Sunday, July 3, 2011

بوندوں کو برسنے دو

بوندوں کو برسنے دو



بوندوں کو برسنے دو
میرے خواب بھیگ جانے دو
مجھے افق کے پار جانا ہے
مجھے اپنے پر پھیلانے دو



بانہیں پھیلائے فضا میں دوڑیں لگاؤں
پائنچے بچا کر ستارے پھلانگوں
چاند پر رسی کا جھولا ڈالوں
مشرق سے مغرب اسے جھولاؤں
بادلوں کو اپنا تکیہ بنا لوں
تفکرات سے اپنا پیھچا چھڑا لوں
خوشیوں کا کوئی گیت گنگنا لوں
آسمانوں میں اپنا گھر میں بسا لوں



بوندوں کو برسنے دو
میرے خواب بھیگ جانے دو
مجھے افق کے پار جانا ہے
مجھے اپنے پر پھیلانے دو



ہو میرا مسکن سب سے اونچے شجر پر
ہو میرا مکتب سب سے مشکل حجر پر
ہو میرا سفینہ سب سے گہرے بحر پر
ہو میرا جینا سب سے سچے ڈگر پر
میں چاہتیں لٹا دوں گا
میں ریاضتیں بھلا دوں گا
نئی کہانیاں بنا دوں گا
میں کشتیاں جلا دوں گا



بوندوں کو برسنے دو
میرے خواب بھیگ جانے دو
مجھے افق کے پار جانا ہے
مجھے اپنے پر پھیلانے دو



راکھ بھی فصلوں کے کام آتی ہے
دھوئیں سے تصویر شکل پاتی ہے
عقل جب کبھی نکمی شئے بتاتی ہے
نظر کے سامنے تیری صورت آ جاتی ہے
اب تو باتیں بنانا چھوڑ دے
حلق پھاڑ نعرے لگانا چھوڑ دے
دقیق گمراہی پھیلانا چھوڑ دے
شیطانی نفرت بڑھانا چھوڑ دے



بوندوں کو برسنے دو
میرے خواب بھیگ جانے دو
مجھے افق کے پار جانا ہے
مجھے اپنے پر پھیلانے دو

No comments:

Post a Comment