بوندوں کو برسنے دو
بوندوں کو برسنے دو
میرے خواب بھیگ جانے دو
مجھے افق کے پار جانا ہے
مجھے اپنے پر پھیلانے دو
بانہیں پھیلائے فضا میں دوڑیں لگاؤں
پائنچے بچا کر ستارے پھلانگوں
چاند پر رسی کا جھولا ڈالوں
مشرق سے مغرب اسے جھولاؤں
بادلوں کو اپنا تکیہ بنا لوں
تفکرات سے اپنا پیھچا چھڑا لوں
خوشیوں کا کوئی گیت گنگنا لوں
آسمانوں میں اپنا گھر میں بسا لوں
بوندوں کو برسنے دو
میرے خواب بھیگ جانے دو
مجھے افق کے پار جانا ہے
مجھے اپنے پر پھیلانے دو
ہو میرا مسکن سب سے اونچے شجر پر
ہو میرا مکتب سب سے مشکل حجر پر
ہو میرا سفینہ سب سے گہرے بحر پر
ہو میرا جینا سب سے سچے ڈگر پر
میں چاہتیں لٹا دوں گا
میں ریاضتیں بھلا دوں گا
نئی کہانیاں بنا دوں گا
میں کشتیاں جلا دوں گا
بوندوں کو برسنے دو
میرے خواب بھیگ جانے دو
مجھے افق کے پار جانا ہے
مجھے اپنے پر پھیلانے دو
راکھ بھی فصلوں کے کام آتی ہے
دھوئیں سے تصویر شکل پاتی ہے
عقل جب کبھی نکمی شئے بتاتی ہے
نظر کے سامنے تیری صورت آ جاتی ہے
اب تو باتیں بنانا چھوڑ دے
حلق پھاڑ نعرے لگانا چھوڑ دے
دقیق گمراہی پھیلانا چھوڑ دے
شیطانی نفرت بڑھانا چھوڑ دے
بوندوں کو برسنے دو
میرے خواب بھیگ جانے دو
مجھے افق کے پار جانا ہے
مجھے اپنے پر پھیلانے دو
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment