نفس کی زور آوری ہے
صبر کا بند کمزور سا
دروازے کے باہر بلائیں ہیں
اور زندگی ہے شور سا
پسند‘ کا لبادہ اوڑھ کر
نفس حاوی ہو رہا ہے
غیرت و حیا کی ریت پر
قفس حاوی ہو رہا ہے
حقیقت سے ناتہ توڑ کر
عکس حاوی ہو رہا ہے
دم میرا ہے گھٹ رہا
حبس حاوی ہو رہا ہے
نفس کی زور آوری ہے
صبر کا بند کمزور سا
دروازے کے باہر بلائیں ہیں
اور زندگی ہے شور سا
کل جس کو سراب کہتے تھے
آج ایک ٹھوس حقیقت ہے
کل تک جو راحت عام تھی
آج رائج الوقت مصیبت ہے
کل تک جو طلب چاہت تھی
آج وہ ہی سامان عزیت ہے
کل فخر زن تھا پردہ بدن
آج تن سجائی رفاقت ہے
نفس کی زور آوری ہے
صبر کا بند کمزور سا
دروازے کے باہر بلائیں ہیں
اور زندگی ہے شور سا
اظہار کے طریق کو
زنجیر کر کے دیکھ لو
دست آزاد کا سارا پانی
تبخیر کر کے دیکھ لو
ظلم کی کوئی بھی اور
تدبیر کر کے دیکھو لو
ابر رحمت برسے گی
تصویر کر کے دیکھ لو
نفس کی زور آوری ہے
صبر کا بند کمزور سا
دروازے کے باہر بلائیں ہیں
اور زندگی ہے شور سا
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment