے والے تھے۔ مگر جب نظر مقابلے کی جگہ پر پڑی تو ہمیں اپنے پیسے ڈوبتے ہوئے نظر آنے لگے۔


سڑک کے درمیان ایک بڑی سی ٹیبل اور کرسیاں پڑی ہوئی تھیں۔ اورمقابلے میں اپنے درویش سمیت انیس عدد افراد موجود تھے اور جن کے درمیان بیٹھے ہوئے ہمارے درویش محترم "کاکے کاکے" لگ رہے تھے۔


مقابلے کا آغاز سب کے سامنے ایک ایک جگ "لسی" کا رکھ کر کیا گیا (تاکہ کھانے کی بچت ہو) جس کو سب سے ایسےہی داڑھ گیلی کرنے کے مصادر ہڑپ کر لیا۔
پھر کھانوں پر کھانے آنے لگے اور برتنوں پر برتن واپس جانے لگے۔ میں درویش کی کرسی کے پاس کھڑا ہو کر اس کا جوش "ختم کر دو سب کو، چھوڑنا مت،" قسم کے نعروں سے بڑھا رہا تھا۔ اور درویش ایسے میری بات کر رہا تھا جیسے میز پربھنا ہوا امریکہ پڑا ہو۔ تقریباً! گھنٹہ بھر بعد ایک آدمی نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیے۔ ڈول پر ڈگا مارا گیا اور لوگ خوشی سے چلانے لگے کہ ایک تو گیا۔


مزید آدھے گھنٹے میں مزید کے گرد صرف چار لوگ بچے تھے جن میں ہمارا درویش بھی بیٹھا ہماری عزت بڑھا رہا تھا مگر اس کی حالت ایسی لگ رہی تھی جیسے چائنہ کے ٹی وی کی طرح ابھی جواب دے جائے گا۔


جب چار لوگ رہ گئے تو مقابلے کا دوسرا حصہ شروع ہوا اس حصے میں مقابلے کے شرکاء اپنی مرضی کی ڈش بلوائیں گے اور باقی سب کھائیں گے۔ پہلے نمبر والے آدمی نے کہا کہ سب کو بہت زیادہ مسالے والا مرغ مسلم پیش کیا جائے۔ کسی کے پیٹ میں اتنی گنجائش نہیں تھی کہ ایک پورا مرغ مسلم کھا جاتے۔ مگر پھر بھی ہمارے درویش اور ڈش منگوانے والے اور ایک اور آدمی نے مرغ مسلم کھا لیا۔


چوتھا آدمی نہ کھا سکا اور مقابلے سے باہر ہو گیا۔
سب شرکاء کی حالت حد سے زیادہ خراب ہو رہی تھی۔ سانسیں بہت مشکل سے آ رہی تھیں۔ اب باری تھی دوسرے آدمی کے ڈش طلب کرنے کی اس نے چپل کباب منگوائے۔ جس کو ان تینوں نے ہی کھا لیا۔ درویش ایسی نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا جیسے کہ ابھی اٹھنا ہی چاہتا ہے مگر اٹھنے کی ہمت نہیں اور نہ ہی بولنے کی ہمت ہے۔


میں اپنا کان اس کے منہ کے قریب لے گیا۔ درویش نے اکھڑی اکھڑی سانسوں سے کہا کہ اب بس ہو گئی ہے۔ میں مزید نہیں کھا سکوں گا۔ مجھے اپنے پیسے ڈوبتے ہوئے محسوس ہوئے۔


سب لوگ میرے طرف دیکھ رہے تھے کہ درویش نے کیاکہا ہے۔


"درویش کہہ رہا ہے کہ میرے لیے ابلے ہوئے کریلے منگوائے جائیں"

میرے کہتے ہیں دوسرے دونوں شرکاء تلملا کر گالیاں بڑبڑاتے ہوئے اٹھ گئے اور ہمارا درویش یہ مقابلہ جیت گیا۔اور مجھے ملی انعام کی رقم

مگر افسوس
وہ رقم میرے پاس نہیں رہی۔


نہیں۔ نہیں میں نے رقم درویش کو نہیں دی۔ بلکہ یہ رقم بے احتیاطی سے کھانے کی وجہ سے بیمار ہو جانے پردرویش کے علاج اور دوائیوں میں نکل گئی مزید اپنے پاس سے دوہزار لگانے پڑے۔[/FONT]

ٹیکنیکل مِسٹیک

ٹیکنیکل مِسٹیک



گل خان جیسے ہی اپنے گھر کا پردہ اٹھا کر اندر داخل ہوا۔ اس کی چھ سال کی بیٹی "بابا آ گئے، بابا آ گئے " کے نعروں کے ساتھ آ کر اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئی۔



گل خان نے جھک کر اس کو اپنی گود میں لیا اور اس کے موٹے موٹے گال کھینچتے ہوئے بولا۔"ہماری آمو! اپنے بابا کا انتظار کر رہی تھی۔"



"بابا۔ آپ میرے لیے کیا لائے ہیں؟"

چھوٹی آمنہ نے گل خان کے ہاتھوں کو دور ہٹاتے ہوئے بہت لاڈ سے پوچھا۔



گل خان نے اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا سیبوں سے بھرا تھیلا آمنہ کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔



"سیب! میں یہ سیب کسی کو نہیں دوں گی۔ سارے خود کھاؤں گی۔" آمنہ نے تھیلا تھام کر گل خان کی گود سے اتر سے بھاگ کر اپنی ماں فاطمہ کے پاس جاتے ہوئے کہا۔

"کیا اپنی اماں اور باجی کو بھی نہیں دو گی۔"

فاطمہ نے آمنہ کو سینے سے لگاتے ہوئے پوچھا۔

"نہیں۔" کہہ کر آمنہ بھاگتے ہوئے اندرونی کمرے میں گھس گئی اور اس سے دو سال بڑی بہن بھی اٹھ کر اس کے پیچھے بھاگ گئی۔



اس کے طرح سے بھانگے پر گل خان اور فاطمہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



"ساجد تم کب گھر پہنچ رہے ہو۔ تمہیں پتہ ہے تمہاری شادی میں صرف دو ہفتے رہ گئے ہیں۔ اگر تم کل تک گھر واپس نہیں آئے تو میں وہاں آ رہی ہوں۔اور خود کان سے پکڑ کر لے آؤں گی۔"

بیگم حامد اپنے بیٹے کیپٹن ساجد پر گرج رہی تھی۔ اور کچھ فاصلے پر بیٹھے مسٹر حامد اپنے بیٹے کی درگت بنتی دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔



"امی جان! میں نے بتایا بھی ہے کہ میری چھٹی منظور ہو گئی ہے میں جمعہ کو آ رہا ہوں اس سے پہلے نہیں آ سکتا۔آرمی کے قوانین انتہائی سخت ہیں۔"

دوسری طرف سے ساجد اپنی ماں کو سمجھانے کی کوشش کررہا تھا۔



"میں نہیں جانتی یہ قوانین پہلے حامد ان کی پناہ لیتے تھے اور اب تم۔ توکل آؤ گے مطلب کل آو گے۔"

بیگم حامد نے ضدی لہجے میں کہا تو مسٹر حامد کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ پھر تھوڑا سنجیدہ ہو کر سمجھانے والے انداز میں بولے۔ "بیگم! تمہاری یہ زبردستی ہم دونوں پر تو چل سکتی ہے۔ آرمی پر نہیں۔ بس دو ہی تو دن ہیں جمعہ میں۔ دو دن کی تاخیر سے کیا فرق پڑے گا۔"



"آپ چپ ہی رہیں۔ میں کچھ نہیں جاتنی۔ اور تم بھی سن لو ساجد اگر اب جمعہ کو نا پہنچے تو پھر تمہاری خیر نہیں۔"

بیگم حامد نے ناراض سے لہجے میں کہا اور پھر سلام کہنے اور دعائیں دینے کے بعد فون بند کر دیا۔



"آرمی والوں کے ساتھ رہنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔"



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



ابھی میجر سلمان اپنے دفتر میں آ کر بیٹھے ہی تھےکہ خصوصی فون کی گھنٹی سن کر چونک اٹھے۔ یہ فون صرف ان کے مخبروں کے لیے مختص تھا۔



"ہیلو۔ پبلک لائبریری"

میجر سلمان فون اٹھا کر لہجے بدلتے ہوئے بولا۔



"جی مجھے اردو کتاب ریفرنس نمبر 113 واپس کرنی ہے۔"

دوسری طرف سے کوئی پختون لہجے میں اردو بول رہا تھا۔



"اوکے۔ کلیر۔ تم اپنا پیغام نوٹ کروا دو۔"

میجر سلمان کے چہرے پر چھائی سنجیدگی کی جگہ اطمینان نے لے لی تھی۔



"مین ٹارگٹ نمبر 07 آج ایکس اہ تھرٹی پر ہو گا۔ پیغام ختم۔"

دوسری طرف سے کہنے کے ساتھ ہی رابطہ ختم کر دیا۔



پیغام سنتے ہی میجر سلمان کے چہرے پر جوش کی سرخی چھا گئی وہ فوری طور پر اٹھا اور اپنے سنیئر کمانڈر کے پاس جا کر ساری بات بتانے کے بعد ٹارگٹ کو ہٹ کرنے کے لیے ائیر فورس کو انفارمیشن ٹرانسفر کرنے کی اجازت طلب کی۔



"نہیں ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ کیونکہ مذکورہ پوائنٹ پر بہت زیادہ آبادی ہے۔ اس جگہ کو ہٹ کرنے کے لیے سب سے بہترین زریعہ ڈراون اٹیک ہی ہو سکتا ہے اور ہم قانونی طور پر اس علاقے کی انفارمیشن اتحادیوں کو منتقل کرنے کے پابند بھی ہیں۔"



سنیئر آفیسر نے کہا۔ اور وزارت خارجہ کو فون ملاتے ہوئے میجر سلمان کو جانے کا اشارہ کر دیا۔



میجر سلمان آفیسر کو سلوٹ کر کے واپس آ گیا اس کے چہرے پر غصے کے تاثرات صاف نظر آرہے تھے۔



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



"خان! اب آمنہ سات سال کی ہو گئی ہے اور اس نے پورا قرآن بھی پڑھ لیا ہے۔ اسے اسکول داخل کروا دینا چاہیے۔"

فاطمہ نے گل خان سے کہا تو گل خان کی پیشانی پر سوچ کی لائنیں بکھر گئیں۔



"فاطمہ! میری اولین خواہش ہے کہ میری بیٹیاں تعلیم حاصل کریں۔ لیکن میں صرف ایک مائن آپریٹر ہوں اگر ہما کے ساتھ ساتھ آمنہ کی بھی فیس جانے لگی تو ہم گزارہ کیسے کریں گے۔"

گل خان نے اپنی بڑی بیٹی کا نام لیتے ہوئے اپنی بیوی سے کہا تو بڑے مطمئن لہجے میں بولی۔



"آپ فکر مت کریں۔ جس اللہ نے پیدا کیا ہے رزق بھی وہ ہی دے گا۔ آپ بس اللہ کا نام لے کر بچی کا نام داخل کروا دیں۔ اللہ خود سبب پیدا کرے گا۔"

فاطمہ کے لہجے میں اطمینان ہی اطمینان تھا۔



"ٹھیک ہے! تم کل بڑی آپا کو بلا لینا اور ان کے ساتھ جا کر بچی کو اسکول میں داخل کروا دینا۔ لیکن داخلہ فیس کہاں دے دیں گے ابھی تو میرے پاس کوئی رقم نہیں ہے۔"

کہتے ہوئےگل خان کے لہجے میں پریشانی جھلکنے لگی۔



"آپ فکر مت کریں۔ میں نے کچھ روپے بچا کر مشکل وقت کے لیے رکھے ہوئے تھے۔ اگر وہ میری بچی کے کام نہ آئے تو اور کس کام آئیں گے۔"

فاطمہ رسان سے بولی تو گل خان کے چہرے پرشکر گزاری جھلکنے لگی۔



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



افغانستان میں موجود امریکن ڈرون سنٹر میں اس وقت کافی ہلچل مچی ہوئی تھی۔ ابھی ابھی حکومت پاکستان نے امریکہ کے ایک بہت بڑے دہشت گرد ک بارے میں اطلاع بھیجی تھی۔



میجر انڈریو کو یہ مشن اپنی نگرانی میں سر انجام دینے پر مامور کیا گیا تھا اور کیپٹن ڈرگ بھی اس کے ساتھ تھا۔ تمام ریڈنگز بالکل صحیح طریقے سے ایڈجسٹ کر دی گئی تھی اور اب ڈرون فضا میں اٹھ رہا تھا۔



سنٹر میں موجود تمام لوگ بہت مہارت کے ساتھ آلات کو کنڑول کر رہے تھے۔



سکرین پر ڈرون کو دیکھتا ہوا میجر انڈریو دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ وہ اس مشن کو باخوبی کامیاب کروا سکے۔



اب ڈرون پاکستانی حدود میں پہنچ چکا تھا۔ ابھی تک اس کو کسی بھی قسم کی رکاؤٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔



"بس پندرہ مزید منٹ تک کوئی گڑبڑ نہیں ہونی چاہیے۔" انڈرویو منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔



"کیا سب کچھ ٹھیک ہے سر۔" بربراہٹ سن کر ڈریگ نے پوچھا۔



"یس کیپٹن۔ سب کچھ ٹھیک ہے۔"



انڈریو کی آنکھیں سکرین سی چمٹی ہوئی تھیں۔



"ٹارگٹ ریچڈؕ"

کمپیوٹر کی آواز سنائی دی۔اور اس کے ساتھ ہی میزائل فائر ہو گیا۔ لیکن وہ میزائل ہوا میں ہی مڑا اور ایک دھماکے کے ساتھ اسکرین پر نظر آنے والی اسکول کی چھوٹی سی عمارت پر جا گرا۔



اینڈریو حیرت سے اسکریں کو دیکھ رہا تھا جہاں پر اب صرف دھویں اور مٹی کے بادل نظر آ رہے تھے۔



تھوڑی دیر بعد مٹی ہٹی تو اسکرین پر چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کے بے جان کٹے پھٹے جسم دکھائی دے رہے تھے۔



"اوہ میرے خدایا۔ یہ کیا ہو گیا۔" انڈریو نے دونوں بازو سر پر رکھے اور زمین پر بیٹھ گیا۔



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



گل خان ٹرالیوں میں بھرے ہوئے قیمی پتھروں کے اس اڈھیر کی طرف دیکھ رہا تھا جو اس کی آج کی محنت کا نیتجہ تھا۔ کہ اسی وقت آسمان پر پہلے طیارے کی آواز سنائی دی اور اس کے فوری بعد ایک کان پھاڑ دینے والے دھماکے کی آواز سنائی دی۔



اس کے ساتھ ہی اس کی آںکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



"کیا بات ہے جناب اس بار تو بہت جلدی تیاریاں شیارں مکمل ہو گئیں ہیں۔" راحت نے ساجد کی پیکنگ میں مدد کرواتے ہوئے کہا۔

"ہو کیوں نہیں۔ بھائی شادی کروانے جا رہا ہے۔ کوئی مزاق تو نہیں۔" ان کے تیسرے دوست امجد نے لقمہ دیا۔

"ہنس لو۔ اور ہنس لو۔ تب دیکھوں گا جب تمہاری زبردستی شادی کروا دی جائے گی۔" ساجد نے مصنوعی برا مانتے ہوئے کہا۔



ساجد کی بات سن کر تینوں دوست قہقہ لگا کر ہنس پڑے۔



اسی اثنا میں میرے پر دستک دے کر میجر عمران اندر داخل ہوئے۔



تینوں اٹین شین ہو کر کھڑے ہوگئے اور میجر عمران کو مشترکہ سلوٹ گیا۔



میجر عمران نے جوابی سلوٹ کیا۔ اور ساجد کی طرف متوجہ ہو کر بولے۔



"سوری کیپٹن ساجد! آپ کی چھٹی کو 06دن کے لیے ملتوی کیا جا رہا ہے۔ آپ کو اور آپ کے اسپیشل ٹیم کے تمام ساتھیوں کو ایک خصوصی مشن کے لیے بھیجا جا رہا ہے۔"

"لیکن وہ سر اسکی تو" راحت نے کہنا چاہا تو میجر عمران اس کی بات کاٹ کر بولے۔"جانتا ہوں۔ یہ ایک ہفتے میں واپس آ جائے گا۔ ' اور آپ ابھی باہر جا کر گرواند کے پچاس چکر لگائیں گے۔تا کہ آپ کو باور ہو سکے کہ آرڈرز کو صرف فالو کیا جاتا ہے ان پر سوال نہیں کیاجاتا۔"

"ایم آری کلیر۔"

میجر عمران نے خاصے سخت لہجے میں کہا تو تینوں نے بیک وقت کہا۔

"یس سر"



"گڈ" میجر عمران کہہ کر چلے گئے۔

اور ان کے پیچھے پیچھے راحت بھی گراونڈ میں اپنی سزا مکمل کرنے چلا گیا۔



ساجد نے امجد کی طرف دیکھا اور صرف ایک لفظ کہا "امی"



تو قہقہہ لگا کر امجد بھی باہر چلا گیا۔ اور ساجد نے خود کو زہنی طور پر تیار کرتے ہوئے فون کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



اچانک ہی ایک جھٹکے سے گل خان کی آںکھوں سے اندھیرے کی چادر ہٹ گئی۔ وہ کچھ سوچنے اور سمجھنے سے قاصر تھا۔ اس نے اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی تو اس سے منہ سے بے اختیار درد کی وجہ سے ایک سسکی سی نکل گئی۔



درد کا احساس ہوتے ہی اس کی یادداشت نے پھر سے کام کرنا شروع کر دیا۔ اس نے جھٹکے سے مڑ کر کان کی طرف دیکھا تو پوری کی پوری کان بیٹھ چکی تھی۔ اس کے ساتھ کام کرنے والے دوست کان کے اندر ہی دب گئے تھے۔ وہ بے اختیار کان کے ملبے کی طرف بڑھا اور دونوں ہاتھوں سے اسے ہٹھانا شروع کر دیا۔ وہ خود کان کے دروازےکے ساتھ کھڑا تھا اور اس سے کچھ فاصلے پر ہی سکایت کھڑا تھا باقی ساتھی بہت نیچے کان کی غار کے آغاز میں تھے۔ وہ سکایت کو آوازیں بھی دیے جا رہا تھا اور پکارے بھی جا رہا تھا۔ اس کو اپنے زخم اور تکلیف یکسر بھول چکی تھی۔ دو منٹ بعد ہی اس کے ہاتھوں سے کسی کا جسم ٹکرایا۔ اس نے مزید تیزی سے مٹی ہٹانی شروع کر دی اس پر بالکل ہذیانی کیفیت طاری تھی۔ تھوڑی دیر میں وہ اس جسم پر سے مٹی ہٹا چکا تھا۔ وہ سکایت ہی تھا۔ اس کا منہ اور ناک میں مٹی بھر چکی تھی۔ لیکن اس کا سر پتھروں سے کچلا جا چکا تھا۔

سکایت میں سانس باقی نہیں رہی تھی۔ سکایت ہلاک ہو چکا تھا۔ گل خان نے اپنی قبائلی روایت کے تحت لاش کے چہرے پاس پڑی اپنی چادر سے ڈھکا۔ چادر کو سکایت کے چہرے پر ڈالتے ہی اس کو فاطمہ اور اپنی بچوں کا خیال آیا۔



اور اس نے گاؤں کی طرف بھاگنا شروع کر دیا۔



گاؤں کے قریب پہنچتے ہی اسے گاؤں سے دھوئیں کے اٹھتے ہوئے بادل دکھائی دینے لگے۔ لیکن اس وقت تک وہ تکلیف کو برداشت کرنے کی آخری حد تک پہنچ چکا تھا۔ وہ زمین پر گر گیا۔ لیکن وہ رکا نہیں اور رینگتے ہوئے گاؤں کی طرف بڑھنے لگا۔



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



"تم لوگوں کی وجہ سے ہمارا مشن برباد ہو گیا۔ اتنا بڑا دہشت گرد بچ گیا۔ سینکڑوں معصوموں کی جان چلی گئی۔ میں اس کی وجہ ضرور جاننا چاہوں گا۔"

اینڈریو اپنے ماتحتوں پر بری طرح سے برس رہا تھا کہ ڈریک نے آ کر اس کے کان میں کہا۔ "سر جنرل آپ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔"

اینڈریو نے پیغام سن کر ایک بار پھر اپنی ماتحتوں پر نظر ڈالی

"اگر مجھے کوئی سچی وجہ نے دے سکے تو سب کا کورٹ مارشل کرواں گا۔"

بولتے ہوئے وہاں سے نکل آیا اور لفٹ سے گراونڈ فلو ر پر پہنچا اور دو تین گلیاں کراس کر کے جنرل کے دروازے پر پہنچ گیا اور دستک دے کر انتظار کرنے لگا۔



اندر سے کم آن کی آواز سن کر کمرے میں داخل ہو کر جنرل کو سلیوٹ کیا جنرل نے اشارے سے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔



"ویل ڈن۔ مسٹر انڈریو تم نے بہت اچھا کام کیا ہے۔"

جنرل نے کہا۔

"میں لگتا ہے سر آپ کے پاس صحیح اطلاع نہیں پہنچی ہم نے غلط ٹارگٹ ہٹ کیا ہے۔"

اینڈریو نے شرمندہ سے لہجے میں کہا۔

"میں جانتا ہوں اسی لیے حقیقت بتانے کے لیے میں نے تمہیں بلایا ہے تاکہ تم اپنے ماتحتوں کے ساتھ غیر ضروری سخت سلوک مت کرو۔"

جنرل نے کہنا شروع کیا تو اینڈریو کے چہرے پر حیرت پھیل گئی۔ جنرل نے سانس لے کر پھر سے بولنا شروع کر دیا۔

"پچھلے دنوں جو اسرائیل سے ٹیکنیکل ایکسپرٹ بلایا گیا تھا۔ وہ صرف اسی فکسیشن کے لیے بلایا گیا تھا۔ اب تمہیں بتانا ضروری ہو گیا ہے۔کہ ہمارا اصل پلان کیا تھا۔ لیکن پہلے تم مقدس بائبل پر حلف دینا پڑے گا کہ تم اس بارے میں کوئی بھی بات لیک اوٹ نہیں کرو گے۔ یا تم حلف دینے پر تیار ہو۔"



بات ختم کرکے جنرل نے پوچھا۔



"یس سر! میں ہولی فادر اور مقدس بائبل پر حلف دیتا ہوں کہ اس کمرے میں ہونے والی کسی بات کو لیک اوٹ نہیں کروں گا۔"

اینڈریو نے کہا۔

تو جنرل اپنی سیٹ سے اٹھ کر اینڈریو کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھا اور اینڈریو کے کان میں تفصیل بتانے لگا۔ تفصیل سن کر اینڈریو کا چہرہ حیرت سے بگڑتا جا رہا تھا اور آنکھیں پھیلتی جا رہی تھیں۔





۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



آئی ایس آئی کے ہیڈ کواٹر میں موجود میجر سلمان اپنے آفس میں بیٹھا ہوا ابھی ابھی اپنے سنئیر کی طرف سے بھجوائی ہوئی ناکام ڈارون اٹیک مشن کی فائل پڑھ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر دکھ اور پیشانی پر سوچ کی لکیریں نظر آرہی تھیں۔



"نہیں ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اتنی اچھی مشینری والے ڈرون میں خود بخود کوئی ٹیکنیکل خرابی نہیں آ سکتی۔" وہ بڑبڑاتے ہوئے اٹھا اور سیدھا اپنے سنیئر کے دفتر میں پہنچ گیا۔



"سر! میں اس کیس کے بارے میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔"

"اوکے۔ پندرہ منٹ بعد آنا میں تب تک میں فارغ ہو جاؤں گا۔"

سینئر نے مصروف سے انداز میں میجر سلمان کی طرف دیکھ کر کہا اور پھر سے فائل پر جھک گیا۔



اپنے سینئر کا ایسا انداز دیکھ کر میجر سلمان کا سر گھوم گیا اور فائل اس کے ٹیبل پر چٹختے ہوئے بولا۔



"133 معصوم لوگ جن میں 45بچے اور 25عورتیں شامل تھیں اور ماری گئیں، امریکن کہتے ہیں کہ یہ ایک ٹیکلن مسٹیک ہے اور آپ کے پاس اس پر بات کرنے کے لیے وقت نہیں ہے۔"



میجر سلمان نے چیختے ہوئے کہا تو فوری طور پر دروازے پر کھڑے گارڈ اندر آ گے۔ اور حیرت سے میجر سلمان کو دیکھنے لگے۔



سینئر آفیسر نے فائل بند کی۔ اور دونوں گارڈز کو ہاتھ کے اشارے سے باہر بھیج دیا اور میجر سلمان سے بولا۔



"آرام سے بیٹھو "

میجر سلمان کے بیٹھ جانے پر اسے پانی کا گلاس دیتے ہوئے بولا۔

"یہ سارا عمل ایک مشینی آپریشن تھا۔ جس میں فنی خرابی کسی بھی وقت آ سکتی ہے۔ ہمارے پاس سوائے اس کو ماننے اور اس کی تحقیق کروانے کے کوئی اور چارہ ہے کیا۔ اگر ہے تو بتاؤ میں ضرور اس پر عمل کروں گا۔"



سینئر آفیسر نے کہا۔ تو میجر سلمان نے چہرے مایوسی پھیل گئی۔ اسے احساس ہو گیا تھا کہ اس معاملے میں اس کا سنیئر بھی اتنا ہی بے بس ہے جتنا کہ وہ خود۔



"آئم سوری سر۔کہہ کر اور سلیوٹ کر کے وہ اپنے دفتر میں واپس آ گیا۔



ٹیبل پر بیٹھتے ہی دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام کر بڑبڑانے لگا کہ "ہم کر ہی کیا سکتے ہیں۔""ہم کر ہی کیا سکتے ہیں"



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



گل خان گاؤں میں پہنچ چکا تھا۔ پورا گاؤں خون سے نہایا ہوا لگ رہا تھا۔ جا بجا بچوں، عورتوں اور مردوں کی لاشوں کے ٹکرے بکھرے ہوئے تھے۔ کچھ جسم مکمل شکل میں بھی پڑے ہوئے تھے۔ گل خان ایک ایک لاش کے پاس جا کر ان کی سانسیں محسوس کرنے کی کوشش کر رہا تھا ان کے دل کی دھڑکن تلاش کر رہا تھا۔ یہ سارے لوگ اس کے اپنے تھے اس کے پیارے تھے۔



تھوڑا ہی آگے گیا ہوگا کہ اس کو کس کی درد بھری آہوں کی آواز سنائی دی۔ یہ آوازیں گل خان کے پیچھے سے سنائی دے رہی تھیں۔گل خان نے مڑ کر پیچھے دیکھا تو اس کو لکڑی کے ٹکروں کے نیچے خون میں لت پت ایک ہاتھ دیکھائی دیا۔ گل خان بے تابی سے آگے بڑھا اور لکڑی کے تختے ہٹانے شروع کر دیے۔



نیچے محلہ کا دوکان دار تھا۔ جو اپنی ہی دوکان کے ملبے میں دبا پڑا تھا۔ اس کی سانسیں بہت مشکل ہی چل رہی تھیں اور اس کو کوئی ہوش نہیں تھا۔ گل خان اسے ہوش میں لانے کے لیے آوازیں دینے لگا۔ بازین خان اٹھو یارا آنکھیں کھولو۔ گل خان کے چیخ چیخ کر پکارنے پر بازین خان نے اس کو آنکھیں کھول کر دیکھا۔ اس کے ہونٹ کچھ کہنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس نے اپنے کان اس کے ہونٹوں سے لگا دیے بازین خان کلمہ طیبہ کا ورد کر رہا تھا۔ ابھی اس نے دو مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھا ہی تھا کہ اس کی آواز آنی بند ہو گئی۔ اس کے جسم سے روح خارج ہو گئی تھی۔ گل خان سے اس کا جسم کپڑوں سے ڈھانپا اور فاطمہ اور اپنی بچیوں کو تلاش کرنے لگا۔ اسکول کا خیال آنے پروہ اس جگہ کا اندازہ لگانے لگا جہاں پر کبھی اسکول تھا۔



پورا دن وہ اپنے پیاروں کو لاشوں میں تبدیل ہوتے دیکھتا رہا وہ پتھر ہٹا ہٹا کر ہر جگہ سے لاشوں کو نکال رہا تھا۔ اور ان کو ایک جگہ پر اکھٹے کیے جار ہا تھا۔ اچانک اس نے ایک پتھر اٹھایا تو نیچے سے اس کی پیاری بیٹی، اس کی زندگی آمنہ کا کچلا ہوا جسم پڑا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر گل خان کو اپنے جسم سے روح نکلتے ہوئے محسوس ہوئی۔ لیکن پھر فاظمہ اور ہما کا خیال آتے ہی وہ جلدی جلدی قریب سے پتھر اٹھانے لگا اور تھوڑی ہی دیر میں وہ فاطمہ، ہما اور اپنی بڑی بہن کا جسم برآمد کر چکا تھا۔ اور انہیں اٹھائے باقی لوگوں کے پاس لایا اور اپنے پیارے کے جسموں کے ڈھیر کے پاس بیٹھ کر چیخنے لگا۔ اس کی چیخیں سن کر پتھر اور وہ وادی بھی رو رہی تھی۔



اس علاقے کا ایک ایک پتھر رو رہا تھا۔



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



ملک میں روز روز ہونے والے بم دھماکوں میں ہزاروں موت لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ان دھماکوں کے پیچھے ایک ہی شخص ہے جس کو بیرونی ممالک سے امداد مل رہیں ہیں۔



اب حکومت نے اس کو زندہ یا مردہ گرفتار کرنے کی زمہ داری اسپیشل سروسز گروپ کو سونپی ہے۔ اب ہمیں یا کام کرنا ہے۔ اپنے ملک کے لیے اپنی قوم کے لیے۔



یہ علاقہ انتہائی خطرناک ہے شرپسند وہاں سالوں سے رہ رہے ہیں ہر قدم پر ہمارا سامنا موت سے ہو گا۔ ہر پتھر کے نیچے موت چھپی بیٹھی ہو گی یا تم لوگ اس علاقے میں مشن مکمل کرنے کے لیے تیار ہو۔ کون ہے جو موت کی آںکھیں میں آنکھیں کے لیے تیار ہے۔ کون ہے جو مادر وطن کا قرض ادا کرنے کے لیے بالکل تیار ہے۔



اپنے کمانڈنگ آفیسر کی بات سن کر کیپٹن ساجد سمیت تمام ساتھیوں نے بلند آواز میں کہا مادر وطن کے لیے اپنی قربانی دینے کے لیے اقرار کیا۔



ان سب کے چہرے ایمان کی مضبوطی سے دھمک رہے تھے اور اس کی آںکھوں میں حاصل ہو جانے والی منزل کی چمک اور آہنی ارادوں کی مضبوطی جھلک رہی تھی



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



"اٹھو بھائی۔ کیا کوئی اور بھی بچا ہے۔" گل خان کے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھ کر پوچھا تو وہ چونک کر اسی کی طرف دیکھنے لگا۔ یہ ایک پچاس سے پچپن سال کے درمیان کا آدمی تھا جو اپنی وضع قطع سے کسی مسجد کا امام نظر آرہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے بھی دکھ اور غصے کا اظہار بیک وقت ہو رہا تھا۔



"سب یہ پڑے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ میرے پیچھے ۔ ۔ ۔ ۔ یہ میری آمنہ ہے ۔ ۔ ۔ ۔ آج اس کا اسکول کا پہلا دن تھا ۔ ۔ ۔ ۔ فاطمہ نے بچت کر کر کے اس کو پڑھانے کے لیے پیسے جمع کیے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو میری بچی یونیفارم میں کتنی پیاری لگ رہی ہے۔ " گل خان کی اس حالت پر بوڑھے کے ساتھ آئے ہر فرد کی آنکھوں میں آنسو اوردلوں میں غصہ بھرتا جا رہاتھا۔



لاشوں کے لیے گڑے کھودتے ہوئے ہر فرد کا خون ابل رہا تھا اور آنکھوں کی سرخی بڑھتی جا رہی تھی۔ اب ان آںکھوں سے آنسو نہیں آ گ نکل رہی تھی۔ تمام لاشوں کو دفنانے کے بعد ان لوگوں نے گل خان کو اپنے ساتھ لیا اور پیچھے تین قبروں میں سینکڑوں لوگوں کا قبرستان چھوڑ گئے۔



گل خان کی دماغی حالت درست نہیں رہی تھی۔ لیکن وہ پھر بھی وہاں سے جانے پر رضا مند نہیں تھا۔ وہ لوگ اسے وہاں سے کھینچتے ہوئے لیے جا رہے تھے اور گل خان مڑ مڑ کر پیچھے دیکھتا جا رہا تھا۔



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



"اللہ اکبر ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ اکبر۔ حسب عادت فجر کی آزان کے ساتھ ہی گل خان کی آںکھ کھل گئی۔ اس کو اپنا سر بھاری بھاری معلوم ہو رہا تھا۔ اس نے چارپائی سے نیچے قدم رکھے تو اس کا جوتا موجود نہیں تھا اور جس پر پٹیاں بندھی ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ اس کو لگا کہ وہ اپنے گھر میں موجود نہیں ہے۔ اس خیال کے آتے ہی اس کے اوپر آگہی کے در کھلتے گئے اس کو کل کا بیتاہوا ایک ایک واقعہ یاد آ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ اس وقت وہی ضعیف آدمی اس کے کمرے میں آیا لیکن اس نے گل خان کو رونے سے روکا نہیں۔



"رو لو دوست۔ ۔ ۔ ۔ رو لو ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے درد کم تو نہیں ہو گا یا درد کو پالنے کا حوصلہ ضرور ملے گا۔" ضعیف آدمی تھوڑا رکا پھر مزید گویا ہوا۔"چلو اپنے خدا کے سامنے جھکنے کا وقت آ گیا ہے۔" وہ گل خان کو سہارا دے کر باہر لے آیا۔



نماز فجر کے بعد اسی ضعیف آدمی نے جہاد پر بیان کیا اور وہ تمام لوگ جو کل گل خان کے گاؤں سے ہو کر آئے اور دیگر افراد کا دل بھی کچلا سا جا رہا تھا۔ وہ ضعیف آدمی انہیں کہہ رہا تھا۔



"یہ بزدل۔ ۔ ۔ ۔ بچوں اور عورتوں کے قاتل ۔ ۔ ۔ ۔ ہم انشاء اللہ ان کو میدان جنگ میں ضرور دھول چٹائیں گے۔ ہم ان کو ضرور تباہ ہو برباد کر دیں گے۔ ان پر اللہ کا عذاب نازل ہو گا۔ اور یہ بس تباہ ہو جائینگے۔"



"لیکن بزرگوار! " یہ نوجوان نے کہنا شروع کیا" پاکستانی تو مسلمان اور ہمارے بھائی ہے۔ ان کے خلاف ہماری جنگ کیوں ہے۔"نوجوان کی بات سن کر اس آدمی کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ بولا۔ "ہم مسلمانوں کے دشمن نہیں ہے۔ ہماری دشمن تو ان کی ملحد حکومت کے ساتھ ہے۔ اور ہم انشااللہ کامیاب ہو ں گے"



اس کے کہتے ہی "نعرہ تکبیر" "اللہ اکبر" کے نعرے گونجنے لگے۔





۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



ایک بلیک کوبرا ہیلی کوپٹر نے کپیٹن ساجد اور اس کے دوسرے ساتھ کو رسی کے زریعے مشن اسپاٹ پر اتارا۔ تمام کمانڈوز بڑی خاموشی کے ساتھ آگے بڑھے جارہے تھے۔



کمانڈوز شاہینوں کی نگاہوں سے جائزہ لیتے ایک دوسرے کو اشارے کرتے آگے ہی آگے بڑھے جار ہے تھے۔



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



ایک پیدائشی پٹھان کو بندوق چلانے کے لیے کسی ٹرینگ کی ضرورت نہیں ہوتی اور پہاڑوں پر لڑنا صرف انہی پر موقوف ہے۔ گل خان کو بھی اسلحہ اور بارود سے لیس کیا جا چکا تھا۔ اوراس نے خود کو خود کش بمب بلاسٹ کے لیے بھی پیش کر دیا تھا۔ اب وہ دنیا میں رہنا نہیں چاہتا تھا سب جلد از جلد شہید ہو کر اپنے بچوں سے ملنا چاہتا تھا۔ دو ایک دن میں اس کو کراچی میں امریکن کمپنی میں خود کش بم بلاسٹ کے لیے بھیجا جانے والاتھا۔ اب اس کا زیادہ تر وقت ٹرینگ لیتے اور عبادت کرتے گزرتا تھا۔ وہ ضعیف مولانا وہاں سے جا چکے تھے تاکہ اور لوگوں کو جہاد کی طرف مائل کر سکیں۔



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



اچانک انہیں دور سے روشنی دکھائی دی۔وہ بہت خاموشی سے اس روشنی کی جانب بڑھنے لگے۔ اور اس روشنی کے بہت قریب پہنچ گئے تھے کہ اچانک ایک خاموش گولی آئی اور ایک کمانڈو کے سینے میں پیوست ہوگئی۔ کمانڈو کی چیخ سن کر سب کمانڈوز نے فائر کھول دیا۔ دونوں طرف سے فائرنگ شروع ہو گئی۔ وقفے وقفے سے دونوں طرف کے لوگ کم ہو رہے تھے۔ اچانک کیپٹن ساجد دوڑ کر آگے بڑھا اور اس نے مکان کے اندر چھلانگ لگا دی۔ لیکن گل خان دروازے میں ہی اس سے بھڑ گیا۔ وہ دونوں زور آزمائی کر رہے تھے۔ کہ اچانک ہی دونوں کے منہ سے اللہ اکبر کا نعرہ ایک ساتھ نکلا اور دونوں نے اپنے جسموں سے بندھے ہوئے بارود سے خود کو اڑا لیا۔



پورا گھر اڑ چکا تھا۔ کیپٹن ساجد اور اس کے ساتھی کمانڈوز کا مشن پورا ہو چکا تھا۔ لیکن مطلوبہ دہشت گرد کو پہلے ہی اطلاع مل گئی تھی وہ وہاں سے جا چکا تھا۔



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



افغانستان کے ایک نامعلوم مقام پر ایک زمین دوز سیو سیف میں را کا سربراہ کرنل راتھوڑ، موساد کا سربراہ کرنل ڈیوڈ اور امریکی جنرل اسمتھ بیٹھے ہوئے اپنی کامیاب پالیسی کو سیلبریٹ کر رہے تھے۔ اس اثنا میں دروازے پر سرخ بلب روشن ہوا اور سر سے پاؤں تک سیاہ لبادے میں ایک آدمی اندر داخل ہوا۔ آؤ کمانڈر ہم تمہاری ہی فتخ کا جشن منا رہے ہیں۔ وہ آدمی قریب آ کر اپنے چہرے سے نقاب ہٹاتا ہے تو پتہ چلتا ہے یہ تو وہی ضعیف آدمی ہے جو گل خان کو ملاتھا۔



"کیا کہتے تھے یہ لوگ کرنل راتھوڑ ہم کیا ہے ایک قوم"

کرنل ڈیوڈ کے کہتے ہی سب نے ملک کر ایک کان پھاڑ دینے والا قہقہہ لگایا ۔



"اور کیا کہتے تھے ۔ پاکستان السلام کا قلعہ ہے۔" کرنل راتھوڑ نے ہنستے ہوئے کہا تو اس بار ان کا قہقہ پہلے سے بھی بلند تھا۔"



"اور اور ہم ایک ہیں" کرنل راتھوڑ نے کہا تو جنرل اسمتھ پیٹ پر ہاتھ رکھ کر بولا۔ "اور مت ہنساؤ راتھوڑ مجھ سے ہنسی کنٹرول نہیں ہو رہا۔"



"آپ کا پلان انتہائی شاندار جنرل، واقعی اگر اس قوم کو ہرانا تھا تو آپ کے پلان سے بہترین اور کوئی پلان نہ تھا۔ ایک ٹیکنیکل مِسٹیک کا بہانہ کر کے ہم نے ان کے لوگوں کو ان کے ہی خلاف کر دیا۔ آج یہ ایک دوسرے سے ہی لڑ رہے ہیں اور ایسے ہی ختم ہو جائیں گئے۔" ضعیف آدمی نے خوش ہوتے ہوئے پوری تقریر کر ڈالی۔



اتنے میں جنرل راٹھوڑ پھر بولا۔ اور وہ کیا کہتے تھے۔

"پاکستان اسلام کا قلعہ ہے۔"



اس بات پر پھر سے سب قہقہے لگانے لگے۔